سورہ نور میں آیات استخلاف کا مصداق ابوبکر صدیق کی شان میں

6 تبصرے ”سورہ نور میں آیات استخلاف کا مصداق ابوبکر صدیق کی شان میں

  1. для офиса | Выгодное предложение на сканер Scanform L5 | Что нужно знать о сканере Scanform L5 | Идеальный сканер для работы – Scanform L5 | Современное оборудование – сканер Scanform L5 | Лучший инструмент для сканирования – Scanform L5 | Подробный обзор сканера Scanform L5 | Сканер Scanform L5: сочетание стиля и удобства | Купить сканер Scanform L5 по выгодной цене | Scanform L5: технологии будущего
    Scanform L5 [url=https://www.an-form-5.ru]https://www.an-form-5.ru[/url] .

  2. Лучшие онлайн школы для обучения, чтобы расширить ваш кругозор.
    Учите новые навыки с онлайн школой, гибкий график обучения.
    Профессиональные преподаватели на платформе, для развития ваших навыков.
    Выберите свою онлайн школу сегодня, для своего личного роста.
    Онлайн образование для каждого, с возможностью выбора курсов по интересам.
    Онлайн образование – будущее обучения, для вашего удобства.
    Онлайн обучение: ключ к знаниям, для развития ваших навыков.
    Улучшите свои знания с онлайн обучением, для вашего интеллектуального развития.
    Инновационные методы обучения в онлайн школе, для вашего удобства.
    Online School [url=https://privateschoolreview.com/legacy-online-school-profile/]https://privateschoolreview.com/legacy-online-school-profile/[/url] .

اپنا تبصرہ لکھیں

سورہ لیل اور اتقی کا مقام ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی شان میں شیعہ علماء تفاسیر

اپنا تبصرہ لکھیں

پاؤں سن ہو گیا (تو ابن عمر نے کہا: یامحمد پاؤں سن ہو گیا (تو ابن عمر نے کہا: یامحمد

یا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم والی حدیث پر صحیح تحقیق اور غیر مقلد ناصرالبانی کا رد بلیغ:
امام بخاری روایت کرتے ہیں:
 حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ: خَدِرَتْ رِجْلُ ابْنِ عُمَرَ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: اذْكُرْ أَحَبَّ النَّاسِ إِلَيْكَ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ
 ترجمه :امام بخاری نے کہا کہ ہم سے ابو نعیم (فضل بن دکین) نے بیان کیا ہے اور ان سے امام سفیان (الثوری) نے بیان کیا ہے اور ان سے امام ابو اسحاق (عمرو بن عبداللہ السبیعی) نے اور ان سے عَبدالرحمن بن سعد (جو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے غلام تھے) نے کہا کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا پیر سن ہوگیا، ایک شخص نےکہا (آپ )ان کو یاد کرو جو آپ کو سب سے زیادہ محبوب ہو، پس آپ رضی اللہ عنہ نے کہا یا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)۔
الادب المفرد للبخاري
بَابُ مَا يَقُولُ الرَّجُلُ إِذَا خَدِرَتْ رِجْلُہ
جلد#1، صفہہ#335
الرقم الحدیث#994
الناشر: دار البشائر الإسلاميہ – بيروت
اس حديث کی سند پر تحقیق:
1- اس حدیث کے پہلے راوی خود امام بخاری ہیں جو تعارف کے محتاج نہیں
22- دوسرے راوی امام بخاری کے استاد ابو نعیم الفضل بن دکین ہیں جو بہت بڑے حافظ الحدیث تھے اور یہ بخاری شریف کے راوی بھی ہیں جن کے بارے میں امام ابن حجر العسقلانی لکھتے ہیں:
 “الفضل ابن دكين الكوفي واسم دكين عمرو ابن حماد ابن زهير التيمي مولاهم الأحول أبو نعيم الملائي بضم الميم مشهور بكنيته ثقة ثبت من التاسعة مات سنة ثماني عشرة وقيل تسع عشرة وكان مولده سنة ثلاثين وهو من كبار شيوخ البخاري”
تقريب التہذیب لابن حجر،
جلد#1، صفحہ#446
الرقم#5401
33 – اس ميں تیسرے راوی امام سفیان الثوری ہیں جو بہت بڑے حافظ الحدیث تھے اور یہ بخاری اور مسلم شریف کے راوی بھی ہیں ان کے بارے میں امام ذہبی لکھتے ہیں:
 هُوَ شَيْخُ الإِسْلاَمِ، إِمَامُ الحُفَّاظِ، سَيِّدُ العُلَمَاءِ العَامِلِيْنَ فِي زَمَانِهِ، أَبُو عَبْدِ اللهِ الثَّوْرِيُّ، الكُوْفِيُّ، المُجْتَهِدُ، مُصنِّفُ كِتَابِ (الجَامِعِ)
سيراعلام النبلاء
جلد#7 – صفحہ#230
الرقم#82
44- اس ميں چوتھے راوی امام ابو اسحاق ہیں جو بہت بڑے حافظ الحدیث تھے اور یہ بخاری اور مسلم شریف کے راوی بھی ہیں ان کے بارے میں امام ذہیی لکھتے ہیں:
أَبُو إِسْحَاقَ السَّبِيْعِيُّ عَمْرُو بنُ عَبْدِ اللهِ ابْنِ ذِي يُحْمِدَ.
وَقِيْلَ: عَمْرُو بنُ عَبْدِ اللهِ بنِ عَلِيٍّ الهَمْدَانِيُّ، الكُوْفِيُّ، الحَافِظُ، شَيْخُ الكُوْفَةِ، وَعَالِمُهَا، وَمُحَدِّثُهَا
سیراعلام النبلاء
جلد#5- صفحہ#392
رقم#180
55-اس ميں پانچویں راوی عَبْد الرَّحْمَن بن سعد القرشی العدوی كوفی ہیں جو بہت بڑے تا بعی تھے اور ان کو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے غلام ہونے کا شرف بھی حاصل ہے اور یہ ثقہ تابعی تھے اور ان کی توثیق میں امام ذہی کے استاد امام مزی لکھتے ہیں:
” ذكره ابنُ حِبَّان في كتاب “الثقات.
روى له البخاري في كتاب”الأدب”، حديثا واحدا موقوفا. وقد وقع لنا عاليا عنه.”
تذىیب الکمال
جلد#17 – صفحہ#143
رقم#3832
اور امام ابن حجرالعسقلانی لکےان ہیں:
 عبد الرحمن بن سعد القرشي كوفي روى عن مولاه عبد الله بن عمر وعنه أبو إسحاق السبيعي ومنصور بن المعتمر وأبو شيبة عبد الرحمن بن إسحاق الكوفي وحماد بن أبي سليمان ذكره بن حبان في الثقات قلت وقال النسائي ثقة.
تذايب التذليب
جلد#6 – صفحہ#186
رقم#376
6-چھٹے راوی تو خود صحابی رسول حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ہیں۔
تحقیق سے ثابت ہوا اس روایت میں کوئی راوی ضعیف نہیں ہے۔
اب آتے ہیں غیر مقلد محدث ناصر البانی کے اعتراضات کی طرف پھر ان کا رد چن چن کرکر تے ہیں۔
ناصر البانی نے اسی روایت کو اپنی دو کتابوں میں ضعیف لکھاجن کی تفصیل یہ ہے۔
1-ضعیف ادب المفرد رقم الحدیث#9644 میں یہ علت بتائی کہ امام ابو اسحاق مدلس ہے وہ عن سے روایت کر رہے ہیں لہذا یہ ضعیف ہے۔
2-تخریج الکلم الطیب رقم الحدیث#2366 میں یہ علت بتائی کہ اس میں الھیثم بن حنش مجہول ہے جس کی توثیق ثابت نہیں لہذا یہ بھی ضعیف ہے۔
ناصرالبانی کا ادب المفرد والی حدیث پر اعتراض اور اس کا رد بلیغ:
 ناصر البانی نے اس حدیث کے ایک طرق کو ذکر کر کے امام ابو اسحاق کی عن والی روایت کو اس لیے رد کیا ہے کہ اس میں امام ابواسحاق نے سماع کی تصریح نہیں کی لیکن ناصرالبانی یہ بھول گیا کہ اس حدیث کا ایک اور طرق بھی ثابت ہے جو امام شعبہ بن الحجاج کا طرق ہے اور محدثین کا اس بات پر اجماع ہے کہ امام شعبہ کی روایت مدلسین سے سماع پر محمول ہوتی ہے۔امام شعبہ مدلسین سے وہ روایت لیتے ہیں جومدلسین نے اپنے شیخ سے سنی ہوئی ہوتی ہیں۔
چنانچہ امام حربی روایت کرتے ہیں:
 حَدَّثَنَا عَفَّانُ , حَدَّثَنَا شُعْبَةُ , عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ , عَمَّنْ سَمِعَ ابْنَ عُمَرَ , قَالَ: خَدِرَتْ رِجْلُهُ , فَقِيلَ: اذْكُرْ أَحَبَّ النَّاسِ , قَالَ: يَا مُحَمَّدُ
 ترجمہ:ہم سے عفان (بن مسلم) نے حدیث بیان کی ان سے امام شعبہ (بن الحجاج) نے حدیث بیان کی اور انہوں نے امام ابو اسحاق سے اور انہوں نے ان سے جس نے حضرت ابن عمر (رضی اللہ عنہ) سے سنا ہے فرمایا (ابن عمر رضی اللہ عنہ) کا

پاؤں سن ہو گیا (تو) آپ سے کہا گیا کہ ان کو یاد کریں جو آپ کو لوگوں میں سب سے زیادہ پیارا ہو (تو) آپ نے کہا: یامحمد ﷺ۔
غريب الحديث
المؤلف: إبراهيم بن إسحاق الحربي أبو إسحاق (198 – 285ھ)
بَابُ: خدر
الْحَدِيثُ الثَّانِي وَالسِّتُّونَ
جلد#2 صفحہ#673
اس روایت کی سند پر تحقیق:
1- اس روایت کے پہلے راوی امام ابراہیم بن اسحاق الحربی ہے جن کی وفات 2855 ہجری کو ہوئی ہے ان کی توثیق درج ذیل ہے۔
خطیب البغدادی لکھتے ہیں: 
 كان إماماً في العلم، رأساً في الزهد، عارفاً بالفقه، بصيراً بالأحكام، حافظاً للحديث، مميزاً لِعِلَلِه قَيِّمًا بالأدب، جماعاً للغة، صنف غريب الحديث، وكتباً كثيرة
تاریخ البغداد (6/ 519)
امام دارقطنی فرماتے ہیں:
وَإِبْرَاهِيْم إِمَام بَارِع فِي كُلِّ عِلْم، صَدُوْقٌ.
سیر اعلام النبلاء (13/260)
حافظ الحدیث الحسین بن فہم فرماتے ہیں:
لاَ تَرَى عَينَاك مِثْل إِبْرَاهِيْم الحَرْبِيّ، إِمَام الدُّنْيَا، لَقَدْ رَأَيْتُ، وَجَالَسْتُ العُلَمَاء، فَمَا رَأَيْتُ رَجُلاً أَكملَ مِنْهُ.
سیر اعلام النبلاء (13/268)
امام حاکم فرماتے ہیں:
 سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بنَ صَالِحٍ القَاضِي يَقُوْلُ: لاَ نعِلْم بَغْدَاد أَخرجتْ مِثْل إِبْرَاهِيْم الحَرْبِيّ فِي الأَدب وَالفِقْه وَالحَدِيْث وَالزُّهْد
سیر اعلام النبلاء (13/268)
امام ذہبی لکھتے ہیں:
 هُوَ الشَّيْخُ، الإِمَامُ، الحَافِظُ، العَلاَّمَةُ، شَيْخُ الإِسْلاَمِ، أَبُو إِسْحَاقَ إِبْرَاهِيْمُ بنُ إِسْحَاقَ بنِ إِبْرَاهِيْمَ بنِ بَشِيْرٍ البَغْدَادِيُّ، الحَرْبِيُّ، صَاحِبُ التَّصَانِيْفِ.
سیر اعلام النبلاء (13/256)
امام سبکی شافعی لکھتے ہیں:
إِبْرَاهِيم بن إِسْحَاق بن إِبْرَاهِيم بن بشر الحربى أَبُو إِسْحَاق
الْفَقِيه الْحَافِظ
طبقات الشافعیہ الكبرى (2/256)
اس روایت میں دوسرا راوی عفان بن مسلم ہے جو ثقہ ہے اور یہ بخاری اور مسلم شریف کا راوی ہے۔
ان کی توثیق درج ذیل ہے۔
امام ابن سعد فرماتے ہیں:
وَكَانَ ثِقَةً ثَبَتًا كَثِيرَ الْحَدِيثِ حُجَّةً
طبقات الکبری (7/218)
امام کلاباذی نے عفان بن مسلم کو صحیح بخاری کی راویوں میں درج کیا ہے۔
رجال صحیح البخاری رقم #955
امام ابو حاتم نے کہا:
هو ثقة إمام.
تاریخ البغداد (12/265)
ابن خراش نے کہا:
ثقة من خيار المسلمين
تذةيب التذليب 7 /234
امام ابن مانع نے کہا:
ثقة مأمون
تذةيب التذ يب 7 /234
امام ابن معین نے کہا:
أصحاب الحديث خمسة، مالك، وابن جريج، والثوري، وشعبة، وعفان
تاریخ البغداد (12/269)
 تیسرے راوی امام شعبہ بن الحجاج ہیں جو بہت بڑے حافظ الحدیث تھے ویسے یہ تعارف کے محتاج نہیں ان کے بارے میں امام سفیان الثوری فرماتے ہیں:
شعبة أمير المؤمنين فى الحديث
تہذیب الکمال رقم#2790
امام ذہبی لکھتے ہیں:
الإِمَامُ، الحَافِظُ، أَمِيْرُ المُؤْمِنِيْنَ فِي الحَدِيْثِ،
سیر اعلام النبلاء (7/202)
ان کی توثیق بہت زیادہ ہے لہذا اتنا ہی کافی ہے۔
چوتھے راوی امام ابو اسحاق کی توثیق اوپر ثابت کر آئے ہیں۔
شعبہ عن ابی اسحاق عن (فلاں راوی) کی سند کے بارے میں محدثین کا نظریہ:
 محدثین کا اس بات پر اجماع ہے کہ امام شعبہ مدلسین سے وہ حدیث لیتے ہیں جس میں تدلیس نہیں ہوتی بلکہ مدلسین نے وہ حدیث اپنے شیخ سے سنی ہو ئی ہوتی ہے اس لیے امام شعبہ کی مدلسین سے عن والی روایت محمول علی السماع ہوتی ہے۔
امام یحیی بن سعید القطان نے کہا:
كل شئ يحدث (به) شعبة عن رجل فلاتحتاج أن تقول عن ذاك الرجل أنه سمع فلانا، قد كفاك أمره
 ترجمہ: ہر ایسی (حدیث کی تمام ) شئ جس کو امام شعبہ نے کسی مرد سے بیان کیا ہو تو اس میں اس بات کی محتاجی نہیں کہ وہ اس مرد کے بارے میں کہیں کہ اس نے فلاں سے سنا ہے تمہارے لیے یہ حکم کافی ہے۔
الجرح التعدیل لابی حاتم (1/162)
 غیر مقلد زبیر زئی نے امام یحیی بن سعید القطان کی اس بات کی سند کو صحیح قرار دےدیا۔(فتح المبین علی تحقیق طبقات المدلسین صفحہ#224)
امام شعبہ بن الحجاج خود فرماتے ہیں:
كل شئ حدثتكم به فذلك الرجل حدثني به أنه سمعه من فلان إلا شيئا أبينه لكم
 ترجمہ: ہر ایسی (حدیث کی تمام) شئ جو میں نے تم سے بیان کی ہو کسی مرد سے تو وہ مرد ہے جس نے مجھے بیان کیا ہے کہ اس نے فلاں سے سنا ہے۔
الجرح التعدیل لابی حاتم (1/173)
 غیر مقلد زبیر زئی نے امام شعبہ بن الحجاج کی اس بات کی سند کو صحیح قرار دےدیا۔(فتح المبین علی تحقیق طبقات المدلسین صفحہ#224)
خود گستاخ المحدثین والفقہاء نام نہاد اہل حدیث وہابی زبیر زئی اوپر دی گئی دلیل کو لکھ کر کہتا ہے۔
قلت : فیہ دلیل علی ان حدیث شعبۃ عن المدلسین محمول علی السماع۔
 ترجمہ: میں (یعنی غالی وہابی زبیر زئی) کہتا ہوں اس میں اس بات پر دلیل ہے کہ امام شعبہ کی حدیث مدلسین سے وہ محمول علی السماع ہوتی ہیں۔( فتح المبین علی تحقیق طبقات المدلسین صفحہ#224)
امام ابن حجر العسقلانی لکھتے ہیں:
 وإنما جزمت بشعبة، لأنه كان لا يأخذ عن أحد ممن وصف بالتدليس إلا ما صرح فيه ذلك المدلس بسماعه من شيخه.
 ترجمہ: اور میں (یعنی امام عسقلانی) نے امام شعبہ پر اس لئے یقین کیا ہے کہ وہ ان (محدثین) سے حدیث نہیں لیتے جو تدلیس کے ساتھ موصوف ہوں سوائے اس کے جس میں اس مدلس (راوی) نے اس حدیث کی اپنے شیخ سے سماع کی ہو ( یعنی سنی ہو)۔
النکت علی کتاب ابن الصلاح ، (1/259)
 اور گستاخ المحدثین والفقہاء نام نہاد اہل حدیث وہابی زبیر زئی امام شعبہ کی امام ابو اسحاق سے عن والی روایت کے بارے میں لکھتا ہے۔
وکذلک حدیث شعبۃ عن ابی اسحاق محمول علی السماع۔
ترجمہ: اور اسی طرح شعبہ کی حدیث ابو اسحاق سے سماع پر محمول ہوگی۔
( فتح المبین علی تحقیق طبقات المدلسین صفحہ#110)
 ان تمام دلائل سے ثابت ہوا کہ اس حدیث کو امام ابو اسحاق نے اپنے شیخ سے سماع کی ہے لہذااس میں تدلیس کا شبہ باطل ثابت ہو گیا۔(الحمدللہ)
باقی رہا اس روایت میں مبہم راوی کا مسئلہ اس کو جانےے کا طریقہ یہ ہے۔
ڈاکٹر طحان مصری استاذالحدیث مدینہ یونیورسٹی مبہم راوی کو جانے کے دو طریقے لکھے ہیں:
1۔ بعض دیگر روایات میں اس (راوی) کا نام ذکر کیا گیا ہوتا ہے۔
2- یا سیرت و سوانح کی کتابوں میں بالعموم ان کی تصریح مل جاتی ہے۔
تیسیر مصطلح الحدیث اردو ترجمہ تیسیر اصول حدیث صفحہ# 152
 (نوٹ: تیسیر اصول حدیث کے نام سے تیسیر مصطلح الحدیث کا ترجمہ وہابی ابو عمار عمر فاروق سعیدی نے کیا ہے۔اور یہ سعیدی سنی نہیں ہے لہذا خیال سے اس کی کتابوں کو خریدہ کریں )
 اس سے ثابت ہو گیا کہ اور سند سے مبہم راوی کی شناحت کی جا سکتی ہے اور امام ابو اسحاق نے اپنی دوسری مضبوط سند میں اس مبہم راوی کی نام کی تصریح بھی کردی جس سے یہ حدیث سنی تھی وہ امام بخاری کی ادب المفرد والی سند جو یہ ہے۔
 حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ: خَدِرَتْ رِجْلُ ابْنِ عُمَرَ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: اذْكُرْ أَحَبَّ النَّاسِ إِلَيْكَ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ
 اس سے ثابت ہو گیا وہ مبہم راوی عبدالرحمن بن سعد ہے اور وہ ثقہ تابعی ہے۔ لہذا اس حدیث میں تمام شک و شبہ کا قلع قمع ہوا لہذا اس کی سند صحیح ثابت ہو گئی(الحمد اللہ)
اسی لیے امام یعقوب بن سفیان الفارسی لکھتے ہیں:
وَحَدِيثُ سُفْيَانَ وَأَبِي إِسْحَاقَ وَالْأَعْمَشِ مَا لَمْ يُعْلَمْ أَنَّهُ مُدَلِّسٌ يَقُومُ مَقَامَ الْحُجَّةِ
 ترجمہ:اور سفیان (ثوری) ، ابو اسحاق اور اعمش کی حدیث جب تک اس کی تدلیس کا علم نہ ہو تو وہ حجۃ (یعنی قبول کرنے) کے قائم مقام ہو گی۔
المعرفۃ التاریخ (2/637)
ناصر البانی غیر مقلد خود لکھتا ہے:
وأبوإسحاق هو عمرو بن عبيد الله السبيعي وهو ثقة لكنه مدلس، وكان قد اختلط، فهو
لا بأس به في الشواهد، إلا من رواية سفيان الثوري وشعبة فحديثهما عنه حجة
 ترجمہ: اور ابو اسحاق یہ عمرو بن عبید اللہ السبیعی ہیں اور یہ ثقہ ہیں لیکن مدلس ہے۔ اور کبھی اختلاط بھی ہو جاتا تھا۔پس یہ شواہد میں کچھ حرج نہیں مگر سفیان الثوری اور شعبہ کی روایت میں (تدلیس نہ ہونے کی وجہ) دونوں کی حدیث امام ابو اسحاق سے حجت ہے۔
سلسلة الأحاديث الصحيحة
جلد#4، صفحہ#15
رقم الحدیث#1509
 ناصرالبانی غیر مقلد کی خود کی تحریر سے ثابت ہو گیا کہ امام سفیان ثوری اور امام شعبہ کی امام ابو اسحاق سےآ گے والے راوی سے عن والی روایت حجت (مقبول) ہوتی ہے اس میں تدلیس کا شبہ نہیں ہوتا۔
 ناصر البانی کا ردبلیغ جمہورمحدثین سے اور خود اس کی اپنی تحریر سے ثابت کردیا ہے لہذا یہ روایت جمہور محدثین سے اور خود ناصرالبانی کی تحریر سے صحیح ثابت ہو گئی(الحمدللہ)
دعویٰ اضطراب سند اور اس کا رد بلیغ:
 میں نے کچھ وہابی ویب سائٹ پر دیکھا وہ اس حدیث کی سند میں اضطراب ثابت کیا ہوا تھا لہذا میں اس کے دیئے گے دلائل کا رد بھی یہاں کر دیتا ہوں:
وہابی دلائل یہ ہیں:
وہابی ویب سائٹ کا اضطراب سند کی دلائل:
 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدِ بْنِ مُحَمَّدٍ الْبَرْذَعِيُّ، ثنا حَاجِبُ بْنُ سُلَيْمَانَ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ مُصْعَبٍ، ثنا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الْهَيْثَمِ بْنِ حَنَشٍ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، فَخَدِرَتْ رِجْلُهُ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: ” اذْكُرْ أَحَبَّ النَّاسِ إِلَيْكَ. فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قَالَ: فَقَامَ فَكَأَنَّمَا نَشِطَ مِنْ عِقَالٍ
عمل اليوم والليلة لابن السنی
جلد#1، صفحہ#141
رقم الحدیث#170
 حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْأَنْمَاطِيُّ، وَعَمْرُو بْنُ الْجُنَيْدِ بْنِ عِيسَى، قَالَا: ثنا مُحَمَّدُ بْنُ خِدَاشٍ، ثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، ثنا أَبُو إِسْحَاقَ السَّبِيعِيُّ، عَنْ أَبِي شُعْبَةَ، قَالَ: كُنْتُ أَمْشِي مَعَ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، فَخَدِرَتْ رِجْلُهُ، فَجَلَسَ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: اذْكُرْ أَحَبَّ النَّاسِ إِلَيْكَ. فَقَالَ: «يَا مُحَمَّدَاهُ فَقَامَ فَمَشَى»
عمل اليوم والليلة لابن السنی
جلد#1، صفحہ#141
رقم الحدیث#168
 أَخْبَرَنِي أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ الصُّوفِيُّ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْجَعْدِ، ثنا زُهَيْرٌ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: ” كُنْتُ عِنْدَ ابْنِ عُمَرَ، فَخَدِرَتْ رِجْلُهُ، فَقُلْتُ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، مَا لِرِجْلِكَ؟ قَالَ: اجْتَمَعَ عَصَبُهَا مِنْ هَاهُنَا. قُلْتُ: ادْعُ أَحَبَّ النَّاسِ إِلَيْكَ. فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ. فَانْبَسَطَتْ “
عمل اليوم والليلة لابن السنی
جلد#1، صفحہ#142
رقم الحدیث#172
امام ابو اسحاق نے اس روایت میں تین اشخاص کا ذکر کیا ہے جن کے نام یہ ہیں:
الْهَيْثَمِ بْنِ حَنَشٍ
أَبِي شُعْبَةَ 
عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَعْدٍ
 جس سے ثابت ہوتا ہے اس حدیث کی سند میں اضطراب ہے لہذا یہ حدیث سند میں اضطراب کی وجہ سے استدلال کرنے کے لائق نہیں ۔
وہابی دعویٰ اضطراب سند کا رد بلیغ:
 وہابی بے چارے کو اضطراب سند کی تعریف کا پتہ تک نہیں ورنہ ایسی جہالت ویب سائٹ پر شیئر نہ کرتا۔
 اب آتے ہیں اس کے دیئے گئے دلائل کی طرف جن کو ہم اصول حدیث کی روشنی میں مردود اور باطل ثابت کرتے ہیں:
مضطرب کی تعریف کی شرح میں ڈاکٹر طحان مصری استاذالحدیث مدینہ یونیورسٹی میں لکھتا ہے:
 “تفصیل اس تعریف کی یہ ہے کہ وہ حدیث جو کئی مختلف سندوں اور متون سے مروی ہو مگر ان میں ایسا تعارض ہو کہ کسی طرح مطابقت نہ دی جا سکے۔ اور ساتھ ہی یہ تمام اسانید و متون قوت و مرتبہ میں ایک دوسرے کے برابر ہوں اور کسی بھی اعتبار سے ان میں ترجیح ممکن نہ ہو۔”
تیسیر مصطلح الحدیث اردو ترجمہ تیسیر اصول حدیث صفحہ# 133
 اس تعریف سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اضطراب کی صورت میں تمام اسانید کا صحت میں برابر ہونا لازمی ہے اور وہابی کے دیئے گے دلائل میں دی گی تمام اسانید کا درجہ برابر نہیں ہے۔
اب آتے ہیں وہابی کی دی گی پہلی سند پر جو یہ ہے۔
 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدِ بْنِ مُحَمَّدٍ الْبَرْذَعِيُّ، ثنا حَاجِبُ بْنُ سُلَيْمَانَ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ مُصْعَبٍ، ثنا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الْهَيْثَمِ بْنِ حَنَشٍ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، فَخَدِرَتْ رِجْلُهُ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: ” اذْكُرْ أَحَبَّ النَّاسِ إِلَيْكَ. فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قَالَ: فَقَامَ فَكَأَنَّمَا نَشِطَ مِنْ عِقَالٍ
عمل اليوم والليلة لابن السنی
جلد#1، صفحہ#141
رقم الحدیث#170
 یہ حدیث سند کے اعتبار سے ضعیف ہے محمد بن مصعب بن صدقة القرقسانى ہے جو کہ ضعیف ہے امام عسقلانی تمام محدثین کے اقوال کو اس راوی کے بارے میں نقل کر کے لکھتے ہیں۔
 قال صالح بن محمد : عامة أحاديثه عن الأوزاعى مقلوبة ، و قد روى عن الأوزاعى غير حديث كلها مناكير ، و ليس لها أصول . 
و قال ابن عدى : ليس عندى برواياته بأس .
و قال ابن حبان : ساء حفظه ، ( فكان ) يقلب الأسانيد و يرفع المراسيل ; لا يجوز الاحتجاج به . 
و قال الحاكم أبو أحمد : روى عن الأوزاعى أحاديث منكرة ، و ليس بالقوى عندهم . 
و قال الإسماعيلى : سألت عبد الله بن محمد بن سيار : من أوثق أصحاب الأوزاعى ؟ 
فذكر القصة ، و قال : و محمد بن مصعب من الضعفاء ، و ابن أبى العشرين ليس بقوى .
و قال النسائى : ضعيف . 
و قال عبد الرحمن بن يوسف بن خراش : منكر الحديث .
و قال أبو عبد الله محمد بن عبيد الله الزهرى عن يحيى بن معين : لا شىء . 
و قال ابن الغلابى عن يحيى بن معين : ليس بشىء
تہذیب التہذیب (9/459)
لہذا اس سے اضطراب کا دعویٰ مردود ہے۔
دوسری روایت اور اس کا جواب:
 حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْأَنْمَاطِيُّ، وَعَمْرُو بْنُ الْجُنَيْدِ بْنِ عِيسَى، قَالَا: ثنا مُحَمَّدُ بْنُ خِدَاشٍ، ثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، ثنا أَبُو إِسْحَاقَ السَّبِيعِيُّ، عَنْ أَبِي شُعْبَةَ، قَالَ: كُنْتُ أَمْشِي مَعَ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، فَخَدِرَتْ رِجْلُهُ، فَجَلَسَ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: اذْكُرْ أَحَبَّ النَّاسِ إِلَيْكَ. فَقَالَ: «يَا مُحَمَّدَاهُ فَقَامَ فَمَشَى»
عمل اليوم والليلة لابن السنی
جلد#1، صفحہ#141
رقم الحدیث#168
 اس روایت میں محمد بن خداش سے مراد کون ہے؟؟؟ اور اس کا تعین درکار ہے مجھے ابوبکربن عیاش کے شاگردوں میں محمد بن خداش نام کا کوئی راوی نہیں ملا۔لہذا بنا راوی کی توثیق کے اس سے اضطراب کا دعویٰ کرنا مردود ہے۔
 اور خود ابو بکر بن عیاش کی اس روایت میں اس کا کوئی متابع بھی موجود نہیں ہے۔اور اوثق راوی امام سفیان ثوری اور زہیر بن معاویہ نے خود ابوبکر بن عیاش کی اس سند میں مخالفت کی ہے۔
لہذا اس سند سے اضطراب ثابت کرنا باطل ہے۔
 نوٹ: امام سنی کی اس کتاب میں ابی شعبہ کی جگہ ابی سعید چھپ گیا ہے جو کہ تصحیف ہے (یعنی مخطوطہ میں غلطی ہے) ورنہ اصل ابی شعبہ ہے۔
اور تیسری روایت یہ ہے:
 أَخْبَرَنِي أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ الصُّوفِيُّ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْجَعْدِ، ثنا زُهَيْرٌ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: ” كُنْتُ عِنْدَ ابْنِ عُمَرَ، فَخَدِرَتْ رِجْلُهُ، فَقُلْتُ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، مَا لِرِجْلِكَ؟ قَالَ: اجْتَمَعَ عَصَبُهَا مِنْ هَاهُنَا. قُلْتُ: ادْعُ أَحَبَّ النَّاسِ إِلَيْكَ. فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ. فَانْبَسَطَتْ “
عمل اليوم والليلة لابن السنی
جلد#1، صفحہ#142
رقم الحدیث#172
 اور یہ سند ہماری دلیل ہے اور یہ صحیح بھی ہے اور اس روایت میں زہیر بن معاویہ کا متابع امام سفیان الثوری بھی ہے جس کا امام بخاری نے ادب المفرد میں روایت کیا ہے۔جو یہ ہے
 حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ: خَدِرَتْ رِجْلُ ابْنِ عُمَرَ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: اذْكُرْ أَحَبَّ النَّاسِ إِلَيْكَ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ
 اور بعض جاہل وہابی اعتراض کرتے ہیں کہ امام سفیان الثوری امام ابو اسحاق سے عن سے روایت کر رہے ہیں اس لئیے یہ ضعیف ہے ان جاہل وہابیوں سے ہمارا یہ کہنا ہے کہ امام سفیان امام ابو اسحاق سے تدلیس نہیں کرتے وہ ان کی حدیث میں ثابت ہیں:
 امام ذہبی کے استاد امام مزی امام ابو اسحاق السبیعی کے ترجمہ میں ان کے شاگردوں کے نام لکھتے ہوئے فرماتے ہیں:
وسفيان الثوري، وهو أثبت الناس فيه،
ترجمہ: اور سفیان الثوری امام ابو اسحاق کی (حدیث میں) لوگوں میں سب سے زیادہ ثابت ہیں۔
تہذیب الکمال
جلد#22 ، صفحہ#109
رقم#4400
اور اس روایت میں امام سفیان ثوری کا متابع زہیر بن معاویہ بھی موجود ہے 
لہذا وہابی کا تدلیس والا یہ اعتراض بھی باطل ثابت ہوا۔
 کچھ وہابی یہ اعتراض کرتے ہیں کہ زہیر بن معاویہ کا سماع امام ابو اسحاق سے ان کے حافظہ خراب ہونے کے بعد کا ہے لہذا یہ ضعیف ہے۔
 ان وہابیوں سے میرا یہ کہنا ہے کہ زہیر بن معاویہ کا متابع امام سفیان ثوری بھی ہیں جو قدیم السماع ہیں امام ابو اسحاق سے۔لہذا تمہارا یہ اعتراض بھی باطل ثابت ہوا۔
 امام بخاری نے خود زہیر بن معاویہ کی حدیث کی سند خود امام ابو اسحاق کے طرق سے لی ہے جو یہ ہے۔
 حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، قَالَ: – لَيْسَ أَبُو عُبَيْدَةَ ذَكَرَهُ – وَلَكِنْ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الأَسْوَدِ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ يَقُولُ: «أَتَى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الغَائِطَ فَأَمَرَنِي أَنْ آتِيَهُ بِثَلاَثَةِ أَحْجَارٍ، فَوَجَدْتُ حَجَرَيْنِ، وَالتَمَسْتُ الثَّالِثَ فَلَمْ أَجِدْهُ، فَأَخَذْتُ رَوْثَةً فَأَتَيْتُهُ بِهَا، فَأَخَذَ الحَجَرَيْنِ وَأَلْقَى الرَّوْثَةَ» وَقَالَ: «هَذَا رِكْسٌ» وَقَالَ إِبْرَاهِيمُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ
صحیح البخاری
(1/43)
رقم الحدیث#156
 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ، أَنَّهُ كَانَ عِنْدَ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ هُوَ وَأَبُوهُ وَعِنْدَهُ قَوْمٌ فَسَأَلُوهُ عَنِ الغُسْلِ، فَقَالَ: «يَكْفِيكَ صَاعٌ»، فَقَالَ رَجُلٌ: مَا يَكْفِينِي، فَقَالَ جَابِرٌ: «كَانَ يَكْفِي مَنْ هُوَ أَوْفَى مِنْكَ شَعَرًا، وَخَيْرٌ مِنْكَ» ثُمَّ أَمَّنَا فِي ثَوْبٍ
صحیح البخاری
(1/60)
رقم الحدیث#252
 حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، قَالَ: حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ صُرَدٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي جُبَيْرُ بْنُ مُطْعِمٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «أَمَّا أَنَا فَأُفِيضُ عَلَى رَأْسِي ثَلاَثًا، وَأَشَارَ بِيَدَيْهِ كِلْتَيْهِمَا»
صحیح البخاری
(1/60)
رقم الحدیث#254
اور بھی کافی روایتیں ہیں میں نے صرف دلائل کے لئیے کچھ نقل کر دیں ہیں۔
 لہذا اب جو ان اسانید پر ضعیف کہنے کی جرات کرے گا تو پھر بخاری کی ان احادیث کو بھی ضعیف کہنا پڑے گا جو کہ یہ بات غیر مقلدوں کا گوارہ نہیں

اپنا تبصرہ لکھیں

امام حاکم نیشاپوری پر الزام کہ انہوں نے سفیان ثوری کو طبقہ ثالث میں رکھا ہے. سفیان ثوری کی تدلیس والی رویت کو صحیح ہوگی

imam hakim or sufiyan soori ki tadlees,
   تحقیق راجہ محمد اقبال رضوی 


آج مجھے رونا آیا میں وہ رضوئ ہوں جو اہل حدیث وہابی اور 
شیعہ اور دیگر کے مدارس میں میں تعلیم لینے جاتا رہا حق کی تلاش میں. میں آج بھی گفتگو میں بھای.. محترم. قبلہ کہہ کر اپنے مخاطب سے خطاب کرتا ہوں. اج سے کچھ دن پہلے ایک وہابی عنایت اللہ کے نام سے لوگو کو امام حاکم نیشاپوری متوفی 405ھ کا قول پیش کر کہ کہہ رہا تھا کہ امام حاکم نے سفیان ثوری کو طبقہ ثالث میں رکھا ہے اور سفیان ثوری کی تدلیس والی رویت ضعیف ہوتی ہے.. میں کافی پریشان ہوا تحقیق کی تو وہ عبارت پڑھی تو پھر معلوم ہوا موصوف عبارت غلط پیش کر کے چلاکی سے لوگو کو گمراہ کر رہے ہیں.. ان کا اپنا سکین کو پورا پڑھینے کو جب بولا تو راہ فرار اختیار کی میرا مقصد کسی کو ہرانا نہیں تھا حق دیکھانا تھا وہ نہیں رجوع کر رہے یہ انکی اور حاکم نیشاپوری کئ اور اللہ کا معاملہ رہا.. میں گفتگو کے سارے سکین بھیج رہا ہوں سنی حضرات اس کا مطالعہ کریں اور لوگؤ کو دھوکہ کھانے سے بچائیں..میرا یوٹیوب چینل پر اج اس عنوان پر وڈیو آ رہی ہے… لازمی سماعت کریں

munazra ka scan shoot

 
حقیقتاً تحقیق آپ کے سامنے. ..
 
مناظرہ کے دوران اس سے جو گفتگو ہوی اپکے سامنے رکھ  رہا ہوں.. 
 میری جان اپ حاکم نیشاپوری  کئ بات پوری کرو رجوع کریں اور اس مزاج لہجہ کے ساتھ میں نے بات نہیں کئ ورنہ آپ کے سکین جس میں حاکم کا قول لیا گیا وہ اچھالتا تو اپکی کیا عزت رہتی… اگر کوئ اپ سے مصنفانہ طریقہ سے بات کر رہا ہے تو آپ بھی  چادر میں رہو دلائل سے بات کرو
 
 
یری جان اپ حاکم نیشاپوری کئ بات پوری کرو رجوع کریں اور اس مزاج لہجہ کے ساتھ میں نے بات نہیں کئ ورنہ آپ کے سکین جس میں حاکم کا قول لیا گیا وہ اچھالتا تو اپکی کیا عزت رہتی… اگر کوئ اپ سے مصنفانہ طریقہ سے بات کر رہا ہے تو آپ بھی چادر میں رہو دلائل سے بات کرو
 
 
آپ نے یہ دعوی سکین پیش کیا. 
کہ حاکم نے کہا کہ مدلس سفیان ثوری طبقہ ثالث میں ہیں.. مگر آپ نے حوالہ غلط پیش کیا محترم زرا اس سکین میں جو لین ہے اس کا ترجعہ کر دو
wahabi na trjuma hi nahe kia kiu k us na jhoot bola tha imam hakim per
 
 لہزا امام بخاری بھی مدلس سفیان ثوری کی تدلیس انکی تعریف کرتے ہیں کہ طبقہ ثانیئہ میں سفیان ثوری ہیں اور انکو طبقات مدلسین پر طبقہ ثانیئہ ملا زاہد عابد تھے..
 
 
 
اس سکین میں سفیان ثوری کو دوسرا درجہ کا مدلس کہا گیا اور سفیان ثوری کی کئ رویت بخاری میں تدلیس کے ساتھ ہے
اس سکین میں سفیان ثوری کو دوسرا درجہ کا مدلس کہا گیا اور سفیان ثوری کی کئ رویت بخاری میں تدلیس کے ساتھ ہے
 
آپ کے سکین میں غلط بات پیش کی گی محترم.. امام ابو عبداللہ محمد بن عبداللہ حاکم نیشاپوری متوفی 405 یہ لکھا ہے کہ قال حاکم وقد روی جماعتہ من الائمہ عن قوم من المجھولین 
کہ ایک مجھول جماعت سفیان ثوری کو طبقہ ثالث میں رھا ہے ..اگے ابن ہشّام کا قول. پھر دیگر قول پھر آخر میں امام احمد بن حنبل کا قول.. وقال احمد بن حنبل 241 متوفی ازا حدث بقیہ مشہورین فروایات مقبولہ حدث عن مجھولین… 
احمد بن حنبل نے کہا جب مشہورین کئ قوی مقبول رویت موجود ہیں تو مجھول جماعت کا قول حجت نہیں… اب اس کتاب کے اگے ان ہی صفات میں مزید حاکم کئ راے موجود ہے یہ بندہ فقیر آپ کو سکین دیتا ہے لہزا اپکے سکین سے ہئ رد ہو گیا کہ حاکم کئ یہ اپنی راے نہیں بلکہ مجھول جماعت کا قول
 
 
 میں اپ کا سکین جو کہ ادھورا بنا کر دین میں خیانت کئ اس ویپ سائٹ والے نے.. میں پورا سکین دے رہا ہوں تب فیصلہ کرو کہ مشیورین کے قول سے سفیان ثوری کے بارے میں کیا لکھا ہے… آپ ہمارے بھائ ہیں گزارش ہے کہ سکین کو پورا پڑھیں. پھر کسی کو حوالہ دین
 
 
حترم زرا اس سکین کو پورا پڑھیں مہربانی پھر آپ حاکم پر جو لاعلمی میں بہتان باندھا گیا اسکی توبہ اللہ سے تنہائ میں کری
 
ب امام حاکم نیشاپوری پر یہ الزام ختم اب دوسری بات پر آ جاتے ہیں اگر مزید حاکم کئ عبارت پر اعتراض ہے تو حکم کریں… بلکہ ایک حاکم کئ راے میں برکت کے لیے دیتا ہوں زرا اس کو منصف مزاجی سے پڑھی
 
 حاکم کے راے تو یہ ہے کہ سفیان قتادہ دیگر مدلیسن کئ تدلیس قبول ہوتی ہے. زرا اس کو دیکھ لو باقی جب امام شافعی کے قول پر بات کرو گے تو مکمل تفصیل سے بیان کرو گا… انشاء اللہ
 
جھوٹ نا بولو وہابی گفتگو کے ادب کے خلاف ہے… امام حاکم نے کہاں کہا آپ ثابت کرو کہ سفیان ثوری طبقہ ثالث ہیں… یہ باب ہے الجنس الثالث من تدلیس…… اور غربی کس کو اتی ہے کس کو نہیں اس عنوان پر نہ ہی جاؤ تو اچھا ہے میرا مزاج لہجہ آپ کے لیے محبت دیکھو… بے شک اپ واٹس اپ پر بات کر لو… مگر اس طرح جھوٹ نہ بولو محدئثن پر خدارا…. امام حاکم کا قول طبقہ ثالث میں لاتے ہیں کہتے ہیں کہ بعض جاہل لوگ سفیان ثوری کو طبقہ ثالث میں کہتے ہیں 😥😥😥😥😥😥
scan apk samne
wahabi ka bheja hoa scan
 حاکم نے کہا کہ کچھ جاہل لوگ سفیان ثوری کو طبقہ ثالث میں لاتے ہیں میں مگر حاکم نے آگے امام احمد بن حنبل کا قول لیا کہ جاہل کا قول حجت نہیں ہوتا لہزا مشہورین کا قول حجت ہوگ
mera scan
میں اپ کا سکین جو کہ ادھورا بنا کر دین میں خیانت کئ اس ویپ سائٹ والے نے.. میں پورا سکین دے رہا ہوں تب فیصلہ کرو کہ مشیورین کے قول سے سفیان ثوری کے بارے میں کیا لکھا ہے… آپ ہمارے بھائ ہیں گزارش ہے کہ سکین کو پورا پڑھیں. پھر کسی کو حوالہ دین
 
 حاکم کے راے تو یہ ہے کہ سفیان قتادہ دیگر مدلیسن کئ تدلیس قبول ہوتی ہے. زرا اس کو دیکھ لو باقی جب امام شافعی کے قول پر بات کرو گے تو مکمل تفصیل سے بیان کرو گا… انشاء اللہ
 
اپنا تبصرہ لکھیں

سورہ توبہ آیت 40 شان ابوبکر غار میں رسول اللہ کے ساتھ ابوبکر ثانی اثنین

قارئین محترم آج ہم واقع غار جو رسولِ کریم کی حجرت کا واقع قرآن نے بیان کیا اس پر غور کریں گےغار میں رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے ساتھ ابوبکر صدیق ہی تھے اگر ابوبکر صدیق شیعی روایات کے مطابق منافقین میں سے تھے تو ھجرت کی رات کفار کو بتا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نعوذ باللہ قتل کروا دیتے تو کفار بھی یہی چاہتے تھے اس سے بڑا کوئی موقع نہ تھا کفار مکہ سے وفاداری پیش کرنے کا ابوبکر صدیق کے لیے مگر قرآن مجید کا بیان کردہ انداز چیخ چیخ کر رسول اللہ کے یار غار و ثانی وفادار دوست ابوبکر صدیق کی شان بیان کرتا ہے
ہم قرانی عبادہ نص اور شیعہ علماء کے تفاسیر کی روشنی میں آیت کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیںت

اپنا تبصرہ لکھیں

ابوبکر صدیق کی شان میں سورہ المائدہ کی آیت 54 ایمان ابو بکر صدیق اکبر رض

(آیت) ” یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ مَن یَرْتَدَّ مِنکُمْ عَن دِیْنِہِ فَسَوْفَ یَأْتِیْ اللّہُ بِقَوْمٍ یُحِبُّہُمْ وَیُحِبُّونَہُ أَذِلَّۃٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ أَعِزَّۃٍ عَلَی الْکَافِرِیْنَ یُجَاہِدُونَ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ وَلاَ یَخَافُونَ لَوْمَۃَ لآئِمٍ ذَلِکَ فَضْلُ اللّہِ یُؤْتِیْہِ مَن یَشَاء ُ وَاللّہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ(54)

” اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو ‘ اگر تم میں سے کوئی اپنے دین سے پھرتا ہے ۔ (تو پھر جائے) اللہ اور بہت سے لوگ ایسے پیدا کر دے گا جو اللہ کو محبوب ہوں گے اور اللہ ان کو محبوب ہوگا جو مومنوں پر نرم اور کفار پر حضرت علی المرتضیٰ شیرِ خدا کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم، امام حسن بصری اور حضرت قتادہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے کہا کہ یہ حضرات سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اور ان کے وہ ساتھی ہیں جنہوں نے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بعد مرتد ہونے والوں اور زکوٰۃ کے منکروں سے جہاد کیا۔اور وہ سخت ہوں گے ‘ جو اللہ کی راہ میں جدوجہد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں گے ۔ یہ اللہ کا فضل ہے ‘ جسے چاہے عطا کرتا ہے ۔ اللہ وسیع ذرائع کا مالک ہے اور سب کچھ جانتا ہے ۔یہ اہل سنت والجماعت کا اجماع ہے کہ یہ آیت نازل ہوئی اس کے مصداق ابوبکر صدیق اور ان کے ساتھی مراد ہیں

یاد رہے کہ اہل سنت کے ہاں فقط منفرد ذاتی رائے اور شاذ تفاسیر حجت نہیں بلکہ امام طبرانی المتوفی 360ھ نے المعجم الاوسط میں رویت کیا اس قول کو

جبکہ بعض اس قول کو شیعہ علماء و مشائخ معتبر مفسرین نے بھی اپنی کتب میں بیان کیا جس میں علامہ طبرسی اور مکارم شیرازی اور وغیرہ

اہم نقاط

اگر یہ آیت بعد وفات رسولِ ابوبکر صدیق کی شان میں نہیں تو کس کی شان میں ہے

  1. وہ کون ہیں جن سے اللہ محبت کرتا ہے ایمان کے اعلیٰ ترین مقام پر فائز ہوئے

طبرسی اور شیعہ علماء کے نزدیک رسولِ کریم کی وفات کے بعد جو مرتد ہوئے ان کے مقابلہ میں اللہ کا پسندیدہ لشکر آیا تو اگر ابوبکر صدیق مرتد ہوئے اور کافر ہوئے تو ان کے مقابلہ میں کون سا لشکر آیا یعنی اللہ کا دعویٰ نعوذ باللہ جھوٹ نکلا اور ابوبکر اور عمر کے مرتد ہونے پر کوئی لشکر نہ آیا قرآن کی آیت جھوٹ ثابت ہو جائے گی

اہم نقطہ کہ مرتد ہوے مسلمہ کذاب اور دیگر کذاب اس پر شیعہ سنی تاریخ اجماع ہے اور اللہ کہتا ہے کہ مرتدین کے مقابلہ میں اپنے محبوب بندے لاؤ گا گویا مسلمہ کذاب کے مقابلہ میں ابو بکر صدیق آۓ

ورنہ تاریخ مشاہدہ کے بعد کوئی اس بات کا منکر نہیں

اپنا تبصرہ لکھیں

حدیث میں موجود علت ( ضعف یا غلطی) معلوم کرنے کا طریقہ متقدمین آئمہ علل کے ہاں۔

حدیث میں موجود علت ( ضعف یا غلطی) معلوم کرنے کا طریقہ متقدمین آئمہ علل کے ہاں۔

كتاب أوهام المحدثين الثقات (الجزء 1 ، صفحة 6)

[مفهوم العلة والوهم]
العلة في اللغة: المرض، واصطلاحاً: خبر ظاهرة السلامة، اطلع فيه بعد التفتيش على قادح (١) وهذا القادح يشمل الإسناد والمتن.
والوهم: هو ما يخطئ فيه المرء وهو يظنه الصواب وتجد هذه اللفظة في كتب الرجال والعلل فيقولون: (في حديثه وهم) أي غلط أو (في حديثه أوهام)، ويقولون في نقد الراوي: (صدوق يَهِمُ) أو (له أوهام).
وإنما آثر المحدثون هذه اللفظة في التخطئة لأنها ألطف جرحاً وآدب نقداً من غيرها

علت کا مفہوم:

  1. لغت میں علت کہتے ہیں “مرض کو” اور اصطلاحاً معلول حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ایسی حدیث جسکا ظاہر سلامت ہو اور اس میں تفتیش و تحقیق کے بعد اس میں چھپی ہوئی خرابی معلوم ہو جائے۔ اور یہ خرابی اسناد اور متن دونوں میں ہو سکتی ہے۔
  2. اور وہم سے مراد یہ ہے کہ حدیث روایت کرتے ہوئے خطاء ہو جائے اور دیکھنے والا یہ سمجھے کہ یہ صواب (یعنی صحیح) ہے اور آپ کو اس طرح کے الفاظ رجال اور علل کی کتابوں میں ملیں گے تو محدثین کہتے ہیں “فی حدیثہ وہم ، یعنی اسکی حدیث میں وہم ہے۔” اس سے مراد غلطی ہے۔ یا “فی حدیثہ اوہام ، یعنی اسے حدیث میں اوہام ہوئے ہیں۔” اور محدثین کسی راوی پر نقد کرتے ہوئے کہتے ہیں: “صدوق یھم یعنی صدوق ہے وہم کا شکار ہو جاتا ہے۔” یا “لہ اوہام یعنی اسے اوہام ہوئے ہیں۔”
  3. اور محدثین نے یہ الفاظ خطاء اور غلطیوں کے معنیٰ میں ہی لیا ہے کیونکہ وہ دوسروں کی نسبت جرح اور نقد کرنے میں بڑے نرم اور شائستہ تھے۔

[طريق معرفة العلة]
جمع طرق الحديث، والنظر في اختلاف رواته، لأن جمع الروايات من حيث اتفاقها واختلافها هو مفتاح بيان الوهم واكتشافه

ایک حدیث کی علت (پوشیدہ خرابی) معلوم کرنے کا طریقہ:
اس حدیث کے تمام طرق (یعنی تمام اسانید) کو جمع کیا جائے اور ان میں موجود راویوں کے اختلاف کی جانچ پڑتال کی جائے کیونکہ روایات کے جمع ہو جانے پر جہاں راویوں کا اتفاق ہو اور جہاں اختلاف ہو۔ تو یہ طریقہ کار وہم (اور غلطی) جاننے کا دروازہ ہے۔

قال يحيى بن معين: لو لم نكتب الحديث من خمسين وجهاً ما عرفناه (٢).

امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اگر ہم احادیث کو پچاس اسانید سے نہ لکھتے تو ہمیں انکی معرفت نہ ہوتی۔ (کہ کونسی حدیث معلول ہے اور کونسی نہیں۔)

وقال ابن المبارك: إذا أردت أن يصح لك الحديث فاضرب بعضه ببعض (٣)، أي: قارن بين طرقه وألفاظه

اور امام عبد اللہ بن المبارک رحمہ اللہ کہتے کہ اگر تم ارادہ کرو کہ تم پر حدیث کی صحت واضح ہو جائے تو ان احادیث کی آپس میں ضرب لگاؤ یعنی ان کے طرق (اسانید) اور الفاظ میں مماثلت دیکھو۔

قال علي بن المديني: الباب إذا لم تجمع طرقه لم يتبين خطؤه (١).

امام علی بن المدینی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اگر ایک باب کی حدیث ہو اور اسکے تمام طرق (یعنی اسانید) ایک جگہ جمع نہ کیے جائیں تو اس میں موجود خطاء واضح نہیں ہو سکے گی۔

قال الخطيب: السبيل إلى معرفة علة الحديث أن يجمع طرقه وينظر في اختلاف رواته ويعتبر بمكانهم من الحفظ ومنزلتهم في الإتقان والضبط

امام الخطیب البغدادی کہتے ہیں: کسی حدیث کی علت معلوم کرنے کا طریقہ کار یہ ہے کہ اسکے تمام طرق کو جمع کیا جائے گا اور ان میں موجود راویوں کے اختلاف کو دیکھا پرکھا جائے گا اور راویوں پر اعتبار حفظ میں ان کے مقام کو دیکھ کر کیا جائے گا اور انکے اتقان اور ضبط کے درجے کی بھی جانچ پڑتال کی جائے گی۔

وقد قال قبل هؤلاء كلهم أيوب السختياني حاثاً على كثرة السماع لتميز الروايات: إذا أردت أن تعرف خطأ معلمك فجالس غيره

اور یقیناً ان سب سے پہلے امام ایوب السختیانی نے کثرتِ سماع کرنے کی تاکید کی تاکہ روایات میں تمیز ہو سکے ، انھوں نے کہا: اگر تم اپنے شیخ کی غلطی معلوم کرنا چاہتے تو ان کے علاوہ دیگر شیوخ کی مجالس میں بھی بیٹھا کرو۔

[أقسام العلة]
العلة تقع في الإسناد وهو الأكثر، وقد تقع في المتن وهو كالتالي:
١ ما وقعت العلة فيه في الإسناد ولم تقدح فيه، كإبدال راو ثقة بمثله أو زيادة ذكر راو ثقة في الإسناد.
٢ ما وقعت العلة فيه في الإسناد وقدحت فيه، كإبدال راو ضعيف براو ثقة أو يحذف من الإسناد أحد الضعفاء أو يدلسه ونحو ذلك فهذا يقدح في الإسناد والمتن معاً، إلا أن يجيء المتن من طرق أخرى غير معلولة.
٣ ما وقعت العلة في المتن ولا تقدح فيه ولا في الإسناد لإختلاف ألفاظ المتن، أو قد تقدح في لفظة من المتن لا جميعه كأن تكون فيه لفظة شاذة أو منكرة، أو تكون اللفظة صحيحة لكن من غير هذا الوجه كأن تكون وردت بإسناد آخر فأدرجها الراوي في هذا المتن.
٤ ما وقعت العلة في المتن وقدحت فيه كاختصار أخل بالمعنى، أو رواية بالمعنى غيرته

اسانید میں علتوں کی کثرت زیادہ پائی جاتی ہے اور حدیث کے متن میں بھی علت ہوتی ہے۔ وہ یہ ہیں:

  1. علت جو اسناد میں ہوتی ہے اور اس میں قدح (یعنی بظاہر خرابی) نہیں ہوتی مثلاً ایک ثقہ راوی کو اسی کی مثل ثقہ راوی سے بدل دیا جائے یا اسناد میں ثقہ راوی کا اضافہ کر دیا جائے۔
  2. جو علت اسناد میں واقع ہوتی ہے اور اس میں قدح (یعنی خرابی) ہوتی ہے ، جیسا کہ ایک ثقہ راوی کو ضعیف کی جگہ لے آنا یا اسناد میں سے کسی ایک ضعیف راوی کو حذف کر دینا یا اس سے تدلیس کرنا اور اسی طرح کے دیگر معاملات ، تو اس میں اسناد اور متن دونوں میں قدح (خرابی) ہے ، مگر یہ کہ متن کسی غیر معلول طرق سے آ جائے۔ (یعنی اصل صحیح حدیث سے ثابت شدہ متن صحیح ہو گا۔)
  3. وہ علت جو متن میں واقع ہو اور اس متن میں خرابی نہ ہو اور نہ اسکی اسناد میں خرابی ہو۔ الفاظ کا اختلاف ہو کہ اس متن میں سے چند الفاظ میں خرابی (یعنی نکارت) ہو لیکن مکمل متن میں نکارت نہ پائی جائے کہ اس میں شاذ یا منکر الفاظ موجود ہوں ، یا اس میں جو صحیح الفاظ موجود ہیں وہ کسی اور سند کیساتھ آئے تھے پھر اس راوی نے اس متن میں ان الفاظ کو داخل کر دیا۔
  4. وہ علت جو متن میں موجود ہو اور اس میں قدح (خرابی یا نکارت) ہو مثلاً ایسا اختصار جس سے اس حدیث کا معنیٰ خالی ہو جائے۔ یا اس طرح بالمعنی روایت کی جائے کہ اصل حدیث کا معنیٰ بدل جائے۔

[أقسام الوهم]
قسمها الحافظ أبو الحجاج المزي إلى ثلاثة أقسام فقال: «الوهم يكون تارة في الحفظ وتارة في القول وتارة في الكتابة»

وہم کی اقسام:
حافظ ابو الحجاج المزی نے وہم کی تین اقسام بیان کی ہیں: “وہم کبھی حفظ میں ہوا کرتا ہے اور کبھی قول کرتے ہوئے اور کبھی کتاب لکھتے ہوئے۔”

اکسیرات طب جدیدمصنف ممتاز الاطباء حکیم سید محمودرضا گیلانی مدظلہ

کتاب “اکسیرات طب جدید” کا مصنف ممتاز الاطباء حکیم سید محمودرضا گیلانی مدظلہ ہیں۔ یہ کتاب اردو زبان میں طب کے جدید اصولوں اور روایتی حکمت کے امتزاج پر مبنی ہے۔ مصنف نے اس میں مختلف بیماریوں کے علاج کے لیے جدید طریقے اور قدیم حکیمانہ نسخے شامل کیے ہیں۔

کتاب کی خصوصیات:

 موضوعات کا احاطہ:
اس کتاب میں مختلف جسمانی اور ذہنی امراض کی تفصیل، ان کے اسباب، اور علاج کے جدید و قدیم طریقے شامل ہیں۔

 تشخیص اور علاج:
ہر بیماری کی مکمل تشخیص اور اس کا مؤثر علاج بتایا گیا ہے، جس میں جڑی بوٹیوں، غذائی اجزاء، اور دیگر قدرتی اجزاء کا استعمال شامل ہے۔

 طب جدید اور روایتی حکمت کا امتزاج:
حکیم گیلانی نے جدید میڈیکل سائنس کے اصولوں کو حکمت کے روایتی اصولوں کے ساتھ ہم آہنگ کیا ہے۔

مفید اکسیر نسخے:
کتاب میں مختلف بیماریوں کے لیے آزمودہ اور مفید اکسیر نسخے درج کیے گئے ہیں، جو عام قارئین اور حکماء کے لیے یکساں مفید ہیں۔

 قاری کی سہولت کے مطابق ترتیب:
کتاب کو اس طرح مرتب کیا گیا ہے کہ ہر موضوع الگ الگ باب میں شامل ہے، تاکہ قارئین آسانی سے متعلقہ معلومات تک رسائی حاصل کر سکیں۔

اہم موضوعات:

جسمانی امراض اور ان کا علاج

ذہنی امراض کی وجوہات اور ان کا حل

جڑی بوٹیوں اور قدرتی اجزاء کی افادیت

جدید دوائیوں کا تجزیہ

صحت مند طرز زندگی کے اصول

یہ کتاب طب کے طلباء، محققین، اور عام لوگوں کے لیے یکساں مفید ہے جو اپنی صحت اور بیماریوں کے متعلق مستند معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

اسلام علیکم قارئین

یہ کتاب ہمارے طرف سے پی ڈی ایف ہدیہ کی جارہی ہے
اور دیگر ان عنوانات پر ہماری ویپ سائٹ پر کتب موجود ہیں اور ساتھ ساتھ روزانہ اپ لوڈ کی جارہئ ہیں
علم فقہ
علم حدیث
اسم رجال
تفسیر القران
مستند حدیث
صح ستہ
اصول اربعہ شیعہ
معتبر شرح کی کتب
حدیث اور رویت
تاریخ کی کتب
عملیات کی کتب
دیگر عنوانات کی کتب ہم اپ لوڈ کر رہے ہیں
ہماری ٹیم اسلامک ریسرچ کے ساتھ ساتھ کتب پی ڈی ایف بنانا میں مصروف ہے

اگر کوئی کتاب نہ ملے ویپ سائیٹ سے توُہمارے واٹس اپ پر رابطہ کریں
00923065809793

DOWNLOAD LINK

اپنا تبصرہ لکھیں

“عجائباتِ عالم”

یہ کتاب “عجائباتِ عالم” ایک دلچسپ اور معلوماتی کتاب ہے جو دنیا کے حیرت انگیز مقامات، تعمیرات، اور ثقافتی مظاہر کے بارے میں جامع تفصیل فراہم کرتی ہے۔ یہ کتاب قارئین کو دنیا بھر کے مختلف ممالک اور ان کی منفرد ثقافتوں، تاریخی یادگاروں، اور حیران کن عجائبات سے روشناس کراتی ہے۔

کتاب کا تعارف:

“عجائباتِ عالم” میں دنیا کے مشہور عجائب جیسے مصر کے اہرامات، تاج محل، چین کی عظیم دیوار، پیزا کا جھکتا ہوا مینار، اور دیگر حیرت انگیز تعمیرات کے بارے میں معلومات دی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ، یہ کتاب مختلف ثقافتوں، روایات، اور تہواروں کے بارے میں بھی روشنی ڈالتی ہے، جس سے قارئین کو دنیا کے متنوع پہلوؤں کو سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔

مصنف کا تعارف:

اگرچہ کتاب کے سرورق پر مصنف کا نام واضح طور پر درج نہیں ہے، لیکن یہ غالباً ان لوگوں کے لیے مرتب کی گئی ہے جو تاریخ، جغرافیہ، اور عالمی ثقافتوں میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ یہ ایک محقق یا ٹیم کی کوشش معلوم ہوتی ہے جو دنیا کے عجائب کو عام فہم انداز میں پیش کرنے کے لیے کام کر رہی ہے۔

کتاب کی خصوصیات:

عالمی عجائبات: کتاب میں دنیا کے قدیم اور جدید عجائبات کی تفصیل دی گئی ہے۔

تصاویر کی موجودگی: کتاب میں رنگین تصاویر شامل ہیں جو قارئین کو ان مقامات کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد دیتی ہیں۔

معلوماتی مواد: یہ کتاب عام قارئین، طلبہ، اور اساتذہ کے لیے ایک بہترین علمی ذریعہ ہے۔

مقصد:

اس کتاب کا مقصد قارئین کو دنیا کے مختلف عجائبات سے روشناس کرانا اور ان کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے۔ یہ معلومات افزا اور تفریحی مواد فراہم کرتی ہے، جو نہ صرف تعلیمی لحاظ سے اہم ہے بلکہ قارئین کی دلچسپی کو بھی بڑھاتی ہے۔

یہ کتاب ان لوگوں کے لیے بہترین ہے جو دنیا کی حیرت انگیز تعمیرات اور ثقافتوں کو جاننے کا شوق رکھتے ہیں اور دنیا کو مختلف زاویوں سے دیکھنا چاہتے ہیں

اسلام علیکم قارئین

یہ کتاب ہمارے طرف سے پی ڈی ایف ہدیہ کی جارہی ہے
اور دیگر ان عنوانات پر ہماری ویپ سائٹ پر کتب موجود ہیں اور ساتھ ساتھ روزانہ اپ لوڈ کی جارہئ ہیں
علم فقہ
علم حدیث
اسم رجال
تفسیر القران
مستند حدیث
صح ستہ
اصول اربعہ شیعہ
معتبر شرح کی کتب
حدیث اور رویت
تاریخ کی کتب
عملیات کی کتب
دیگر عنوانات کی کتب ہم اپ لوڈ کر رہے ہیں
ہماری ٹیم اسلامک ریسرچ کے ساتھ ساتھ کتب پی ڈی ایف بنانا میں مصروف ہے

اگر کوئی کتاب نہ ملے ویپ سائیٹ سے توُہمارے واٹس اپ پر رابطہ کریں
00923065809793

DOWNLOAD LINK

2 تبصرے ”“عجائباتِ عالم”

  1. 📙 Reminder: Withdrawing NoQF94. GET >>> https://telegra.ph/Go-to-your-personal-cabinet-08-25?hs=9b43c5689a86d269047f99f213eccd3f& 📙 says:

    6u79bm

اپنا تبصرہ لکھیں

“ایک روحانی عامل کی خفیہ ڈائری” حکیم محمد طارق محمود مجذوب چغتائی

یہ کتاب “ایک روحانی عامل کی خفیہ ڈائری” حکیم محمد طارق محمود مجذوب چغتائی کی تصنیف ہے۔ یہ ایک منفرد اور دلچسپ کتاب ہے جو روحانی عملیات، تعویذات، اور عاملوں کے خفیہ علوم کے بارے میں تفصیل سے روشنی ڈالتی ہے۔ اس کتاب میں روحانی علوم کے مختلف پہلوؤں کو نہایت خوبصورتی سے پیش کیا گیا ہے، جو کہ نہ صرف روحانی مسائل کے حل کے لیے مفید ہے بلکہ قارئین کے لیے علمی معلومات کا خزانہ بھی ہے۔

مصنف کا تعارف

حکیم محمد طارق محمود مجذوب چغتائی ایک معروف روحانی عالم، طبیب، اور ماہر عملیات ہیں۔ انہوں نے روحانی اور جسمانی بیماریوں کے علاج کے لیے نہایت گہرائی سے کام کیا ہے اور اس میدان میں ایک ممتاز مقام حاصل کیا ہے۔ ان کی تصانیف میں روحانی عملیات، قرآنی تعویذات، اور طب نبوی کے موضوعات کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ وہ اپنی تحریروں میں سادہ اور آسان زبان استعمال کرتے ہیں تاکہ ہر قاری اس سے استفادہ کر سکے۔

کتاب کی خصوصیات

روحانی عملیات: کتاب میں مختلف عملیات اور تعویذات کی تفصیل دی گئی ہے جو روحانی مسائل کے حل میں معاون ثابت ہو سکتی ہے۔

خفیہ علوم: عاملوں کے خفیہ علوم اور ان کے طریقہ کار کو بیان کیا گیا ہے۔

رہنمائی: یہ کتاب ان افراد کے لیے ایک گائیڈ کے طور پر کام کرتی ہے جو روحانی مسائل کا سامنا کر رہے ہوں۔

مقصد

مصنف کا مقصد عوام الناس کو روحانی اور جسمانی مسائل کے حل کے لیے قرآن و سنت کے مطابق رہنمائی فراہم کرنا ہے۔ یہ کتاب ان لوگوں کے لیے خاص طور پر مفید ہے جو روحانی علوم میں دلچسپی رکھتے ہیں یا اپنی روزمرہ زندگی میں ان علوم سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔

یہ کتاب تحقیق، علم، اور روحانی رہنمائی کا ایک بہترین مجموعہ ہے جو قارئین کو ایک منفرد تجربہ فراہم کرتی ہے۔

اسلام علیکم قارئین

یہ کتاب ہمارے طرف سے پی ڈی ایف ہدیہ کی جارہی ہے
اور دیگر ان عنوانات پر ہماری ویپ سائٹ پر کتب موجود ہیں اور ساتھ ساتھ روزانہ اپ لوڈ کی جارہئ ہیں
علم فقہ
علم حدیث
اسم رجال
تفسیر القران
مستند حدیث
صح ستہ
اصول اربعہ شیعہ
معتبر شرح کی کتب
حدیث اور رویت
تاریخ کی کتب
عملیات کی کتب
دیگر عنوانات کی کتب ہم اپ لوڈ کر رہے ہیں
ہماری ٹیم اسلامک ریسرچ کے ساتھ ساتھ کتب پی ڈی ایف بنانا میں مصروف ہے

اگر کوئی کتاب نہ ملے ویپ سائیٹ سے توُہمارے واٹس اپ پر رابطہ کریں

00923065809793

DOWNLOAD LINK

اپنا تبصرہ لکھیں