حضرت ابوبکر صدیق کا نسب اور رافضی اعتراض

0
47

حضرت ابوبکر صدیق کا نسب اور رافضی اعتراض

حضرت ابوبکر صدیق کا نسب اور رافضی اعتراض

 کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی والدہ اس کی کزن لگتی ہے یعنی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے باپ کی بھتیجی تھی۔ صاف ظاہر ہوا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے والد نے اپنی بھتیجی سے شادی کی جس کے نتیجے میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے! معاذاللہ

اہل سنت کتاب کی یہ روایت صحیح سند کے ساتھ ہے اور علامہ ابن حجر ہیثمی رحمہ اللہ نے بھی واضح لکھا ہے کہ اس کی سند حسن ہے۔

لجواب:

حضرت ابوبکر صدیقؓ کا نام مبارک اورنسب:

شرح مواہب زرقانی ج 1،ص 445میں ہے کہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا اسم گرامی زمانۂ جاہلیت میں عبد رب الکعبہ تھا اور” الإستيعاب في معرفة الأصحاب ” میں عبدالکعبہ مذکور ہے ، حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تبدیل کرکے عبداللہ تجویز فرمایا:

’’ عبد الله بن أبي قحافة أبو بكر الصديق رضي الله عنهما. كان اسمه في الجاهلية عبد الكعبة فسماه رسول الله صلى الله عليه وسلم عبد الله. هذا قول أهل النسب‘‘

(الإستيعاب في معرفة الأصحاب المؤلف : أبو عمر يوسف بن عبد الله القرطبي ،المتوفى : 463هـ، جلد1، صفحہ 294)

آپ کے والد ماجد ابوقحافہ کانام “عثمان” تھا ،جن کا تعلق بنوتیم قبیلہ سے تھا اور نسب مبارک اس طرح ہے۔

ابوقحافه عثمان بن عامر بن عمرو بن کعب بن سعد بن مره بن کعب بن لوی بن غالب بن فهر القرشی التيمی

آپ کے والدہٴ ماجدہ کا نام “ام الخیر سلمی” تھا ، ان کا نسب مبار ک اس طرح ہے ۔

سلمیٰ بنت صخر بن عامر بن کعب بن سعد بن تيم ۔

(الکامل فی التاریخ ،جلد 2 ص402)

تین اہم رشتے ذہن میں رکھ لیں۔

1: عامر بن کعب حضرت ابوبکر صدیقؓ کے پڑنانا تھے۔

  رافضی دھوکا: شیعہ رافضی عامر بن عمرو جوکہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دادا تھے اسے حضرت ابوبکر صدیقؓ کا پڑنانا ثابت کر کے ان کے نسب پر طعن کرتے ہیں کہ ان کے والد نے اپنی بھتیجی سے شادی کرلی!! معاذاللہ۔

2: عمرو بن کعب حضرت ابوبکر صدیقؓ کے پڑدادا تھے۔

3: حضرت ابوبکرؓ کی والدہ سلمی بنت صخر حضرت ابوبکر صدیقؓ کے والد ابوقحافہ عثمان کی بھتیجی نہیں بلکہ ان کی کزن تھیں۔

  رافضی دھوکا: حضرت ابوبکر صدیقؓ کی والدہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کی کزن نہیں تھیں بلکہ ان کے والد ابوقحافہ عثمان کی کزن تھیں۔

  کئی علماٰٰٰء کرام کو حضرت ابوبکرصدیقؓ کے نسب میں عامربن کعب، عامر بن عمرو اور عمرو بن کعب کے ناموں میں ایک ہی جیسے نام عامر اور عمرو کی وجہ سے مغالطہ ہوا۔

عامر بن عمرو نہیں بلکہ عامر بن کعب حضرت ابوبکر صدیقؓ کے پڑ نانا تھا

♦️ قال القرطبي في تفسير (16*195)

أُمُّ الْخَيْرِ، وَاسْمُهَا سَلْمَى بِنْتُ صَخْرِ بْنِ عَامِرِ بْنِ كَعْبِ بْنِ سَعْدٍ

♦️ قال ابن الاثير في جامع الاصول (12 – 121)

وأمُّه أمُّ الخَير سَلْمَى بنت صخر بن عامر بن كعب بن سعد.

♦️ قال ابن اسحاق في سيرته (2 – 299)

وَكَانَتْ أُمُّهَا بِنْتَ صَخْرِ بْنِ عَامِرِ بْنِ كَعْبِ بْنِ سَعْدِ بْنِ تَيْمٍ، خَالَةَ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ

(هذه خالة الصديق فيلزم اتحاد النسب)

♦️ قال أبو حاتم، الدارمي (2 – 419)

وأم أبي بكر أم الخير بنت صخر بن عامر بن كعب- أخو عمرو بن كعب- بن سعد بن تيم بن مرة بن لؤي بن غالب.

♦️ قال السيوطي – تاريخ الخلفاء – 1-28

وأم أبي بكر بنت عم أبيه، اسمها: سلمى بنت صخر بن عامر بن كعب، وتكنى أم الخير، قاله الزهري، أخرجه ابن عساكر.

♦️ عبدالملك العصامي المكي – سمط النجوم العوالي في أنباء الأوائل والتوالي – 2 – 410

أمه أم الْخَيْر لفظا وَمعنى سلمى بنت صَخْر بن عَامر بن كَعْب بن سعد بن تيم بنت عَم أَبِيه هَكَذَا ذكره جمهوره أهل النّسَب

♦️ قال ابن سعد في الطبقات – 1 – 296

فَوَلَدَ أَبُو قُحَافَةَ أَبَا بَكْرٍ الصِّدِّيقَ وَعَبْدَ اللَّهِ، وَأُمُّهُمَا أُمُّ الْخَيْرِ بِنْتُ صَخْرِ بْنِ عَامِرِ بْنِ كَعْبٍ

♦️ ابن الخياط – طبقات خليفة ابن خياط – 1 / 48

أمه أم الخير بنت صخر بن عامر بن كعب بن سعد بن تيم بن مرة

♦️ ابونصر البخاري الكلباذي -الهداية والإرشاد- 1 – 381

وَأمه أم الْخَيْر وَاسْمهَا سلْمَى بنت صَخْر بن عَامر بن كَعْب بن سعد بن تيم

♦️ ابن عبدالبر – الاستيعاب 3 – 963

وأمه أم الخير بنت صخر بن عامر بن كعب بن سَعْد بْن تيم بْن مُرَّةَ واسمها: سلمى

♦️ ابوالوليد الباجي الاندلسي – التعديل والتجريح , لمن خرج له البخاري في الجامع الصحيح – 2 – 796

سلمى بنت صَخْر بن عَامر بن كَعْب بن سعد بن تيم بن مرّة

♦️ ابن الاثير – اسد الغابة – 3 – 310

وأمه أم الخير سلمى بِنْت صخر بْن عَامِر بْن كعب بْن سعد بْن تيم بْن مرة

♦️ النووي – تهذيب الاسماء – 2 – 181

وأم أبى بكر أم الخير بنت صخر بن عامر بن كعب بن سعد بن تيم بن مرة

♦️ ابو العباس المحب الطبري – الرياض النضرة في مناقب العشرة – 1 – 74 

سلمى بنت صخر بن عامر بن كعب بن سعد بن تيم بن مرة بنت عم أبيه, هكذا ذكره جمهور أهل النسب

 ♦️ المزي – تهذيب الكمال 15 – 238

وأمه أم الخير، واسمها سلمى بنت صخر بن عامر بن كعب بن سعد بْن تيم بْن مره

♦️صلاح الدين الصفدي – الوافي في الوفيات 17-164

أمه أم الْخَيْر بنت صَخْر بن عَامر بن كَعْب بن سعد بن تيم بن مرّة

♦️ ابوعبدالله الزبيري – نسب قريش 1 – 275

وأمه: أم الخير، واسمها: سلمى، بنت صخر بن عامر بن كعب.

♦️ محمد التلمساني (البري) – الجوهرة في نسب النبي وأصحابه العشرة – 2- 121

وأُمُّ أبي بكر رضي الله عنه أمُّ الخير، واسمها سلمى بنت صخر بن عامر بن كعب بن سعيد

♦️ ابن حزم الاندلسي – جمهرة أنساب العرب – 1 – 135

فولد صخر بن عامر بن كعب: أمّ الخير سلمى، وهى أم أبي بكر الصديق- رضى الله عنه

قال السيوطي – تاريخ الخلفاء – 1-28

وأم أبي بكر بنت عم أبيه، اسمها: سلمى بنت صخر بن عامر بن كعب، وتكنى أم الخير، قاله الزهري، أخرجه ابن عساكر.

