بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
وحی کی تعریف، اقسام، ضرورت اور کچھ ثمرات.
الْحَمْدُ لِلَّهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ، وَنَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا، وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا، مَنْ يَهْدِهِ اللَّهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ، وَمَنْ يُضْلِلْ فَلَا هَادِيَ لَهُ، وَأَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ۔
وَالصَّلاةُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط
قال۔اللہ تعالی فی القرآن المجید؛
1; وَ مَا کَانَ لِبَشَرٍ اَنۡ یُّکَلِّمَہُ اللّٰہُ اِلَّا وَحۡیًا اَوۡ مِنۡ وَّرَآیِٔ حِجَابٍ اَوۡ یُرۡسِلَ رَسُوۡلًا فَیُوۡحِیَ بِاِذۡنِہٖ مَا یَشَآءُ ؕ اِنَّہٗ عَلِیٌّ حَکِیۡمٌ ﴿۵۱﴾ وَ کَذٰلِکَ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ رُوۡحًا مِّنۡ اَمۡرِنَا ؕ مَا کُنۡتَ تَدۡرِیۡ مَا الۡکِتٰبُ وَ لَا الۡاِیۡمَانُ وَ لٰکِنۡ جَعَلۡنٰہُ نُوۡرًا نَّہۡدِیۡ بِہٖ مَنۡ نَّشَآءُ مِنۡ عِبَادِنَا ؕ وَ اِنَّکَ لَتَہۡدِیۡۤ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسۡتَقِیۡمٍ ﴿ۙ۵۲﴾
اللہ تعالی کا ارشاد ہے :-اور کسی بشر کے لیے ممکن نہیں کہ اللہ ﷻ اس سے کلام کرے ماسوا وحی کے یا پردے کی اوٹ سے، یا اللہ ﷻ کسی فرشتہ کو بھیج دے پس وہ اللہ ﷻ کے حکم سے جو اللہ ﷻ چاہیے وہ وحی کرے، بیشک وہ بہت بلند، بےحد حکمت والا ہے اسی طرح ہم نے اپنے حکم سے آپ ﷺکی طرف روح (قرآن) کی وحی کی ہے، اس سے پہلے آپ ﷺ ازخود یہ نہیں جانتے تھے کہ کتاب کیا چیز ہے اور ایمان کیا ہے، لیکن ہم نے اس کتاب کو نور بنادیا جس سے ہم اپنے بندوں میں سے جس کو چاہیں ہدایت دیتے ہیں اور بیشک آپ ﷺ ضرور صراط مستقیم کی طرف ہدایت دیتے ہیں۔ (سورة الشوری)-
تفسیر تبیان القرآن؛
اللہ تعالی سے ہم کلام ہونے کی تین صورتیں
علامہ ابوالحسن علی بن محمد الماوردی المتوفی ٤٥٠ ھ لکھتے ہیں :-
نقاش نے بیان کیا کہ اس آیت کے نزول کا سبب یہ ہے کہ یہو د نے ہمارے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ کہا : کہ اگر آپ سچے نبی ہیں تو آپ ﷺ، اللہ ﷻ سے کلام کیوں نہیں کرتے اور اللہ ﷻکی طرف کیوں نہیں دیکھتے جیسا کہ حضرت موسی (علیہ السلام) نے اللہ ﷻ سے کلام کیا اور اس کی طرف دیکھا، اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔-
اس آیت میں فرمایا : ” اور کسی بشر کے لیے ممکن نہیں کہ اللہ ﷻ اس سے کلام کرے ماسوا وحی کے “ یہاں وحی کی تفسیر میں دو قول ہیں :-
(١) مجاہد نے کہا : اس کے قلب میں کسی معنی کو ڈال دیا جاتا ہے، پس وہ الہام ہے۔-
(٢) زبیر بن محمد نے کہا : اس کو خواب میں کوئی چیز دکھائی جاتی ہے۔- (جیسا حضرت ابراھیم علیہ السلام کو دکھایا گیا)
اس کے بعد فرمایا : ” باپردہ کی اوٹ سے “۔ زبیر نے کہا : جیسے اللہ تعالی حضرت موسی (علیہ السلام) سے ہم کلام ہوا۔-
پھر فرمایا : ” یا اللہ ﷻ کسی فرشتے کو بھیج دے پس وہ اللہ ﷻ کے حکم سے جو اللہ ﷻ چاہے وہ وحی کرے “
زبیر نے کہا : اس سے مراد حضرت جبریل ہیں اور اس وحی کے ذریعہ انبیاء (علیہم السلام) سے خطاب ہوتا ہے، انبیاء (علیہم السلام) بالمشافہ فرشتے کو دیکھتے ہیں اور اس کا کلام سنتے ہیں اور اسی طرح حضرت جبریل (علیہ السلام) ہمارے نبی کریم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی لاتے تھے۔-
حضرت ابن عباس (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا : حضرت جبریل (علیہ السلام) ہر نبی پر نازل ہوئے لیکن ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت عیسی اور حضرت موسی اور حضرت زکریا صلوات اللہ علیہم اجمعین کے سوا ان کو کسی نے نہیں دیکھا اور ان کے علاروہ دوسرے نبیوں پر وحی الہام کی صورت میں نازل ہوتی تھی۔
(النکت والعیون ج ٥ ص ٢١٢، دارالکتب العلمیہ، بیروت)-
یہ اس آیت (الشوری : ٥١) کی مختصر تفسیر ہے، اس میں اللہ تعالی کے ہم کلام ہونے کی تین صورتیں بیان فرمائی ہیں :
(١) اللہ تعالی وحی فرمائے، پردہ کی اوٹ سے کلام فرمائے، یا فرشتہ کے ذریعہ کوئی پیغام بھیجے، اس آیت کی تفسیر میں مفسرین نے وحی پر مصل بحث کی ہے، ہرچند کہ ہم بتیان القرآن کی جلد اول میں اس پر بحث کرچکے ہیں لیکن آیت کی مناسبت سے یہاں بھی کچھ ضروری امور بیان کرنا چاہتے ہیں، اس بحث میں ہم وحی کا لغوی اور اصطلاحی معنی بیان کریں گے، ضرورت وحی اور ثبوت وحی کو بیان کریں گے اور وحی کی اقسام بیان کریں گے۔ فنقول وباللہ التوفیق وبہ الاستعاتۃ یلیق۔-
وحی کا لغوی اور اصطلاحی معنی –
(وحی کی تعریف)؛ علامہ ابن اثیر جزری لکھتے ہیں :-
حدیث میں وحی کا بکثرت ذکر ہے، لکھنے، اشارہ کرنے، کی کو بھیجے، الہام اور کلام خفی پر وحی کا اطلاق کیا جاتا ہے۔
(نہایہ ج ٤ ص ١٦٣، مطبوعہ مؤسسۃ)-
علامہ مجد الدین فیروز آبادی لکھتے ہیں :-
اشارہ، لکھنا، مکتوب، رسالۃ، الہام، کلام خفی، ہر وہ چیز جس کو تم غیر کی طرف القاء کروا سے اور آواز کو وحی کہتے ہیں۔
(قاموس ج ٤ ص ٥٧٩، مطبوعہ داراحیاء التراث العربی، بیروت)-
