شیعہ کی کتب میں اللہ کی گستاخیاں اور غلط عقائد نظریات

رد_رافضیت
اہل تشیع کی گستاخیاں

قسط نمبر 1
اللہ کی شان میں گستاخی

السلام و علیکم و رحمتہ اللہ و برکتہ،

محترم قارئین،

اہل تشیع کے گستاخانہ عقائد سے کون واقف نہیں۔۔۔۔۔اس باطل مذہب کے عقائد کا رد اہلسنت برسوں سے الحمد للہ کرتے آرہے ہیں۔۔۔۔آج سے اس سوشل میڈیا پلیٹ فارم سے ہم ان کے باطل عقائد کو دنیا میں اجاگر کرنے کا بیڑا اٹھا رہے ہیں۔۔۔۔پوسٹ زرا طویل ہوگی۔ مگر توجہ درکار ہے۔

شیعہ حضرات کا عقیدہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالی کو “بداء” یعنی مغالطہ لاحق ہوتا رہتا ہے معاذ اللہ رب العالمین۔

اول یہ سمجھیں کہ بداء کا اصل معنی ہے کیا (حوالے اہل تشیع کی معتبر کتب سے دیئے جا رہے ہیں)

بداء کا معنی یہ ہے کہ “جب پہلی رائے کے مخالف رائے ذہن میں آئے اس وقت کہا کرتے ہیں بداء لہ، اور ابوالفتح کراجگی نے کنز الفوائد میں یہی معنی تحقیق کیئے ہیں، اور جو اس کا معنی مرتضی نے الذریعہ میں تحقیق کیا ہے جس کی طرف علامہ طبرسی کا کلام بھی مشعر ہے، وہ یہ کہ بدالہ تعالی کا یہ معنی ہے کہ اللہ تعالی کو ایسا امر ظاہر ہوگیا جو پہلے اس پر ظاہر نہ تھا”۔

اس تعریف کے تائید میں علامہ طبرسی (جو شیعوں کا مجتہد اور مفسر ہے) نے “تفسیر مجمع البیان” کے ان الفاظ سے کی ہے۔

حوالہ نمبر 1:
“جب کوئی چیز ظاہر ہو تو بدایبدوبدوا بولتے ہیں، اور جب کسی شخص کو ایک رائے کے بعد دوسری رائے ظاہر ہوجائے تو ایسے شخص کو وہ ذوبدوات کہتے ہیں اور اس لفظ کا استعمال اس طرح بھی آیا ہے “بدا لی فی ھذا الامر بداء” اور “بداء” کا اطلاق و استعمال اللہ تعالی کی ذات کے لیئے جائز نہیں کیونکہ وہ تمام معلومات کا ازلا ابدا علم ہے۔”
حوالہ: مجمع البیان، جلد 4، صفحہ 27، سورہ الانعام، آیت 28، مطبوعہ جدید البیروت۔

علامہ طبرسی نے “بداء” کے معنی تائید کردی ہے کہ اس کا اطلاق اس وقت ہوتا ہے جب کسی کو اپنی سابقہ رائے کے بعد ایک نئی رائے ظاہر ہوجائے۔ اب ممکن ہے کوئی اہل تشیع راہ فرار اختیار کرنے کے لیئے کہے کہ علامہ صاحب نے کہہ دیا کہ اللہ کا متعصف ہونا اس لفظ سے ناجائز ہے۔ تو ہم یہ راستہ ابھی بند کیئے دیتے ہیں، علامہ طبرسی کا اللہ تعالی کے متعلق “بداء” کے اطلاق کو ناجائز کہنا “آئمہ معصومین” کے عقیدے کے خلاف ہے (جو ہم اب آگے باحوالہ زکر کریں گے) اور اس سلسلے میں بقول شیعہ جو آئمہ معصومین نے نصوص قطیعہ فرمائیں ان کی مخالفت ہے اور اس بارے میں اہل تشیع کا یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ جب کسی مجتہد یا عالم و فقیہ کی رائے آئمہ معصومین کے خلاف ہو تو وہ مردود و باطل ہوگی۔ لہذا کسی ایک دو شیعہ کا اس عقیدے کے خلاف میں آئمہ معصومین کی نصوص صریحہ کے خلاف لکھنا قطعی کوئی وقعت نہیں رکھتا۔

آئمہ اہلبیت سے اللہ تعالی کے بداء پر روایات ملاحظہ فرمائیں:

حوالہ نمبر 2:
زراہ بن اعین کا بیان ہے کہ امام محمد باقر اور امام جعفر صادق رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین میں سے کسی نے فرمایا کہ کسی چیز کے ساتھ اللہ تعالی کی ایسی عبادت نہیں کی گئی جیسا کہ “بداء” کے ساتھ کی گئی اور ابن عمیر نے ہشام بن سالم سے روایت کی ہے کہ کسی چیز کے ساتھ اللہ تعالی کی ایسی تعظیم نہیں کی گئی جیسی “بداء” کے ساتھ کی گئی۔(اسکین ملاحظہ فرمائیں)
حوالہ: الشافی ترجمہ اصول کافی، جلد اول، کتاب التوحید، باب البداء