ابنة عم ابيه .. وليست ابنة عمه هو.

ام الصديق : ام الخير بنت صخر بـن عـامـر بن كـعـب

ابو الصديق: عثـمان بـن عامر بـن عـمـرو بن كـعـب

اقرأ الاسماء جيدا .. فام الخير ابنة عم عثمان (والد ابوبكر الصديق) رضوان الله عليهم

شیعہ کتاب بحار الانوار کے مطابق عامر بن عمرو حضرت ابوبکرؓ کے دادا ہی بنتے ہیں اور عامر بن کعب پڑ نانا ہی بنتے ہیں۔

 اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکرصدیقؓ کے نسب میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔

شیعہ کتاب  بحار الأنوار حضرت ابوبکرؓ کی والدہ خود حضرت ابوبکرؓ کی کزن نہیں بلکہ ان کے والد کی کزن ہے۔

بحار الأنوار / جلد 30 / صفحة[517]

خاتمة في ذكر ولادة أبي بكر ووفاته وبعض أحواله قال المخالفون: كان مولده بمكة بعد

الفيل بسنتين وأربعة أشهر إلا أياما، واسمه: عبد الله بن عثمان بن أبي قحافة بن عامر بن عمر بن كعب بن سعد ابن تيم بن مرة بن كعب بن لؤي بن غالب، وقيل اسمه: عتيق، وقيل: كان اسمه: عبد رب الكعبة، فسماه النبي صلى الله عليه وآله: عبدالله،

وأمه أم الخير سلمى بنت صخر بن عامر بن كعب.

اب اگر کوئی کہے کہ جاہلیت کے زمانے میں ایسے رشتے جائز ہوتے تھے تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہرگز ایسا نہیں تھا بلکہ علماء اہل سنت اور تشیع سب اس بات پہ متفق ہیں کہ جاہلیت کے زمانے میں بھی ایسے رشتے حرام ہوا کرتے تھے-

 ذرا دل پر ھاتھ رکھ کے سوچیں !!!! 

حضرت ابوبکر صدیقؓ کے بڑے بیٹے عبدالرحمن کی بیٹی اسماء اور چھوٹے بیٹے محمد بن ابو بکر کے بیٹے قاسم کا نکاح ہوا ، جن سے ایک لڑکی پیدا ہوئ، ان کا نام امّ فرواٰ ہے۔

حضرت ام فروہ امام باقر کے نکاح میں آئیں۔ جن سے حضرت امام جعفر صادق پیدا ہوئے اور اسی امّ فرواٰ کے اولاد سے حضرت امام موسیٰ کاظم، حضرت امام رضا کاظم حضرت امام نقی علی ، حضرت امام تقی علی اور حضرت امام حسن عسکری پیدا ہوئے۔

 مشہور شیعہ ماہر نسب ابن عنبہ ( جمال الدین احمد بن علی بن حسین حسینی) اپنی مشہور کتاب عمدة الطالب (عُمْدَةُ ألطّالِب فی أنْسابِ آلِ أبی‌طالب) میں لکھتا ہے امام جعفر کی والدہ ام فروہ بنت قاسم بن محمد بن ابی بکر اور آپ کی نانی اسماء بنت عبدالرحمان بن ابی بکر تھیں، اس لئے جعفر صادق کہا کرتے تھے ، ابوبکر نے مجھے دو دفعہ جنم دیا ہے۔

(عُمْدَةُ ألطّالِب فی أنْسابِ آلِ أبی‌طالب صفحہ 195 طٰہ تہران 1961)

ضرت امام جعفر صادق رحمتہ اللہ علیہ کا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہہ کی نسبت ہونے پر فخر کرنا

کتاب  معجم رجال الحدیث 

اور راوی کا نام ہے السید الخوائی

اب ذرا وہ شیعہ سامنے آئے جو ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہہ پر تبرا کرتے ہیں اب اس تبرا کی زد میں تو جعفر صادق رحمتہ اللہ علیہ بھی آئے !!

ایسے کتاب اور ایسا راوی یہ کہہ رہا ہے کہ دنیا جہان کا شیعہ تو نہ کتاب سے انکار کرسکتا ہے نہ اس راوی سے شیعوں کے لیئے سوچ کا مقام ہے

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا