حدیث میں موجود علت ( ضعف یا غلطی) معلوم کرنے کا طریقہ متقدمین آئمہ علل کے ہاں۔
كتاب أوهام المحدثين الثقات (الجزء 1 ، صفحة 6)
[مفهوم العلة والوهم]
العلة في اللغة: المرض، واصطلاحاً: خبر ظاهرة السلامة، اطلع فيه بعد التفتيش على قادح (١) وهذا القادح يشمل الإسناد والمتن.
والوهم: هو ما يخطئ فيه المرء وهو يظنه الصواب وتجد هذه اللفظة في كتب الرجال والعلل فيقولون: (في حديثه وهم) أي غلط أو (في حديثه أوهام)، ويقولون في نقد الراوي: (صدوق يَهِمُ) أو (له أوهام).
وإنما آثر المحدثون هذه اللفظة في التخطئة لأنها ألطف جرحاً وآدب نقداً من غيرها
علت کا مفہوم:
- لغت میں علت کہتے ہیں “مرض کو” اور اصطلاحاً معلول حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ایسی حدیث جسکا ظاہر سلامت ہو اور اس میں تفتیش و تحقیق کے بعد اس میں چھپی ہوئی خرابی معلوم ہو جائے۔ اور یہ خرابی اسناد اور متن دونوں میں ہو سکتی ہے۔
- اور وہم سے مراد یہ ہے کہ حدیث روایت کرتے ہوئے خطاء ہو جائے اور دیکھنے والا یہ سمجھے کہ یہ صواب (یعنی صحیح) ہے اور آپ کو اس طرح کے الفاظ رجال اور علل کی کتابوں میں ملیں گے تو محدثین کہتے ہیں “فی حدیثہ وہم ، یعنی اسکی حدیث میں وہم ہے۔” اس سے مراد غلطی ہے۔ یا “فی حدیثہ اوہام ، یعنی اسے حدیث میں اوہام ہوئے ہیں۔” اور محدثین کسی راوی پر نقد کرتے ہوئے کہتے ہیں: “صدوق یھم یعنی صدوق ہے وہم کا شکار ہو جاتا ہے۔” یا “لہ اوہام یعنی اسے اوہام ہوئے ہیں۔”
- اور محدثین نے یہ الفاظ خطاء اور غلطیوں کے معنیٰ میں ہی لیا ہے کیونکہ وہ دوسروں کی نسبت جرح اور نقد کرنے میں بڑے نرم اور شائستہ تھے۔
[طريق معرفة العلة]
جمع طرق الحديث، والنظر في اختلاف رواته، لأن جمع الروايات من حيث اتفاقها واختلافها هو مفتاح بيان الوهم واكتشافه
ایک حدیث کی علت (پوشیدہ خرابی) معلوم کرنے کا طریقہ:
اس حدیث کے تمام طرق (یعنی تمام اسانید) کو جمع کیا جائے اور ان میں موجود راویوں کے اختلاف کی جانچ پڑتال کی جائے کیونکہ روایات کے جمع ہو جانے پر جہاں راویوں کا اتفاق ہو اور جہاں اختلاف ہو۔ تو یہ طریقہ کار وہم (اور غلطی) جاننے کا دروازہ ہے۔
قال يحيى بن معين: لو لم نكتب الحديث من خمسين وجهاً ما عرفناه (٢).
امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اگر ہم احادیث کو پچاس اسانید سے نہ لکھتے تو ہمیں انکی معرفت نہ ہوتی۔ (کہ کونسی حدیث معلول ہے اور کونسی نہیں۔)
وقال ابن المبارك: إذا أردت أن يصح لك الحديث فاضرب بعضه ببعض (٣)، أي: قارن بين طرقه وألفاظه
اور امام عبد اللہ بن المبارک رحمہ اللہ کہتے کہ اگر تم ارادہ کرو کہ تم پر حدیث کی صحت واضح ہو جائے تو ان احادیث کی آپس میں ضرب لگاؤ یعنی ان کے طرق (اسانید) اور الفاظ میں مماثلت دیکھو۔
قال علي بن المديني: الباب إذا لم تجمع طرقه لم يتبين خطؤه (١).
امام علی بن المدینی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اگر ایک باب کی حدیث ہو اور اسکے تمام طرق (یعنی اسانید) ایک جگہ جمع نہ کیے جائیں تو اس میں موجود خطاء واضح نہیں ہو سکے گی۔
قال الخطيب: السبيل إلى معرفة علة الحديث أن يجمع طرقه وينظر في اختلاف رواته ويعتبر بمكانهم من الحفظ ومنزلتهم في الإتقان والضبط
امام الخطیب البغدادی کہتے ہیں: کسی حدیث کی علت معلوم کرنے کا طریقہ کار یہ ہے کہ اسکے تمام طرق کو جمع کیا جائے گا اور ان میں موجود راویوں کے اختلاف کو دیکھا پرکھا جائے گا اور راویوں پر اعتبار حفظ میں ان کے مقام کو دیکھ کر کیا جائے گا اور انکے اتقان اور ضبط کے درجے کی بھی جانچ پڑتال کی جائے گی۔
وقد قال قبل هؤلاء كلهم أيوب السختياني حاثاً على كثرة السماع لتميز الروايات: إذا أردت أن تعرف خطأ معلمك فجالس غيره
اور یقیناً ان سب سے پہلے امام ایوب السختیانی نے کثرتِ سماع کرنے کی تاکید کی تاکہ روایات میں تمیز ہو سکے ، انھوں نے کہا: اگر تم اپنے شیخ کی غلطی معلوم کرنا چاہتے تو ان کے علاوہ دیگر شیوخ کی مجالس میں بھی بیٹھا کرو۔
[أقسام العلة]
العلة تقع في الإسناد وهو الأكثر، وقد تقع في المتن وهو كالتالي:
١ ما وقعت العلة فيه في الإسناد ولم تقدح فيه، كإبدال راو ثقة بمثله أو زيادة ذكر راو ثقة في الإسناد.
٢ ما وقعت العلة فيه في الإسناد وقدحت فيه، كإبدال راو ضعيف براو ثقة أو يحذف من الإسناد أحد الضعفاء أو يدلسه ونحو ذلك فهذا يقدح في الإسناد والمتن معاً، إلا أن يجيء المتن من طرق أخرى غير معلولة.
٣ ما وقعت العلة في المتن ولا تقدح فيه ولا في الإسناد لإختلاف ألفاظ المتن، أو قد تقدح في لفظة من المتن لا جميعه كأن تكون فيه لفظة شاذة أو منكرة، أو تكون اللفظة صحيحة لكن من غير هذا الوجه كأن تكون وردت بإسناد آخر فأدرجها الراوي في هذا المتن.
٤ ما وقعت العلة في المتن وقدحت فيه كاختصار أخل بالمعنى، أو رواية بالمعنى غيرته
اسانید میں علتوں کی کثرت زیادہ پائی جاتی ہے اور حدیث کے متن میں بھی علت ہوتی ہے۔ وہ یہ ہیں:
- علت جو اسناد میں ہوتی ہے اور اس میں قدح (یعنی بظاہر خرابی) نہیں ہوتی مثلاً ایک ثقہ راوی کو اسی کی مثل ثقہ راوی سے بدل دیا جائے یا اسناد میں ثقہ راوی کا اضافہ کر دیا جائے۔
- جو علت اسناد میں واقع ہوتی ہے اور اس میں قدح (یعنی خرابی) ہوتی ہے ، جیسا کہ ایک ثقہ راوی کو ضعیف کی جگہ لے آنا یا اسناد میں سے کسی ایک ضعیف راوی کو حذف کر دینا یا اس سے تدلیس کرنا اور اسی طرح کے دیگر معاملات ، تو اس میں اسناد اور متن دونوں میں قدح (خرابی) ہے ، مگر یہ کہ متن کسی غیر معلول طرق سے آ جائے۔ (یعنی اصل صحیح حدیث سے ثابت شدہ متن صحیح ہو گا۔)
- وہ علت جو متن میں واقع ہو اور اس متن میں خرابی نہ ہو اور نہ اسکی اسناد میں خرابی ہو۔ الفاظ کا اختلاف ہو کہ اس متن میں سے چند الفاظ میں خرابی (یعنی نکارت) ہو لیکن مکمل متن میں نکارت نہ پائی جائے کہ اس میں شاذ یا منکر الفاظ موجود ہوں ، یا اس میں جو صحیح الفاظ موجود ہیں وہ کسی اور سند کیساتھ آئے تھے پھر اس راوی نے اس متن میں ان الفاظ کو داخل کر دیا۔
- وہ علت جو متن میں موجود ہو اور اس میں قدح (خرابی یا نکارت) ہو مثلاً ایسا اختصار جس سے اس حدیث کا معنیٰ خالی ہو جائے۔ یا اس طرح بالمعنی روایت کی جائے کہ اصل حدیث کا معنیٰ بدل جائے۔
[أقسام الوهم]
قسمها الحافظ أبو الحجاج المزي إلى ثلاثة أقسام فقال: «الوهم يكون تارة في الحفظ وتارة في القول وتارة في الكتابة»
وہم کی اقسام:
حافظ ابو الحجاج المزی نے وہم کی تین اقسام بیان کی ہیں: “وہم کبھی حفظ میں ہوا کرتا ہے اور کبھی قول کرتے ہوئے اور کبھی کتاب لکھتے ہوئے۔”