حوالہ نمبر 3:
ریان بن صلت کا بیان ہے کہ میں نے امام رضا سے سنا وہ کہتے تھے کہ اللہ تعالی نے کوئی پیغمبر ایسا نہیں بھیجا جس نے شراب کی حرمت نہ کی ہو اور اللہ تعالی کے لیئے “بداء” کا اقرار نہ کیا ہو۔ (اسکین ملاحظہ کریں)
حوالہ: الشافی ترجمہ اصول کافی، جلد اول، کتاب التوحید، باب البداء

حوالہ نمبر 4:
(بحذف اسناد) امام جعفر صادق نے فرمایا کہ عبد المطلب تنہا ایک امت میں اٹھایا جائے گا جس پر بادشاہوں کا سا جلال اور پیغمبروں کے سے نشان ہونگے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ وہ پہلے شخص ہیں جو “بداء” کے قائل ہوئے۔ (اسکین ملاحظہ کریں)
حوالہ:الشافی ترجمہ اصول کافی، جلد 3، کتاب الحجت، باب مولد النبی علیہ السلام ووفاتہ

قارئین دیکھا آپ نے عند الشیع “بداء” کا قائل ہونا کتنی فضیلت کا حامل ہے؟ یہ بداء کا معاملہ اللہ پر منسوب کرنے کے پیچھے بھی ان کا ہی ایک باطل عقیدہ ہے کہ امامت “منصوص من اللہ” ہوتی ہے، پہلے عبارت ملاحظہ فرمائیں اس پر اس کا خلاصہ پیش کیا جائے گا۔

حوالہ نمبر 5:
جب امام جعفر نے (اپنے بعد) اپنے بیٹے اسماعیل کی امامت کی طرف اشارہ کیا (کہ میرے بعد اسماعیل ہوگا) اور پھر ان کی زندگی ہی میں اسماعیل کا انتقال ہوگیا تو امام جعفر کے پیروکار ان سے برگشتہ ہوگئے اور کہا کہ جعفر نے ہم سے جھوٹ بولاہے یہ امام نہیں ہے کیونکہ امام تو جھوٹ نہیں بولتا بلکہ وہی کچھ کہتا ہے جو بعد میں واقع ہونا ہو۔ ان لوگوں نے کہا کہ جعفر یہ کہتا ہے کہ اللہ تعالی کو اسماعیل کی امامت میں بداء ہو گیا ہے(مغالطہ لاحق ہوگیا ہے) چنانچہ یہ لوگ اللہ کے بداء اور مشیت کے منکر ہوئے اور کہنے لگے یہ (بداء) باطل اور غیر جائز ہے۔ (

اسکین ملاحظہ فرمائیں)
حوالہ: فرق الشیعہ، صفحہ 55 مصنف حسن النوبختی
(اور یہی سے اہل تشیع میں اسماعیلی فرقے کی بنیاد پڑی۔)
اس کا خلاصہ یہ ہوا کہ امام جعفر نے اپنی زندگی میں اپنے بڑے بیٹے اسماعیل کو امامت میں اپنا جانشین بنایا تھا اور چونکہ شیعوں کا عقیدہ ہے کہ امام کا تقرر اللہ کی طرف سے منصوص ہوتا ہے اس لیئے امام جعفر کو (بقول شیعہ) یہ فکر لاحق ہوگئی کہ لوگ کیا کہیں گے، اگر جعفر کے بعد اللہ نے اس کے بیٹے اسماعیل کو امام بنایا تھا تو وہ اس کی زندگی میں کیوں فوت ہوگیا؟ اس لیئے امام جعفر نے کہا کہ اللہ نے ہی اسماعیل کو میرے بعد امام بنایا تھا مگر اسی میں اللہ کو بداء یعنی مغالطہ ہوگیا ہے لہذا میرے بعد موسی رضا یعنی میرا دوسرا بیٹا امام ہوگا۔ (معاذ اللہ، نقل کفر کفر نبا شد)
مزید برآں اس حوالے سے یہ بھی واضح ہوا کہ جب امام جعفر نے بداء کا قول کیا تو ان کے بعض پیروکار ان سے منحرف ہوئے اور بداء کا انکار کیا۔ پس ثابت ہوا شیعت سے نکلنے والے بداء کے منکر ہوئے، مگر امام جعفر اور ان کے مضبوط پیروکاروں کا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ کو بداء یعنی مغالطہ ہوجاتا ہے۔(معاذ اللہ)

حوالہ نمبر 6:
ملا خلیل قزوینی نے صافی شرح اصول کافی میں اس مقام کی وضاحت کرتے ہوئے یوں لکھا ہے:
جب کہ لغت کے اعتبار سے “بداء” کے حقیقی معنی پشیمانی کے ہیں، اس لیئے اپنی طرف سے اللہ تعالی کے فعل میں اس لفظ کو بطور استعارہ استعمال کرنا جرات سے خالی نہیں ہے اس لیئے عبد المطلب سے پہلے بطور استعارہ اسے اللہ کے لیئے کسی نے استعمال نہ کیا تھا جب آدمی پر خوف کا غلبہ ہو اور پریشانی میں گھرا ہوا ہو تو جرات میں معذور ہوتا ہے۔ گفتگو میں عبد المطلب نے یہ جرات (ایسی حالت میں ہی) کی۔ اور اس کے استعمال کرنے کے بعد لوگوں میں عادت جاریہ بن گئی، گویا جیسا کہ وحی ہوا ہو۔ “بداء” کے معنی کتاب التوحید کے چوبیسویں باب میں بیان ہو چکے ہیں۔ (اسکین ملاحظہ کریں)
حوالہ”صافی شرح اصول کافی، جلد نمبر 3، صفحہ 162
خلاصہ: اس سے طاہر ہوا کہ اس حدیث اور دیگر احادیث میں جو باب مذکور میں وارد ہوئیں کوئی منافات نہیں وہ اس طرح کہ دیگر احادیث اس مضمون کے اثبات میں تھیں کہ اللہ کا ہر ایک پیغمبر اقرار بالبداء کے ساتھ مبعوث ہوا اور اس حدیث میں “بداء” کے بطور استعارہ ذات الہی کے افعال پر اطلاق کا مضمون ہے جو پہلے مضمون سے مطابقت رکھتا ہے۔

حوالہ نمبر 7:
راوی کہتا ہے کہ میں امام علی نقی علیہ السلام کے فرزند ابو جعفر کے مرنے کے بعد ان کی خدمت میں حاضر ہوا، میرے دل میں یہ خیال تھا کہ فرزاندان امام نقی ابو جعفر اور امام حسن عسکری کا واقعہ اس وقت بالکل ویسا ہی ہے جیسا امام موسی کاظم اور اسماعیل فرزاندان امام جعفر صادق کا تھا اور جو قصہ خوردی و بزرگی کا وہاں تھا، وہی ہے (یعنی جس طرح اسماعیل، امام موسی کاظم سے عمر میں بڑے تھے اسی طرح ابو جعفر امام حسن عسکری سے بڑے ہیں) کیونکہ ابو جعفر کے بعد امام حسن عسکری امام ہوئے پھر امام نقی علیہ السلام قبل اس کے کہ میں کچھ کہوں مجھ سے فرمانے لگے اے ابو ہاشم خدا نے ابو جعفر کے بعد اپنا حکم ظاہر کیا ابو محمد (حسن عسکری) کے بارے میں جس کی لوگوں کو معرفت نہ تھی، یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ میں نے تم سے بیان کیا اگرچہ باطل پرست اس کو پسند نہ کریں۔ ابو محمد میرا بیٹا ہے میرے بعد میرا جانشین ہے اس کے پاس وہ تمام علم ہے جس کی طرف احتیاج ہوتی ہے اس کے پاس سامان امت ہے۔ (اسکین ملاحظہ فرمائیں)
حوالہ: الشافی ترجمہ اصول کافی، جلد نمبر 3، کتاب الحجت، باب الاشارہ و النص علی ابی محمد علیہ السلام

حوالہ نمبر 8:
امام جعفر الصادق علیہ السلام کے اس فرمان کہ خدا کو ایسا بداء کبھی نہیں ہوا جیسا میرے بیٹے اسماعیل کے بارے میں ہوا ہے، کا مطلب یہ ہے کہ کسی کام کے متعلق اللہ تعالی کی ایسی مصلحت کبھی ظاہر نہیں ہوئی جیسی میرے فرزند اسماعیل کے بارے میں ہوئی کہ میری زندگی میں اسے موت دے دی تاکہ لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ وہ میرے بعد امام نہیں۔
حوالہ: اعتقادات الصدوق، صفحہ 37
خلاصہ: یعنی اللہ نے پہلے اسماعیل کو امام بنایا پھر ایک رائے پر تجدید کر کے دوسری رائے ظاہر ہوئی۔ سوال یہ ہے کہ جب امامت منصوص من اللہ تھی تو اللہ نے اپنی ہی نص کو کیسے رد کر دیا۔ (معاذاللہ)

خلاصہ کلام:
مذکورہ حوالوں سے یہ بات روز روشن کی طرح ثابت ہوئی کہ اللہ تعالی کے لیئے بداء کا عقیدہ آئمہ معصومین کی حدیث کی رو سے لازمی اور انتہائی ضروری ہے، اور دوسری بات یہ ثابت ہوئی کہ بداء کی علت فائی مسئلہ امامت ہے۔
دیکھا لوگوں آپ نے اہل تشیع کیسے شدید رب کریم کے گستاخ ہیں۔
ان کے مزید کفر انبیاء کرام علیہم الصلوہ والسلام کے بارے میں اگلی پوسٹ میں واضح کریں گے انشاءاللہ۔

حق واضح کرنے کے لیئے جتنی کفریہ عبارتیں میں نے نقل کیں اس کے لیئے اللہ غفور رحیم کے حضور معافی کا خواستگار ہوں۔۔۔۔فقط حق کو واضح کرنے اور باطل مذہب کے عقیدے کو سب پر عیاں کرنے کو ایسا کیا۔۔۔۔

وماا علینا الا البلغ المبین