مرحومین کی طرف سے روزے رکھنے کا مسئلہ

0
30

 بسم الله الرحمن الرحیم

بعض لوگ فقہ حنفی پراورامام ابوحنیفہ رحمہ اﷲپرمیت کی طرف سے قضااورنذرکے روزوں کی احادیث بیان کرکےاعتراض کرتے ہیں کہ ائمہ احناف اس حدیث کو نہیں مانتے۔ ایسے لوگوں کونہ اﷲکاخوف ہوتاہے اورنہ ہی اپنی آخرت کی کوئی فکر، یہی وجہ ہے کہ ایسے لوگ ذیل میں بیان کردہ احادیث سناکرعوام الناس کوفقہ حنفی اورامام ابوحنیفہ رحمہ اﷲسے بدگمان کرتےہیں۔ حالانکہ امام ابو حنیفہ رحمہ اﷲ اور ائمہ احناف کا مؤقف اس مسئلے میں یہ ہے کہ ایسی عبادت جو محض جسمانی ہوجیسے نماز اور روزہ وغیرہ، ایسی عبادات میں کسی دوسرے شخص کی نیابت کرنے سے یہ عبادتیں ادا نہیں ہوتیں۔ البتہ جو عبادات صرف جسمانی نہیں بلکہ جسمانی کے ساتھ ساتھ مالی بھی ہیں۔ جیسے صدقات وخیرات اورحج وعمرہ وغیرہ، ان میں اگر اصل شخص ان عبادات سےعاجز ہوجائے یامرجائےتو کوئی دوسرا شخص اس کا نائب بن کر اس کی طرف سے یہ عبادات ادا کرسکتا ہے۔ یہی مسلک امام شافعی رحمہ اﷲ، امام مالک رحمہ اﷲاور جمہور ائمہ کرامؒ کا ہےمگرتعجب کی بات یہ ہے کہ یہ اعتراض صرف امام ابوحنیفہ رحمہ اﷲاورائمہ احناف پرہی کیاجاتاہےجیساکہ ایک غیرمقلدعالم مولانا محمدجونا گڑھی اپنی کتاب شمع محمدی میں درج ذیل احادیث بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

۱۔ ’’وَحَدَّثَنِي هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الأَيْلِيُّ، وَأَحْمَدُ بْنُ عِيسَى، قَالاَ حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي جَعْفَرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، – رضى الله عنها – أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ “مَنْ مَاتَ وَعَلَيْهِ صِيَامٌ صَامَ عَنْهُ وَلِيُّهُ”‘‘۔ ‘‘ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا: جو مر جائے اور اس کے ذمہ روزے ہوں تو اس کا ولی اس کی طرف سے روزے رکھے‘‘۔ (صحیح بخاری: ج۳، کتاب الصوم، باب مَنْ مَاتَ وَعَلَيْهِ صَوْمٌ ، رقم الحدیث ۱۹۵۲؛ صحیح مسلم: ج۶، كتاب الصيام، باب قَضَاءِ الصِّيَامِ عَنِ الْمَيِّتِ، رقم الحدیث۲۶۹۲)

۲۔ ’’حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍو، حَدَّثَنَا زَائِدَةُ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ مُسْلِمٍ الْبَطِينِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أُمِّي مَاتَتْ، وَعَلَيْهَا صَوْمُ شَهْرٍ، أَفَأَقْضِيهِ عَنْهَا قَالَ “نَعَمْ ـ قَالَ ـ فَدَيْنُ اللَّهِ أَحَقُّ أَنْ يُقْضَى”‘‘۔ ’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺکی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی یا رسول اللہ! میری ماں کا انتقال ہو گیا اور ان کے ذمے ایک مہینے کے روزے باقی رہ گئے ہیں۔ کیا میں ان کی طرف سے قضاء رکھ سکتا ہوں؟ آپ ﷺنے فرمایا ہاں ضرور، اللہ تعالیٰ کا قرض اس بات کا زیادہ مستحق ہے کہ اسے ادا کر دیا جائے‘‘۔ (صحیح بخاری: ج۳، کتاب الصوم، باب مَنْ مَاتَ وَعَلَيْهِ صَوْمٌ ، رقم الحدیث ۱۹۵۳؛صحیح مسلم: ج۶، كتاب الصيام، باب قَضَاءِ الصِّيَامِ عَنِ الْمَيِّتِ، رقم الحدیث۲۶۹۴)

۳۔ ’’وَحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، وَابْنُ أَبِي خَلَفٍ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، جَمِيعًا عَنْ زَكَرِيَّاءَ، بْنِ عَدِيٍّ – قَالَ عَبْدٌ حَدَّثَنِي زَكَرِيَّاءُ بْنُ عَدِيٍّ، – أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ زَيْدِ، بْنِ أَبِي أُنَيْسَةَ حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ عُتَيْبَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، – رضى الله عنهما – قَالَ جَاءَتِ امْرَأَةٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أُمِّي مَاتَتْ وَعَلَيْهَا صَوْمُ نَذْرٍ أَفَأَصُومُ عَنْهَا قَالَ “أَرَأَيْتِ لَوْ كَانَ عَلَى أُمِّكِ دَيْنٌ فَقَضَيْتِيهِ أَكَانَ يُؤَدِّي ذَلِكِ عَنْهَا”۔ قَالَتْ نَعَمْ۔ قَالَ “فَصُومِي عَنْ أُمِّكِ”‘‘۔ ’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتےہیں کہ ایک عورت نبی کریم ﷺکی خدمت میں آئی اور عرض کرنے لگی اے اللہ کے رسولﷺمیری ماں کا انتقال ہوگیا ہے، اس پر منت کا روزہ لازم تھا تو کیا میں اس کی طرف سے روزہ رکھوں؟آپ ﷺنے فرمایا تیرا کیا خیال ہے؟کہ اگر تیری ماں پر کوئی قرض ہوتا تو کیا تو اس کی طرف سے ادا کرتی؟اس نے عرض کیا ہاں!آپﷺنے فرمایا کہ اللہ کا قرض اس بات کا زیادہ حق دار ہے کہ اسے ادا کیا جائے، آپﷺ نے فرمایاکہ تو اپنی ماں کی طرف سے روزہ رکھ‘‘۔ (صحیح مسلم: ج۳، كتاب الصيام، باب قَضَاءِ الصِّيَامِ عَنِ الْمَيِّتِ، رقم الحدیث۲۶۹۶)

مندرجہ بالااحادیث کے بیان میں غیرمقلدعالم مولانا محمدجونا گڑھی صاحب لکھتےہیں:

’’یعنی میت کی طرف سے اس کا ولی روزہ نہ رکھے۔ حنفی بھائیوں، حدیث بھی آپ کے سامنے ہے اور آپ کی فقہ کا مسئلہ بھی آپ کے سامنے ہے۔ کیا سچ مچ جو حدیث میں ہے آپ اسے چھوڑ دیں گے؟ نہ مانیں گے؟ اور جو فقہ میں ہے اسے تھام لیں گے؟ اور اس پر ایمان لائیں گے؟‘‘۔ (شمع محمدی: ص۴۴-۴۵؛ ظفر المبین: ج۱، ص۱۵۶؛ فتح المبین علی رد مذاہب المقلدین: ص۵۲؛ و ص ۱۳۲)

کتنے افسوس کی بات ہے کہ امام الہندکہلانے والے مولانامحمدجوناگڑھی صاحب ایک عالم ہوکرعوام الناس سے کےسامنے آدھی بات بیان کرکےلوگوں کوامام ابوحنیفہ رحمہ اﷲاورفقہ حنفی سے بدگمان کررہےہیں۔یہ فرقہ واریت نہیں تواورکیاہے؟

اصل ومکمل بات یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ، امام مالک اورامام شافعی رحمہ اﷲتعالیٰ علیہم اجمعین کے نزدیک کوئی شخص کسی دوسرے کی طرف سے نائب بن کرنماز یا روزہ ادا نہیں کرسکتابلکہ صرف روزے کا فدیہ ادا کرسکتاہے۔ جس کی دلیل رسول اﷲﷺ کے فرمانِ عالیشان اورامی عائشہ رضی اﷲعنہا، حضرت عبداﷲبن عباس اورحضرت عبداﷲبن عمررضی اﷲعنہم اجمعین کےدرج ذیل فتاوجات سےملتی ہے:

’’حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْثَرٌ، عَنْ أَشْعَثَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ـ صلى الله عليه وسلم ـ “‏مَنْ مَاتَ وَعَلَيْهِ صِيَامُ شَهْرٍ فَلْيُطْعَمْ عَنْهُ مَكَانَ كُلِّ يَوْمٍ مِسْكِينٌ”‘‘۔ ’’حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص مر جائے، اور اس پہ رمضان کے روزے ہوں تو اس کی جانب سے ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلایا جائے‘‘۔ (جامع الترمذی: ج۱، كتاب الصوم عن رسول الله صلى الله عليه وسلم ، باب مَا جَاءَ فِي الْكَفَّارَةِ فِي الصَّوْمِ ، رقم الحدیث ۷۱۸؛ سنن ابن ماجہ: ج۱، كتاب الصيام، باب مَنْ مَاتَ وَعَلَيْهِ صِيَامُ رَمَضَانَ قَدْ فَرَّطَ فِيهِ، رقم الحدیث ۱۷۵۷)

مندرجہ بالاروایت اگرچہ ضعیف ہے لیکن اس کی تائید میں حضرت عبداﷲبن عباس رضی اﷲعنہ، حضرت عبداﷲبن عمررضی اﷲعنہ، اورحضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲعنہاکےفتواجات صحیح سندکے ساتھ موجود ہیں جن سے اس کی صحت کوتقویت ملتی ہے۔

۱۔ ’’أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ وَهُوَ ابْنُ زُرَيْعٍ قَالَ: حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ الْأَحْوَلُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَيُّوبُ بْنُ مُوسَى، عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: لَا يُصَلِّي أَحَدٌ عَنْ أَحَدٍ، وَلَا يَصُومُ أَحَدٌ عَنْ أَحَدٍ وَلَكِنْ يُطْعِمُ عَنْهُ مَكَانَ كُلِّ يَوْمٍ مُدًّا مِنْ حِنْطَةٍ‘‘۔ ’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ایک شخص دوسرے کی طرف سے نماز نہیں پڑھ سکتا اور ایک شخص دوسرے کی طرف سے روزہ نہیں رکھ سکتا، لیکن اس کی طرف سے ہر دن ایک مُد گندم کھلائے‘‘۔ (کتاب السنن الکبریٰ للنسائی: ج۵،  كتاب الصيام، صوم الحي عن الميت وذكر اختلاف الناقلين للخبر في ذلك، ص۲۶۸، رقم الحدیث۳۱۲۶)

۲۔ ’’عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: لَا يُصَلِّيَنَّ أَحَدٌ عَنْ أَحَدٍ، وَلَا يَصُومَنَّ أَحَدٌ عَنْ أَحَدٍ وَلَكِنْ إِنْ كُنْتَ فَاعِلًا تَصَدَّقْتَ عَنْهُ أَوْ أَهْدَيْتَ‘‘ ۔ ’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کوئی آدمی دوسرے آدمی کی طرف سے ہرگز نماز نہ پڑھے اور نہ دوسرے کی طرف سے روزہ رکھے۔ بلکہ اگر تم کرنا ہی چاہتے ہو تو اس کی طرف سے صدقہ کردو یا ہدیہ دے دو‘‘۔ (مصنف عبد الرزاق: ج۶، کتاب الوصایا، باب الصدقة عن الميت، ص۷۱، رقم الحدیث ۱۶۳۴۶؛ سنن الکبریٰ للبیہقی: ج۴، ص۲۵۴)

۳۔ ’’عَنْ مَالِكٍ بَلَغَهُ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ كَانَ يُسْأَلُ: هَلْ يَصُومُ أَحَدٌ عَنْ أَحَدٍ أَوْ يُصَلِّي أَحَدٌ عَنْ أَحَدٍ؟ فَيَقُولُ: لَا يَصُومُ أَحَدٌ عَنْ أَحَدٍ۔ وَلَا يُصَلِّي أَحَدٌ عَنْ أحد۔ رَوَاهُ فِي الْمُوَطَّأ‘‘۔ ’’امام مالک ؒ فرماتے ہیں: انہیں یہ خبر پہنچی ہے کہ ابن عمر رضی اﷲعنہ سے مسئلہ دریافت کیا گیا تھا، کیا کوئی شخص کسی دوسرے کی طرف سے روزہ رکھ سکتا ہے یا کوئی کسی دوسرے شخص کی طرف سے نماز پڑھ سکتا ہے؟ انہوں نے فرمایا: کوئی کسی کی طرف سے روزہ رکھ سکتا ہے نہ کوئی کسی کی طرف سے نماز پڑھ سکتا ہے‘‘۔ (الموطا امام مالک: کتاب الصیام، رقم الحدیث ۴۱؛ انوارالمصابیح شرح مشکاۃ المصابیح: ج۲، كتاب الصوم، باب القضاء – الفصل الثالث، رقم الحدیث ۲۰۳۵)

۴۔ ’’وَمَا قَدْ حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ قَالَ: حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ عَدِيٍّ الْكُوفِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبِيدَةُ بْنُ حُمَيْدٍ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ رُفَيْعٍ، عَنْ عَمْرَةَ ابْنَةِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَتْ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا، فَقُلْتُ لَهَا: إِنَّ أُمِّيَ تُوُفِّيَتْ وَعَلَيْهَا رَمَضَانُ، أَيَصْلُحُ أَنْ أَقْضِيَ عَنْهَا؟ فَقَالَتْ: “لَا، وَلَكِنْ تَصَدَّقِي عَنْهَا مَكَانَ كُلِّ يَوْمٍ عَلَى مِسْكِينٍ، خَيْرٌ مِنْ صِيَامِكِ عَنْهَا”‘‘۔ ’’ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے عمرہ بنت عبد الرحمٰن نے پوچھا کہ میری والدہ وفات پاگئی ہیں اور ان کے ذمہ رمضان کے روزے باقی تھے۔ تو کیا میں ان کی طرف سے قضا کرلوں؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا نہیں بلکہ اس کی طرف سے ہر روزے کے بدلے میں ایک مسکین پر صدقہ کرو۔ یہ تمہارے روزے رکھنے سے بہتر ہے‘‘۔ (شرح مشکل الآثار: ج۶، باب بيان مشكل ما روي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم في الواجب فيمن مات وعليه صيام هل هو الصيام أو الإطعام عنه، ص۱۷۸)

تعجب کی بات ہے کہ میت کی طرف سے قضااورنذرکے روزےرکھنے والی بخاری ومسلم کی تمام احادیث یاتوحضرت عبداﷲبن عباس رضی اﷲعنہ سے مروی ہیں یاپھرامی عائشہ صدیقہ رضی اﷲعنہاسے مروی ہیں اوراپنی ہی بیان کردہ احادیث کے مخالفت میں ابن عباس رضی اﷲعنہ اورامی عائشہ رضی اﷲعنہ دونوں کے فتوے موجودہیں۔ ایسامعلوم ہوتاہے کہ میت کی طرف سے قضااورنذرکے روزے رکھنےکی پہلے اجازت تھی جوکہ بعدمیں منسوخ ہوگئی۔ یہی وجہ ہے کہ تینوں جلیل القدرمجتہدصحابی رسولﷺاورام المومنین رضی اﷲعنہم اجمعین نے رسول اﷲﷺکی حدیث کے خلاف فتویٰ دیا۔

امام ابو محمد عبدالله بن یوسف الزیلعی حنفی رحمہ اﷲ(المتوفی: ۷۶۲ھ) لکھتے ہیں: ’’صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے دور میں کوئی ایسی مثال نہیں ملتی جس میں کسی دوسرے آدمی کی طرف سے نماز یا روزہ ادا کرنے کو جائز قرار دیا گیا ہو۔ چنانچہ امام مالک ؒ فرماتے ہیں: میں نے مدینہ منورہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم یا تابعین ؒ میں سے کسی کے بارے میں یہ نہیں سنا کہ انہوں نے کسی دوسرے شخص کی طرف سے نماز یا روزہ ادا کرنے کا حکم دیا ہو بلکہ وہ سب اپنا عمل اپنے ہی لئے کرتے ہیں اور کوئی شخص بھی دوسرے کی طرف سے عمل نہیں کرتا‘‘۔ ( نصب الرایہ: ج۲، ص۴۶۳) 

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا