قارئیں میں بندہ ناچیز اس عنوان پر پانچ سال پہلے وڈیو بنا کر یوٹیوب کی زینت بنا چکا ہوں رضوی بھائی آنُ لائن پر مگر آج تحریر پیش خدمت ہے
دوستوں باغی گروہ والئ رویت صحیح بخاری میں ہے کہ مسجد نبوی کی تعمیر ہو رہی تھے تو عمار کو رسول اللہ نے کہا اے عمار تم کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا تم جنت کی طرف بلاو گئے اور وہ تم کو جہنم کی طرف بخاری 2812
سوال پیدا ہوتا ہے کہ ام مومنین عائشہ رض جہنم کی طرف بلانے والی تھے طلحہ زبیر معاویہ اور دیگر صحابہ
نقطہ قابل غور کہ اینٹیں عمار اٹھا رہے تھے مسجد نبوی کی تعمیر سن ایک ھجری 1ھ کا واقعہ بیان ہو رہا ہے
اب دیکھتے ہیں صحیح مسلم 7320 میں ابوسعیدخدری کہتے ہیں کہ خندق کھود رہے تھے تو عمار اینٹ اٹھا رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے کہا کہ اے سمیہ کے بیٹے تم کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا
صحیح مسلم کی اگلی روایت 7321 میں کہتے ہیں کہ ابوسعید خدری نے یہ واقع رسول اللہ سے نہیں بلکہ ابوقتادہ سنا ہے یعنی رویت مرفوع نہیں موقوف ہے
قارئیںُ فلحال روایات کے متن دیکھ لیں پھر سند اور نوعیت پر بات کرتے ہیں صحیح مسلم کے اس سے بھی اگلی رویت 7322 میں ہے کہ ام مومنیں ام سلمہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ نے عمار کو کہا کہ تم کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا
مسند احمد میں 11883 میں ہے کہ ابن عباس اور علی بن عبداللہ ابن عباس گئے ابوسعیدخدری کے پاس انہوں نے مسجد بنوی کی تعمیر والا واقع بیان کیا بخاری والا کہ عمار تم کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا
المستدرک علی صحین2653 امام حاکم بشرط بخاری ومسلم رویت یہی لاتے ہیں جو مسند احمد میں ہے کہ ابن عباس اور اپنے بیٹے علی کے ساتھ گئے خوارج کے متعلق حدیث پوچھنے تو ابوسعیدخدری نے بتایا کہ عمار کو باغی گروہ یعنی خوارج قتل کرے گا
اس رویت میں صاف زکر ہے خوارج کا کہ گروہ باغی ہوگا وہ خوارج ہوں گے
قارئیں واضع ہوا چند احادیث سے کہ ایک رویت مسجد نبوی کی تعمیر کی ہے اور یہ ایک ھجری کا واقعہ ہے پھر دوسری رویت میں حندق کھود رہے تھے تو عمار اینٹ اٹھا رہے تھے مگر سوال یہ بنتا ہے بقول ابن کثیر البدایہ والنہایہ میں کہ خندق کے موقع پر اینٹ کا کیا تعلق اور خندق میں کوئی اینٹ استعمال نہیں ہوئی نہ مسجد نبوی میں رویت مشکوک ہے ابن کثیر
یہاں اینٹ سے مراد پتھر ہوسکتا ہے تو خندق میں بھی پتھر کا تعلق سمجھ نئ آتا خیر پھر بھی سوال یہ ہے کہ 5 ھجری کا واقعہ خندق ہے اور مسجد ھجری کا واقعہ ہے رسول اللہ نے کس موقع پر کہا یہ اضطراب رویت کا دور کیسے کیا جائے اور پھر خندق کے موقع پر ابوبکر و عمر عثمان کا زکر بھی آیا کہ وہ پتھر اٹھا رہے تھے مگر اینٹ کا لفظ نہیں لبن اور حجر میں فرق آیا
چلو مان لیں مسجد نبوی کا واقعہ ہے تو خندق ۵ ھجری والہ واقع سمجھ نہیں آتا اور اس کو رویت کیا ام سلمہ نے جبکہ ام سلمہ نکاح رسول میں چار ھجری میں آئی وہ مسجد نبوئ ایک ھجری کا واقعہ کیسے بیان کیا رویت مرسل ہوجائے گی اگر ابوھریرہ والی رویت کو تو سات ھجری ایمان لائے عمروابن عاص کی رویت لو تو وہ بھی سات ھجری میں مسلمان ہوئے رویت ہر طرح سے مرسل صحابئ اور مضطراب کا شکار ہے ابوسعید خدری بھی رسول اللہ سے بیان کرتے ہیں تو امام مسلم نے کہا کہ وہ رسول اللہ سے نہیں قتادہ سے رویت کرتے ہیں
بخاری کی رویت مسجد نبوی والی ام سلمہ رویت کر نہیں رہی کیونکہ وہ چار ھجری میں نکاح رسول میں آئی اور آپ کا مسجد نبوئ بننے والی جگہ کیا کام دوسرا خندق پانچ ھجری میں عورتوں کو ایک قلع میں بند کر دیا گیا تھا تاریخ ابن ھشام کے مطابق تو وہ خندق پر جا کر سن کیسے سکتی ہیں
ا
امام ابن رجب حنبلی اس رویت باغیہ والی کا رد اپنی بخاری کی شرح
فتح الباری میں لکھتے ہیں کہتے ہیں اس موضوع کی سب روایات ضعیف ہیں اور بخاری کے رویت مدرج مضطرب ہے اور امام احمد ابن حنبل کے نزدیک تقتک الفیہ الباغیہ والی اٹھائیس روایات ہیں اور سب کی سب ضعیف ہیں اور صحیح بخاری کی رویت بخاری کے اصل قلمی میں نسخہ میں نہیں تھی بعد میں کشمھنی کے نسخہ میں ڈال دی گئی مزید سکین دیکھ لیں
سیرہ النبویہ ابن کثیر نے بھی کہا کہ بخاری نے یہ رویت ایسے نقل کی ہی نہیں
امام بخاری پر حجت ابن حجر اسقلانی سمجھے جاتے ہیں ابن حجر اپنی بخاری کی شرح فتح الباری صحیح بخاری میں اس رویت کوُ صاف لفظوں میں مدرج قرار دیتے ہیں اور امام حمیدی اسمعیلی برقانی اور ابومسعود دمشقی کے حوالاجات کے ساتھ اس رویت کا انکار لکھتے ہیں اور کہتے ہیں ابوسعید خدری خود مسند۔ بزار میں کہتے۔ ہیں کہ انہ لم یسمع من النبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کہ ابوسعید نے رسول اللہ سے نہیں سنا مزید سکین دیکھ لیں تفصل ہماری وڈیو میں ہے
ابن حجر نے اپنے دلائل میں امام حمیدی کا زکر کیا اور امام حمیدی وہ ہیں کہ بخاری و مسلم کے قلمی نسخوں سے دیکھ کر اپنی کتاب جمع بین صحیحین لکھی اور اس میں لکھتے ہیں کہ دمشقی نے کہا کہ بخاری نے قلمی نسخہ میں عمار کو باغی گروہ قتل کرے گا یہ نہیں لکھا
یہ ہی بات امام ابن رجب حنبلی نے شرح علل ترمزی میں بھی لکھی
امام جوزی علل میں کہتے ہیں کہ احمد بن حنبل یحیی بن معین اور امام خثیمہ کی محفل سے سنا کہ باغیہ والی ایک رویت بھی صحیح نہیں
امام خلال نے السنہ میں تین رویت ایک ساتھ لائے کہ احمد ابن حنبل نے کہا اٹھائیس حدیث ہیں ایک بھی ان میں صحیح نہیں
امام خلال وہ ہیں کہ مزہب حنبلی سارا انہوںُ نے رویت کیا امام احمد ابن حنبل سے الوافی بالوفیات علامہ صفدی نے صاف لکھا
ابن قدامہ بسند مسند ابن ابی شیبہ میں بھی ہے کہ حلقہ محفل احمد ابن حنبل اور ابن معین وغیرہ سب نے کہا باغیہ والی رویت صحیح نہیں
امام ذہبی تاریخ اسلام میں بھی یہی قول لاتے ہیں کہ رویت ضعیف ہے
امام بہقی کہتے ہیں کہ بخاری نے باغیہ والے رویت نہیںُ کیا
کئ دلائل سے رد کیا کہ علامہ ابن اثیر جزری نے کہ یہ بخاری نے نہیں لکھی بلکہ مدرج ہے الجامع الاصول میں
عمدہ القارئ میں امام عینی نے بیی رویت کا رد کیا کہا کہ رویت بخاری نے نہں رویت کی بلکہ مدرج ہے اور بعض جن حضرات نے رویت صحیح مان لی وہ بھی اس کو خوارج پر محمول کرتے ہیں
امام کرمانی کواکب دراری میں بھی اس کو خوارج پر محمول کیا
مرقاہ شرح مشکوہ میں بھی اس کو اصحاب رسول پر باغی کہنا غلط قرار دیا
دوستوں اصل میں بخاری کوئی لکھی لکھائی کتاب نہیں تھے جو بخاری ہم کو دے کر چلے گئے بلکہ بخاری کتاب کی سند ہے
بخاری نے بیان کی الفربری کو اور فربری نے اپنے تین شاگردوں کو لکھوائی الحموی اور المستملی اور الکشمیھنی پھر ان سے جمع کی ابوذر نے اور ابوذر کا نسخہ ہماری ویپ سائٹ ہر موجود ہے اور ابوذر سے ابوولید باجی نے لکھی پھر الصدفی نے اور صدفی سے نسخہ ابی عمران ابن سعادہ ۴۹۲ ھ میں لکھا گیا اور ایک تاریخ یہ بھی ملتی ہے کہ ابو ولید باجی سے دو لوگوں نے لکھا ایک صدفی اور دوسرا النسخہ الفرعیہ التی نسخت من اصل الباجی لکھا گیا جو کہ بہت سے لوگوں نے مل کر مرتب کیا اس دوران اتنے مراحل سے گزرتے ہوئے بخاری کے بعض متن پر فرق آ گیا
قلمی نسخہ کا سکین الفیئ باغیہ والی رویت کا
علامہ عجلی نے کتاب ثقات میں لکھا کئ ابراھیم دمشقی نے کہا جو اہل شام باغیہ مراد لے وہ کسے فاحشہ کا بیٹا ہے