علامہ زبیدی لکھتے ہیں :-
وحی اس کلام کو کہتے ہیں جس کو اللہ تعالی اپنے نبیوں کی طرف نازل فرماتا ہے۔
الانباری نے کہا : اس کو وحی اس لیے کہتے ہیں کہ فرشتہ اس کلام کو لوگوں سے مخفی رکھتا ہے اور وحی نبی کے ساتھ مخصوص ہے جس کو لوگوں کی طرف بھیجا جاتا ہے، لوگ ایک دوسرے سے جو خفیہ بات کرتے ہیں وہ وحی کا اصل معنی ہے، قرآن مجید میں ہے :-
وکذلک جعلنا لکل نبی عدوا شیطین الانس والجن یوحی بعضھم الی بعض زخرف القول غرورا۔ (الانعام : 112)-
اور اس طرح ہم نے سرکش انسانوں اور جنوں کو ہر نبی کا دشمن بنادیا جو خفیہ طور پر طمع کی ہوئی جھوٹی بات (لوگوں کو) دھوکا دینے کے لیے ایک دوسرے کو پہنچاتے ہیں۔-
اور ابواسحق نے کہا ہے کہ وحی کا لغت میں معنی ہے : خفیہ طریقہ سے خبر دینا، اسی وجہ سے الہام کو وحی کہتے ہیں،
ازہری نے کہا ہے : اسی طرح سے اشارہ کرنے اور لکھنے کو بھی وحی کہتے ہیں، اشارہ کے متعلق یہ آیت ہے :-
فخرج علی قومہ من المحراب فاوحی الیھم ان سبحوا بکرۃ وعشیا (مریم :11)-
سوزکریا اپنی قوم کے سامنے (عبادت کے) حجرہ سے باہر نکلے پس ان کی طرف اشارہ کیا کہ تم صبح اور شام (اللہ ﷻ کی) تسبیح کیا کرو –
اور انبیاء (علیہم السلام) کے ساتھ جو خفیہ طریقہ سے کلام کیا گیا اس کے متعلق ارشاد فرمایا :-
وما کان لبشران یکلمہ اللہ الا وحیا او من ورای حجاب اویرسل رسولا فیوجی باذنہ مایشاء۔ (الشوری :51)
اور کوئی بشر اس لائق نہیں کہ اللہ ﷻ سے کلام کرے، مگر وحی سے یا پردے کے پیچھے سے، یا کوئی فرشتہ بھیج دے جو اس کے حکم سے وہ پہنچائے جو اللہ چاہے۔-
بشر کی طرف وحی کرنے کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالی اس بشر کو خفیہ طور سے کسی چیز کی خبردے، یا الہام کے ذریعہ، یا خواب کے ذریعہ، اس پر کوئی کتاب نازل فرمائے جیسے حضرت موسی (علیہ السلام) پر کتاب نازل کی تھی، یا جس طرح سیدنا حضرت محمد (ﷺ) پر قرآن نازل کیا اور یہ سب اعلام (خبردینا) ہیں، اگرچہ ان کے اسباب مختلف ہیں۔
(تاج العروس، ج ١٠ ص ٣٨٥، مطبوعہ المطبعۃ الخیریۃ، مصر، ١٣٠٦ ھ)-
(تعریف و اسباب پر) علامہ راغب اصفہانی لکھتے ہیں :
وحی کا اصل معنی سرعت کے ساتھ اشارہ کرنا ہے، یہ اشارہ کبھی رمز اور تعریض کے ساتھ کلام میں ہوتا ہے اور کبھی محض آواز سے ہوتا ہے، کبھی اعضاء اور جوارح سے ہوتا ہے اور کبھی لکھنے سے ہوتا ہے،
جو کلمات انبیاء اور اولیاء کی طرف القاء کیے جاتے ہیں ان کو بھی وحی کہا جاتا ہے، یہ القاء کبھی فرشتہ کے واسطے ہوتا ہے جو دکھائی دیتا ہے اور اس کا کلام سنائی دیتا ہے،
جیسے حضرت جبرئیل (علیہ السلام) کسی خاص شکل میں آتے تھے۔
اور کبھی کسی کے دکھائی دئیے بغیر کلام سنا جاتا ہے، جیسے حضرت موسی (علیہ السلام) نے اللہ تعالی کا کلام سنا
اور کبھی دل میں کوئی بات ڈال دی جاتی ہے۔ جیسے حدیث میں ہے : جبرئیل نے میرے دل میں بات ڈال دی، اس کو نفسث فی الروع کہتے ہیں اور کبھی یہ القاء اور الہام کے ذریعہ ہوتا ہے، جیسے اس آیت میں ہے :-
واوحینا الی ام موسی ان ازضعیہ۔
(القصص :7)-
اور ہم نے موسی علیہ السلام کی ماں کو الہام فرمایا کہ ان کو دودھ پلائو۔-
اور کبھی یہ القاء تسخیر ہوتا ہے، جیسے اس آیت میں ہے :-
واو علی ربک الی النحل ان اتخذی من الجبال بیوتا ومن الشجر ومما یعرشون (النحل :68)-
اور آپ کے رب نے شہد کی مکھی کے دل میں یہ ڈالا کہ پہاڑوں میں، درختوں میں اور ان چھیریوں میں گھر بنا جنہیں لوگ اونچا بناتے ہیں –
اور کبھی خواب میں القاء کیا جاتا ہے جیسا کہ حدیث میں ہے : نبوت منقطع ہوگئی ہے اور سچے خواب باقی رہ گئے ہیں۔
(المفردات میں ٥١٦۔ ٥١٥)-
علامہ ابن منظور افریقی نے بھی وحی کا معنی بیان کرتے ہوئے کم وبیش یہی لکھا ہے۔
(لسان العرب ج ١٥ ص ٣٨١۔ ٣٧٩)-
علامہ بدر الدین عینی نے وحی کا اصطلاحی معنی یہ لکھا ہے :-
اللہ ﷻ کے نبیوں میں سے کسی نبی پر جو کلام نازل کیا جاتا ہے وہ وحی ہے۔
(عمدۃ القاری ج ١ ص ١٤، مطبوعہ ادارۃ الطباعۃ المنیریہ، مصر، ١٣٤٨ ھ)-
اور علامہ تفتازانی نے الہام کا معنی یہ بیان کیا ہے :-
دل میں بطریق فیضان کسی معنی کو ڈالنا، یہ الہام ہے۔
(شرح عقائد نسفی ص ١٨، مطبوعہ نور محمد اصح المطابع، کراچی)-
ضرورت وحی اور ثبوت وحی –
انسان مدنی الطبع ہے اور مل جل کر رہتا ہے اور ہر انسان کو اپنی زندگی گزارنے کے لیے خوراک، کپڑوں اور مکان کی ضرورت ہوتی ہے اور افزائش نسل کے لیے نکاح کی ضرورت ہے۔ ان چار چیزوں کے حصول کے لیے اگر کوئی قانون اور ضابطہ نہ ہو تو ہر روز آور اپنی ضرورت کی چیزیں طاقت کے ذریعہ کمزور سے حاصل کرلے گا۔
اس لیے عدل اور انصاف کو قائم کرنے کی غرض سے کسی قانون کی ضرورت ہے او یہ قانون اگر کسی انسان نے بنایا تو وہ اس قانون میں اپنے تحفظات اور اپنے مفادات شامل کرے گا،
اس لیے یہ قانون مافوق الانسان کا بنایا ہوا ہونا چاہیے تاکہ اس میں کسی کی جانب داری کا شائبہ اور وہم و گمان نہ ہو اور ایسا قانون صرف خدا کا بنایا ہوا قانون ہوسکتا ہے۔ جس کا علم خدا کے بتلانے اور اس کے خبر دینے سے ہی ہوسکتا ہے اور اسی کا نام وحی ہے۔-
انسان عقل سے خدا کے وجود کو معلوم کرسکتا ہے، عقل سے خدا کی وحدانیت کو بھی جان سکتا ہے، قیامت کے قائم ہونے، حشرونشر اور جزاء وسزا کو بھی عقل سے معلوم کرسکتا ہے لیکن وہ عقل سے اللہ تعالی کے مفصل احکام کو معلوم نہیں کرسکتا۔
وہ عقل سے یہ جان سکتا ہے کہ اللہ ﷻ کا شکر ادا کرنا اچھی بات ہے اور ناشکری بری بات ہے لیکن وہ عقل سے یہ نہیں جان سکتا کہ اس کا شکر کس طرح ادا کیا جائے، اس کا علم صرف اللہ تعالی کے خبر دینے سے ہوگا اور اسی کا نام وحی ہے۔-
اللہ تعالی نے انسان کو دنیا میں عبث اور بےمقصد نہیں بھیجا بلکہ اس لیے بھیجا ہے کہ وہ اپنی دنیاوی ذمہ داریوں کو پورا کرنے اور حقوق اور فرائض ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالی کی عبادت کرے اور اس کی دی ہوئی نعمتوں پر اس کا شکر ادا کرے۔ برے کاموں اور بری خصلتوں سے بچے اور اچھے کام اور نیک خصلتیں اپنائے اور اللہ تعالی کی عبادات کیا کیا ہیں ؟
اور وہ کس طرح ادا کی جائیں، وہ کون سے کام ہیں جن سے بچا جائے اور وہ کون سے کام ہیں جن کو کیا جائے، اس کا علم صرف اللہ تعالی کے بتلانے اور خبر دینے سے ہی ہوسکتا ہے اور اسی کا نام وحی ہے۔-
انسان کو بنیادی طور پر کھانے پینے کی اشیاء، کپڑوں اور مکان کی حاجت ہے اور اپنی نسل بڑھانے کے لیے ازدواج کی ضرورت ہے، لیکن اگر کسی قاعدہ اور ضابطہ کے بغیر ان چیزوں کو حاصل کیا جائے تو یہ نری (خالص) حیوانیت ہے اور اگر اللہ تعالی کے بتائے ہوئے طریقہ سے ان کو حاصل کیا جائے تو یہ محض عبادت ہے اور اس قاعدہ اور ضابطہ کا علم اللہ تعالی کے بتلانے اور اس کو خبر دینے سے ہی ہوسکتا ہے اور اسی کا نام وحی ہے۔-
بعض چیزوں کو ہم حواس کے ذریعہ جان لیتے ہیں جیسے رنگ، آواز اور ذائقہ کو اور بعض چیزوں کو عقل سے جان لیتے ہیں جیسے دو اور دو کا مجموعہ چار ہے یا مصنوع کے وجود سے صانع کے وجود کو جان لیتے ہیں، لیکن کچھ ایسی چیزیں جن کو حواس سے جانا جاسکتا ہے نہ عقل سے،
مثلا نماز کا کیا طریقہ ہے، کتنے ایام کے روزے فرض ہیں، زکوۃ کی کیا مقدار ہے اور کس چیز کا کھانا حلال ہے اور کسی چیز کا کھانا حرام ہے۔ غرض عبادات اور معاملات کے کسی شعبہ کو ہم حواس خمسہ اور عقل کے ذریعہ نہیں جان سکتے، اس کو جاننے کا صرف ایک ذریعہ ہے اور وہ ہے وحی۔-
بعض اوقات حواس غلطی کرتے ہیں مثلا ریل میں بیٹھے ہوئے شخص کو درخت دوڑتے ہوئے نظر آتے ہیں اور بخار زدہ شخص کو میٹھی چیز کڑوی معلوم ہوتی ہے اور حواس کی غلطیوں پر عقل تنبیہ کرتی ہے۔ اسی طرح بعض اوقات عقل بھی غلطی کرتی ہے،
مثلا عقل یہ کہتی ہے کہ کسی ضرورت مند کو مال نہ دیا جائے، مال کو صرف اپنے مستقبل کے لیے چا کر رکھا جائے اور جس طرح حواس کی غلطیوں پر متنبہ کرنے کے لیے عقل کی ضرورت ہے، اسی طرح عقل کی غلطیوں پر متنبہ کرنے کے لیے وحی کی ضرورت ہے۔-
وحی کی تعریف میں ہم نے یہ ذکر کیا ہے کہ اللہ تعالی، نبی علیہ السلام کو جو چیز بتلاتا ہے وہ وحی ہے اور نبوت کا ثبوت معجزات سے ہوتا ہے،
اب یہ بات بحث طلب ہے کہ وحی کے ثبوت کے لیے نبوت کیوں ضروری ہے ؟;
اس کا جواب یہ ہے کہ اگر نبوت کے بغیر وحی کا ثبوت ممکن ہوتا تو اس دنیا کا نظام فاسد ہوجاتا، مثلا ایک شخص کسی کو قتل کردیتا اور کہتا : مجھ پر وحی اتری تھی کہ اس شخص کو قتل کردو۔ ایک شخص بہ زور کسی کا مال اپنے قبضہ میں کرلیتا اور کہتا کہ مجھ پر وحی نازل ہوئی تھی کہ اس کے مال پر قبضہ کرلو، اس لیے ہر کس و ناکس کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ وحی کا دعوی کرے۔ وحی کا دعوی صرف وہی شخص کرسکتا ہے جس کو اللہ تعالی نے منصب نبوت پر فائز کیا ہو۔ لہذا وحی کا دعوی صرف نبی علیہ السلام ہی کرسکتا ہے اور نبوت کا دعوی تب ثابت ہوگا جب وہ اس کے ثبوت میں معجزات پیش کرے گا۔-
ایک سوال یہ ہوا کہ جب نبی علیہ السلام کے پاس فرشتہ وحی لے کر آتا ہے تو نبی علیہ السلام کو کیسے یقین ہوتا ہے کہ یہ فرشتہ ہے اور یہ اللہ ﷻ کا کلام لے کر آیا ہے،
امام رازی نے اس کا یہ جواب دیا ہے کہ فرشتہ نبی کے سامنے اپنے فرشتہ ہونے اور حامل وحی الہی ہونے پر معجزہ پیش کرتا ہے
اور امام غزالی کی بعض عبارات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ
اللہ تعالی نبی علیہ السلام کو ایسی صفت عطا فرماتا ہے جس سے وہ جن، فرشتہ اور شیطان کو الگ الگ پہچانتا ہے جیسے ہم انسانوں، جانوروں اور نباتات اور جمادات کو الگ الگ پہچانتے ہیں کیونکہ ہماری رسائی صرف عالم شہادت تک ہے اور نبی علیہ السلام کی پہنچ عالم شہادت میں بھی ہے اور عالم غیب میں بھی ہے۔-
وحی کی اقسام–
بنیادی طور پر وحی کی دو قسمیں ہیں : وحی متلو، اور وحی غیر متلو،
اگر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر الفاظ اور معانی کا نزول ہو تو یہ وحی متلو ہے اور یہی قرآن مجید ہے
اور اگر آپ پر صرف معانی نازل کیے جائیں اور آپ ان معانی کو اپنے الفاظ سے تعبیر کریں تو یہی وحی غیر متلو ہے اور اس کو حدیث نبوی کہتے ہیں۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نزول وحی کی متعدد صورتیں ہیں جن کا احادیث صحیحہ میں بیان کیا گیا ہے۔-
علامہ بدرالدین عینی نے نزول وحی کی حسب ذیل اقسام بیان کی ہیں
(١) کلام قدیم کو سننا جیسے حضرت موسی (علیہ السلام) نے اللہ تعالی کا کلام سنا، جس کا ذکر قرآن مجید میں ہے اور ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالی کا کلام سنا، جس کا ذکر آثار صحیحہ میں ہے۔-
(٢) فرشتہ کی رسالت کے واسطہ سے وحی کا موصول ہونا۔-
(٣) وحی کو دل میں القاء کیا جائے، جیسا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے : روح القدس نے میرے دل میں القاء کیا۔ ایک قول یہ ہے کہ حضرت دائود (علیہ السلام) کی طرف اسی طرح وحی کی جاتی تھی اور انبیاء (علیہم السلام) کے غیر کے لیے جو وحی کا لفظ بولا جاتا ہے وہ الہام یا تسخیر کے معنی میں ہوتا ہے۔-
علامہ سہیلی نے الروض الانف (ج ١ ص ١٥٤۔ ١٥٣) میں حضوراکرم ﷺ پر نزول وحی کی یہ سات صورتیں بیان کی ہیں :-
(١) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نیند میں کوئی واقعہ دکھایا جائے۔
(٢) گھنٹی کی آواز کی شکل میں آپ ﷺ کے پاس وحی آئے۔
(٣) نبی کریم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قلب میں کوئی معنی القاء کیا جائے۔
(٤) نبی کریم (ﷺ) کے پاس فرشتہ انسانی شکل میں آئے اور حضرت جبرئیل آپ کے پاس حضرت وحیہ کلبی (رضی اللہ عنہ) کی شکل میں آئیں، حضرت وحیہ کی شکل میں آنے کی وجہ یہ تھی کہ وہ حسین ترین شخص تھے، حتی کہ وہ اپنے چہرے پر نقاب ڈال کر چلا کرتے تھے، مبادا عورتیں ان کو دیکھ کر فتنہ میں مبتلا ہوں۔
(٥) حضرت جبرائیل آپ ﷺ کے پاس اپنی اصلی صورت میں آئیں، اس صورت میں ان کے چھ سو پر تھے جن سے موتی اور یاقوت جھڑتے تھے۔-
(٦) اللہ تعالی آپ سے یا تو بیداری میں پردہ کی اوٹ سے ہم کلام ہو جیسا کہ معراج کی شب ہوا، یا نیند میں ہم کلام ہو، جیسے جامع ترمذی میں ہے : اللہ تعالی میرے پاس حسین صورت میں آیا اور فرمایا : ملاء اعلی کس چیز میں بحث کررہے ہیں۔
(٧) اسرافیل (علیہ السلام) کی وحی، کیونکہ شعبی سے روایت ہے کہ نبی کریم(ﷺ) کو حضرت اسرافیل کے سپرد کردیا گیا تھا اور وہ تین سال تک نبی کریم(ﷺ) کو دیکھتے رہے اور وہ آپ کے پاس وحی لاتے تھے،
پھر آپ ﷺ کو (وحی پہنچانا) حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کے سپرد کردیا گیا
اور مسند احمد میں سند صحیح کے ساتھ شعبی سے روایت ہے کہ
نبی کریم (ﷺ) کو چالیس سال کی عمر میں مبعوث کیا گیا اور تین سال تک آپ ﷺ کی نبوت کے ساتھ حضرت اسرافیل (علیہ السلام) رہے اور وہ آپ ﷺ کو بعض کلمات اور بعض چیزوں کی خبر دیتے تھے، اس وقت تک آپ ﷺ پر قرآن مجید نازل نہیں ہوا تھا اور جب تین سال گزر گئے تو پھر حضرت جبرائیل (علیہ السلام) آپ ﷺ کے پاس رہے، پھر (کم و بیش) بیس سال آپ ﷺ پر آپ کی زبان میں قرآن مجید نازل ہوا،
دسں سال مکہ میں اور دس سال مدینہ میں اور تریسٹھ سال کی عمر میں آپ ﷺ کا وصال ہوا۔
البتہ واقدی وغیرہ نے اس کا انکار کیا ہے اور کہا ہے کہ حضرت جبرئیل (علیہ السلام) کے علاوہ آپ کو اور کسی فرشتہ کے سپرد نہیں کیا گیا۔ (عمدۃ القاری ج ١ ص74)
(تبیان القرآن “مختصر”، رب کریم کا دیدار حضور اکرم ﷺ نے سر کی آنکھ سے کیا یا دل کی آنکھ سے، اس پر خوبصورت بحث کےلئے تبیان القرآن پڑھئے)
یعنی وحی متلو (قرآن) کو سمجھنے اور عمل کرنے کےلئے وحی غیر متلو (احادیث مبارکہ و سنت مبارکہ) کو سمجھنا لازم ہے۔
جب بھی قراٰن کریم کی آیت یا سورة مبارکہ نبیِّ کریم ﷺ پر نازل ہوتی تو آپ ﷺ اسے لکھوا لیا کرتے تھے۔ قراٰن کریم لکھنے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو “ کاتبینِ وحی “ کہتے ہیں۔ کاتب کا مطلب لکھنے والا ہوتا ہے ، کاتب کی جمع کاتبین ہے۔
*کاتب وحی یا کاتبین وحی کا اطلاق ان صحابہ کرام رضی اللہ عنھم پر ہوتا ہے جنھوں نے حضوراکرم ﷺ کی حیات طیبہ میں وحی لکھا اور اسے مدون (مرتب کتاب) کیا۔
کاتبین وحی کی تعداد کے حوالے سے کتب تاریخ میں مختلف عدد پایا جاتا ہے۔
بعض مورخین نے ان کی تعداد 16 بتائی ہے، (کتاب التراتیب الإداریہ مراکش)
جبکہ بعض نے 42 افراد کا بھی ذکر کیا ہے۔(التاريخ الإسلامى ـ محمود شاكر، ص 380)
ڈاکٹر محمد مصطفی اعظمی کی کتاب کاتبان وحی میں اڑتالیس (48) صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا ذکر ہے۔
تعداد 40 بھی اور 60 تک لکھاہے۔
2; قرآن پاک اور سنت رسول اللہ ﷺ کا مقام؛
١)… وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ اٰمَنُوۡا بِمَا نُزِّلَ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ ہُوَ الۡحَقُّ مِنۡ رَّبِّہِمۡ ۙ کَفَّرَ عَنۡہُمۡ سَیِّاٰتِہِمۡ وَ اَصۡلَحَ بَالَہُمۡ﴿۲﴾
اللہ تعالی کا ارشاد ہے : اور جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام کیے اور اس کتاب پر ایمان لائے جو محمد (ﷺ) پر نازل کی گئی ہے اور وہی ان کے رب کی طرف سے سراسر حق ہے، اللہ ﷻ نے ان کے گناہوں کو مٹا دیا اور ان کے حال کی اصلاح کردی (محمد)-
٢)… وَٱلنَّجۡمِ إِذَا هَوَىٰ ۙ﴿۱﴾ مَا ضَلَّ صَاحِبُکُمۡ وَ مَا غَوٰی ۚ﴿۲﴾وَمَا یَنطِقُ عَنِ ٱلۡهَوَىٰۤ (٣) إِنۡ هُوَ إِلَّا وَحۡیࣱ یُوحَىٰ(٤).
اللہ تعالی کا ارشاد ہے : روشن ستارے کی قسم جب وہ زمین کی طرف اترا۔ تمہارے آقا ( محمد ﷺ) نے نہ (کبھی سیدھا) راستہ گم کیا اور نہ کبھی راہ ( راست) کے بغیر چلے۔ وہ اپنی خواہش سے کلام نہیں کرتے۔ ان کا کہا ہوا وہی ہے جس کی ان کی طرف وحی کی جاتی ہے۔ ( النجم : ٤۔ ١)-
تفسیر مدارک التنزیل میں ہے؛
آیت ٣: وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰى(وہ اپنی خواہش سے نہیں کلام کرتے)
آیت ٤: اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْيٌ يُّوْحٰى (ان کا ارشاد نری وحی ہے جو ان پر بھیجی گئی ہے) جو تمہیں وہ قرآن میں سے دیں وہ ایسی بات نہیں جو اپنی رائے اور خواہش سے صادر ہونے والی ہو۔ وہ اللہ تعالیٰ کی وحی ہے جو ان کی طرف کی جاتی ہے۔
ایک دلیل :
اس آیت سے ان لوگوں نے حجت بنائی ہے جو انبیاء (علیہم السلام) کے متعلق اجتہاد کو جائز نہیں رکھتے، جب اللہ تعالیٰ نے ان کو اجتہاد میسر فرمایا اور اس پر ان کو باقی رکھا تو وہ وحی کی طرح ہے، اور اپنی خواہش کی گفتگو نہیں۔
(مدارک التنزیل)
الدر المنثور — جلال الدين السيوطي (٩١١ هـ)
قَوْلُهُ تَعالى: ﴿وما يَنْطِقُ عَنِ الهَوى﴾ الآيَةَ.
عَنْ قَتادَةَ في قَوْلِهِ: ﴿وما يَنْطِقُ عَنِ الهَوى﴾ قالَ: ما يَنْطِقُ عَنْ هَواهُ، ﴿إنْ هو إلا وحْيٌ يُوحى﴾ قالَ: يُوحِي اللَّهُ إلى جِبْرِيلَ، ويُوحِي جِبْرِيلُ إلى مُحَمَّدٍ ﷺ .
عبد بن حمید (رحمة اللہ علیہ) وابن جریر (رحمة اللہ علیہ) وابن المنذر (رحمة اللہ علیہ) نے قتادہ (رضی اللہ عنہ) سے روایت کیا کہ
(آیت ) ﴿وما يَنْطِقُ عَنِ الهَوى﴾
یعنی وہ اپنی خواہش سے نہیں بولتے
(آیت )﴿إنْ هو إلا وحْيٌ يُوحى﴾ (ان کا ارشاد خالص وحی ہے جو ان کو بھیجی جاتی ہے) یعنی اللہ تعالیٰ جبرائیل (علیہ السلام) کی طرف وحی فرماتے ہیں اور جبرائیل (علیہ السلام)، (سیدنا و نبینا) محمد ﷺ تک وحی پہنچاتا ہے۔
آپ (علیہ السلام) کے ارشادات وحی غیر متلو ہیں :
1۔ عَنْ أبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قالَ: ««ما أخْبَرْتُكم أنَّهُ مِن عِنْدِ اللَّهِ فَهو الَّذِي لا شَكَّ فِيهِ»» .
البزار نے حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) سے روایت کیا کہ نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا جو کچھ میں تم کو خبر دیتا ہوں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے یہ ایسی خبر ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں۔
2۔ عَنْ أبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ أنَّهُ قالَ: ««لا أقُولُ إلّا حَقًّا» قالَ بَعْضُ أصْحابِهِ: فَإنَّكَ تُداعِبُنا يا رَسُولَ اللَّهِ قالَ: «إنِّي لا أقُولُ إلّا حَقًّا»» .
احمد نے حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) سے روایت کیا کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا میں حق کے سوا کچھ نہیں کہتا۔
آپ ﷺ کے اصحاب (رضی اللہ عنھم) میں بعض نے کہا بلاشبہ آپ یا رسول اللہ ﷺ ہم سے ہنسی مذاق بھی فرماتے ہیں،۔
تو آپ ﷺ نے فرمایا بلاشبہ میں حق کے سوا کچھ نہیں کہتا۔
3۔ عَنْ حَسّانَ قالَ: كانَ جِبْرِيلُ يَنْزِلُ بِالسُّنَّةِ كَما يَنْزِلُ بِالقُرْآنِ.
الدارمی نے یحییٰ بن ابی کثیر (رحمة اللہ علیہ) سے روایت کیا کہ جبرائیل (علیہ السلام) سنت لے کر اس طرح نازل ہوتے ہیں جیسے قرآن لے کر نازل ہوتے تھے۔
(درمنثور “مختصر”)
3; قرآن کریم کا قریش اور تمام امت مسلمہ کےلئے باعث شرف عظیم ہونا;
فَاسۡتَمۡسِکۡ بِالَّذِیۡۤ اُوۡحِیَ اِلَیۡکَ ۚ اِنَّکَ عَلٰی صِرَاطٍ مُّسۡتَقِیۡمٍ ﴿۴۳﴾ وَ اِنَّہٗ لَذِکۡرٌ لَّکَ وَ لِقَوۡمِکَ ۚ وَ سَوۡفَ تُسۡئَلُوۡنَ ﴿۴۴﴾
اللہ ﷻ کا ارشاد ہے؛ سو آپ اس چیز کو مضبوطی سے تھامے رہیں جس کی آپ کی طرف وحی کی گئی ہے، بیشک آپ صراط مستقیم پر قائم ہیں اور بیشک یہ قرآن آپ کے اور آپ کی قوم کے لیے ضرور شرف عظیم ہے اور عنقریب تم سب لوگوں سے سوال کیا جائے گا۔ (سورة الزخرف)
تفسیر مدارک التنزیل:
قرآن صراط مستقیم ہے آپ اس پر عمل پیرا رہیں :
آیت ٤٣: فَاسْتَمْسِکْ بِالَّذِیْ اُوْحِیَ اِلَیْکَ (آپ اس قرآن پر قائم رہیں جو آپ پر وحی کے ذریعہ سے نازل کیا گیا ہے) استمسک یہ تمسک کے معنی میں ہے اور وحی سے قرآن مراد ہے۔ مضبوطی سے تھامنا اس پر عمل پیرا ہونا ہے۔ اِنَّکَ عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ (بیشک آپ سیدھے راستے پر ہیں) صراط مستقیم سے مراد وہ دین جس میں کوئی ٹیڑھ نہیں ہے۔
آیت ٤٤: وَاِنَّہٗٗ (اور وہ قرآن) وہ جو آپ کی طرف وحی سے بھیجا گیا۔ لَذِکْرٌ لَّکَ (وہ آپ کے لئے بڑے شرف کی چیز ہے) وَلِقَوْمِکَ (اور آپ کی قوم کے لئے) اور آپ کی امت کے لئے۔ وَسَوْفَ تُسْئَلُوْنَ (اور عنقریب تم سب سے پوچھا جائے گا) قیامت کے دن اس قرآن کے متعلق کہ کیا تم نے اس کا حق ادا کیا اور کس قدر اس کی عظمت مانی اور اس عظیم نعمت پر کتنا شکریہ ادا کیا۔
(مدارک التنزیل)
۔الدر المنثور — جلال الدين السيوطي (٩١١ هـ)
قَوْلُهُ تَعالى: ﴿وإنَّهُ لَذِكْرٌ لَكَ ولِقَوْمِكَ﴾
1۔ أخْرَجَ وابْنُ مَرْدُويَهْ، والبَيْهَقِيُّ في ”شُعَبِ الإيمانِ“ مِن طُرُقٍ عَنِ ابْنِ عَبّاسٍ: ﴿وإنَّهُ لَذِكْرٌ لَكَ ولِقَوْمِكَ﴾ قالَ: القُرْآنُ شَرَفٌ لَكَ ولِقَوْمِكَ.
ابن جریر (رحمة اللہ علیہ) وابن ابی حاتم (رحمة اللہ علیہ) وابن مردویہ (رحمة اللہ علیہ) حضرت ابن عباس (رضی اللہ عنہ) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” ﴿وإنَّهُ لَذِكْرٌ لَكَ ولِقَوْمِكَ﴾ “ (اور بلاشبہ یہ قرآن آپ کیلئے اور آپ کی قوم یعنی قریش کے لئے عظیم الشان شرف ہے یعنی یہ قرآن عزت (اور عروج کا باعث) ہے آپ کے لئے اور آپ کی قوم کے لئے۔
2۔ عَنْ قَتادَةَ: ﴿وإنَّهُ لَذِكْرٌ لَكَ﴾ يَعْنِي القُرْآنَ، ﴿ولِقَوْمِكَ﴾ يَعْنِي مَنِ اتَّبَعَكَ مِن أُمَّتِكَ.
عبد بن حمید (رحمة اللہ علیہ) وابن جریر (رحمة اللہ علیہ) نے قتادہ (رضی اللہ عنہ) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” ﴿وإنَّهُ لَذِكْرٌ لَكَ﴾ “ یعنی یہ قرآن (آپ کے لئے) اور آپ کی قوم کے لئے اور جو آپ کی تابعداری کرے گا آپ کی امت میں سے (سب کیلئے عزت کا، عروج کا باعث ہے )۔
(درمنثور “مختصر”)
اور تفسیر تبیان القرآن میں ہے؛
حضرت ابن عباس (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیٹھا ہوا تھا، آپ نے فرمایا : سنو ! اللہ تعالی کو علم ہے کہ مجھے اپنی قوم سے کتنی محبت ہے، اللہ تعالی نے مجھے اپنی قوم میں یہ شرف عطا کیا کہ فرمایا :
” وَ اِنَّہٗ لَذِکۡرٌ لَّکَ وَ لِقَوۡمِکَ ۚ وَ سَوۡفَ تُسۡئَلُوۡنَ ﴿۴۴﴾ “ (الزخرف :44) اس قرآن میں آپ کا ذکر ہے اور آپ کی قوم کا ذکر ہے اور عنقریب تم سے سوال کیا جائے گا،
پس اللہ ﷻ کی کتاب میں میری قوم کا ذکر اور اس کا شرف ہے، اور فرمایا :
” وانذر عشیر تک من المومنین “ (الشعراء : 215) جو ایمان والے آپ کی پیروی کریں ان کے ساتھ تواضع سے پیش آئیں یعنی میری قوم کے ساتھ،
پس تمام تعریفیں اللہ ﷻ کے لیے ہیں جس نے میری قوم سے صدیق بنایا اور میری قوم سے شہید بنایا،
اللہ تعالی نے بندوں کے دلوں کے ظاہر اور باطن کو پلٹ دیا، تو عرب میں سے بہتر قریش تھے اور یہی وہ مبارک درخت ہے جس کے متعلق اللہ نے اپنی کتاب میں فرمایا :
” مثلا ﴿مَثَلا كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ﴾ يَعْنِي بِها قُرَيْشًا، ﴿أصْلُها ثابِتٌ﴾ يَقُولُ: أصْلُها كَرَمٌ، ﴿وفَرْعُها في السَّماءِ﴾ [إبراهيم: ٢٤]
یعنی پاکیزہ کلمہ کی مثال پاکیزہ درخت ہے،
اس سے مراد قریش ہے، اس کی اصل ثابت ہے اور اس کی شاخیں آسمان میں ہیں،
اللہ تعالی نے ان کو دین اسلام کے ساتھ مشرف کیا، ان کو ہدایت دی اور ان کو حضرت ابراہیم (علیھم السلام) کا خاندان بنایا، پھر ان کے متعلق کتاب اللہ میں ایک سورت نازل کی : ” لایلف قریش “ (قریش :1-4)
حضرت عدی بن حاتم کہتے ہیں کہ جب بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے قریش کا ذکر نیکی کے ساتھ جاتا تو آپ ﷺ خوش ہوجاتے تھے اور آپ ﷺ اس آیت کی بہت زیادہ تلاوت کرتے تھے :
” وانہ لذکر لک ولقومک وسوف تسئلون “ (الزخرف :44) –
(الدارالمنثور ج ٧ ص ٣٣٠۔ ٣٢٩، حافظ سیوطی رحمة اللہ علیہ)-
اس آیت کے آخر میں فرمایا ہے : ” اور عنقریب تم سب لوگوں سے سوال کیا جائے گا “ اس کا معنی یہ ہے کہ قرآن مجید آپ کے اور آپ کی امت کے شرف اور عظمت کا ذریعہ ہے تو تم سب سے یہ سوال کیا جائے گا کہ تم نے اس کا حق ادا کیا اور تم نے اس کا شکر ادا کرنے کے لیے کیا کوششیں کیں یا تم اس قرآن کے ذریعہ صرف دنیا کماتے رہے اور مطالب نفسانیہ کی تحصیل کرتے رہے۔-
عارفین کا علم کشف اور مشاہدہ پر مبنی ہوتا ہے اور علماء ظاہر کا علم ان کی ذہنی قوت پر مبنی ہوتا ہے، عارفین کی ابتداء تقوی اور نیک اعمال سے ہوتی ہے اور علماء ظاہر کی ابتداء کتابوں کے مطالعہ سے ہوتی ہے۔
(تبیان القرآن)
وحی کے مفہوم اور مقام کو شیخ الاسلام اعلیٰ حضرت امام احمد رضا رحمة اللہ علیہ نے اس طرح بیان کیا؛
وہ دین جس کی ہر بات وحی خدا ﷻ،
چشمہ علم و حکمت پہ لاکھوں سلام۔
ہزارہا بار جان سے ہم قربان اس انداز گفتگو پر جس کو رحمت عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا۔لاکھوں لاکھ درودوسلام اس طرز گفتگو پر جس کو اللہ ﷻ نے اپنے حبیب پاک ﷺ کے لئے پسند فرمایا۔
حضوراکرم ﷺ، رحمة اللعالمین ﷺ، خاتم النبین ﷺ، سیدنا و نبینا محمد ﷺ کا سب سے عظیم معجزہ قرآن پاک ہے۔ حضوراکرم ﷺ کا فرمان ہے؛
١)… عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا مِنْ الْأَنْبِيَائِ نَبِيٌّ إِلَّا أُعْطِيَ مَا مِثْلهُ آمَنَ عَلَيْهِ الْبَشَرُ وَإِنَّمَا کَانَ الَّذِي أُوتِيتُ وَحْيًا أَوْحَاهُ اللَّهُ إِلَيَّ فَأَرْجُو أَنْ أَکُونَ أَکْثَرَهُمْ تَابِعًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ
حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ہر نبی کو ایسے ایسے معجزات عطا کئے گئے کہ (انہیں دیکھ کر لوگ) ان پر ایمان لائے (بعد کے زمانے میں ان کا کوئی اثر نہیں رہا)
اور مجھے جو معجزہ دیا گیا ہے وہ وحی (قرآن) ہے جو اللہ تعالیٰ نے مجھ پر نازل کی ہے۔ (اس کا اثر قیامت تک باقی رہے گا) اس لیے مجھے امید ہے کہ قیامت کے دن میرے تابع فرمان لوگ دوسرے پیغمبروں کے تابع فرمانوں سے زیادہ ہوں گے۔
(صحیح البخاری 4981, کتاب: فضائل قرآن)
٢)…حضرت عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ (رضی اللہ عنہ) نے بیان کیا کہ رسول اللہ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے فرمایا؛
إِنَّ أَفْضَلَکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَهُ۔
کہ تم سب میں بہتر وہ ہے جو قرآن مجید پڑھے اور پڑھائے۔
(صحیح البخاری 5028، کتاب: فضائل قرآن)
٣)…حضرت عمر بن حطاب (رضی اللہ عنہ) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا؛
إن الله يرفع بهذا الكتاب أقواما ويضع به آخرين۔ رواه مسلم
یقیناً اللہ تعالیٰ اس کتاب یعنی کلام اللہ کے ذریعہ کتنے لوگوں کو بلند کرتا ہے اور اس کے ذریعہ کتنے لوگوں کو پست کرتا ہے۔
تشریح:
مطلب یہ ہے کہ جو شخص قرآن پڑھتا ہے اور اس پر عمل کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اس کا درجہ بلند کرتا ہے بایں طور کہ دنیا میں تو اسے عزت و وقار کی زندگی عطا فرماتا ہے اور عقبی میں ان لوگوں کے ساتھ رکھتا ہے جن پر اس نے اپنا انعام کیا ہے اس طرح جو شخص نہ قرآن پڑھتا ہے اور نہ اس پر عمل کرتا ہے اس کا درجہ پست کردیتا ہے۔
(مشکوٰۃ شریف 2125، کتاب: فضائل قرآن کا بیان)
🌷قرآن پاک کی سورة مبارکہ اور مضامین ۔۔ایک نظر میں
1۔ قرآن پاک کی ابتدا سورة الفاتحہ سے اور اختتام سورة الناس پر ہوتا ہے (یعنی ابتداء اللہ ﷻ کی حمد سے اور اختتام دعاء پر ہے)
2۔ قرآن کریم میں کل 114 سورة مبارکہ ہیں۔
3۔ قرآن کریم میں مکی سورتیں 86 اور مدنی 28 ہیں۔
(جو سورت ہجرت سے پہلے نازل ہوئی اسے “ مکی سورت “ کہتے ہیں اور جو ہجرت کے بعد نازل ہوئی اسے “ مدنی سورت “ کہتے ہیں)
4۔ قرآن کریم کی نزول کے اعتبار سے پہلی سورة مبارکہ “سورة العلق” ہے اور نزول کے اعتبار سے آخری سورة مبارکہ “سورة النصر” ہے۔
5۔ قرآن مجید کے حسب ذیل مضامین ہیں:-
(١) توحید : نزول قرآن کے وقت دنیا میں بالعموم بت پرستی کا دور دورہ تھا ‘ اور کفار عرب کے دعوی دار ہونے کے باوجود اپنے زعم میں اللہ ﷻ کا تقرب حاصل کرنے کے لیے بتوں کی عبادت کرتے تھے ‘ اس لیے قرآن کا مطالبہ یہ ہے کہ صرف خالق اور رب ہونے کی حیثیت سے اللہ تعالی کو واحد ماننا کافی نہیں ہے بلکہ استحقاق عبادت کے اعتبار سے بھی اس کو واحد ماننا ضروری ہے ‘ یعنی اس کے سوا اور کوئی عبادت کا مستحق نہیں ہے۔-
(٢) نبوت : عام انسان کی عقل اللہ تعالی کے وجود اور اس کی وحدانیت کو جاننے کے لیے ناکافی ہے اور اللہ تعالی کے احکام حاصل کرنے سے عاجز ہے ‘ اس لیے اللہ تعالی نے انسانوں کی رہ نمائی کے لیے انبیاء (علیہ السلام) کو مبعوث فرمایا اور نبی علیہ السلام چونکہ اللہ ﷻ کا نمائندہ ہوتا ہے ‘ اس کو ماننا اللہ ﷻ کو ماننا اور اس کا انکار کرنا اللہ ﷻ کا انکار کرنا ہوتا ہے ‘ اس لیے قرآن نے نبی علیہ السلام کے ماننے کو ضروری قرار دیا ہے۔-
(٣) عبادت : بدن ‘ مال اور ان دونوں کو اللہ تعالی کے احکام کے مطابق صرف کرنا عبادت ہے ‘ قرآن نے یہ بتایا ہے کہ انسان خود اور اس کا مال اس کی ملکیت نہیں ہے ‘ اللہ ﷻ کی ملکیت ہے ‘ اب وہ کسی طرح اپنی جان اور مال کو اللہ تعالی کے حکم کے مطابق صرف کرے، یہ قرآن نے تفصیل سے بتایا ہے۔-
(٤) وعدہ کیا ہے اور بندہ کی نافرمانی کرنے اللہ تعالی نے اس کو عذاب سے ڈرایا ہے ‘ اس وعد اور وعید کو اللہ تعالی نے تفصیل سے قرآن مجید میں بیان فرمایا ہے۔-
(٥) قصص اور امثال : گزشتہ امتوں کے صالحین کے واقعات اور نافرمانوں پر عذاب کی عبرت انگیز مثالیں۔-
(٦) معاد : مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیے جانے اور مومنین کے لیے جزاء اور کفار کے لیے سزا کا بیان۔-
(٧) دعا : تمام عبادات کا خلاصہ اور حاصل اللہ تعالی سے دعا کرنا ہے کہ اللہ تعالی دنیا میں انسان کو ہدایت عطا فرمائے اور اس پر تاحیات برقرار رکھے اور آخرت میں عذاب سے نجات ‘ جنت نعیم ‘ اپنی خوشنودی ‘ رضا اور دیدار عطا فرمائے، سورة فاتحہ میں ان تمام مضامین کو اجمال ‘ اختصار اور اشارات سے بیان کردیا گیا ہے۔-
(تبیان القرآن)
اللہ ﷻ کے احکامات پر عمل کرنے کےلئے حضور اکرم ﷺ کی حیات طیبہ ہمارے لئے مشعل راہ ہے، آپ ﷺ کے احکامات، آپ ﷺ کی سنت مبارکہ قرآن پاک کو سمجھنے اور اس کی تعلیمات کے مطابق کامیاب زندگی گزارنے کےلئے لازم ہے۔ رب کریم کا ارشاد ہے؛
وَاَنۡزَلۡنَاۤ اِلَيۡكَ الذِّكۡرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَيۡهِمۡ۔(٤٤)
اللہ تعالی کا ارشاد ہے؛ : اور ہم (اللہ ﷻ) نے آپ ﷺ کی طرف قرآن نازل کیا تاکہ آپ ﷺ لوگوں کو وضاحت کے ساتھ بتادیں جو ان کی طرف نازل کیا گیا ہے۔ -(سورة النحل)
مفسرین اکرام فرماتے ہیں کہ اس آیت طیبہ سے واضح ہوا کہ ہمارے لیے نبی اکرم (ﷺ) کی سنت کے اتباع کے بغیر کوئی چارہ کار نہیں۔
فقہ کا لغوی معنی ہے ’’کسی شے کا جاننا اور اُس کی معرفت و فہم حاصل کرنا، اور اسلامی فقہ کے چار بنیادی ذرائع ہیں جہاں سے کوئی فقیہ یا مجتہد مسائل شرعیہ کو اخذ کرتا ہے. ان کی ترتیب درج ذیل ہے:
1). قرآن حکیم
2). سنت مبارکہ
3). اجماع
4). قیاس
قرآنِ حکیم کے بعد فقہ اسلامی کا دوسرا بنیادی ماخذ سنت مبارکہ ہے۔
اجماع کا لغوی معنی ہے : پکا ارادہ اور اتفاق۔
( أبو حبيب، القاموس الفقهی : 66)
اصطلاحی طور پر اس کا معنی ہے : کسی زمانے میں اُمت محمدیہ کے مجتہدین کی رائے کا کسی شرعی مسئلے پر (قرآن و سنت کی روشنی می) متفق ہو جانا۔
( ابن عابدين شامی، رد المختار علی الدر المختار، 6 : 762)
قیاس کا لغوی معنی ہے : اندازہ کرنا، ، ، کسی شے کو اس کی مثل کی طرف لوٹانا۔ جب کسی ایک شے کے اچھے اور برے دونوں پہلو سامنے رکھ کر ان کا موازنہ کتاب و سنت میں موجود کسی امر شرعی کے ساتھ کیا جائے اور پھر کسی نتیجہ پر پہنچا جائے تو یہ عمل قیاس کہلاتا ہے۔
یعنی اجماع اور قیاس بھی شرعی تعلیمات کی روشنی میں کیا جاتا ہے۔
اور حضور اکرم ﷺ کی شان دیکھنا ہو، آپ ﷺ کے فرمان کا مقام جاننا ہو تو قرآن پاک کا مطالعہ کرو، اللہ ﷻ نے اپنے حبیب محمد مصطفٰی ﷺ کی شان رفعت خود بنائی فرمایا(ورفعنا لک ذکرک)، آپ ﷺ کی بارگاہ کے آداب خود بیان فرما دئے(سورة الحجرات ابتدائی آیات)۔
اللہ ﷻ نے آپ ﷺ کے حکم کا اپنا حکم قرار دیا؛
مَنْ يُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللہ۔
اللہ تعالی کا ارشاد ہے؛’’جس نے رسول ( صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کا حکم مانا بے شک اس نے اللہ ﷻ (ہی) کا حکم مانا۔‘‘
(سورة النساء،)
🌹فرمان رسول اللہ ﷺ کا مقام🌹؛
فرمان رب العالمین ہے؛
وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَن يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُّبِينًاo
(الاحزاب 33۔ 36)
اللہ تعالی کا ارشاد ہے؛’’اور نہ کسی مومن مرد کو (یہ) حق حاصل ہے اور نہ کسی مومن عورت کو کہ جب اللہ ﷻ اور اس کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی کام کا فیصلہ (یا حکم) فرما دیں تو ان کے لئے اپنے (اس) کام میں (کرنے یا نہ کرنے کا) کوئی اختیار ہو، اور جو شخص اللہ ﷻ اور اس کے رسول (ﷺ) کی نافرمانی کرتا ہے تو وہ یقیناً کھلی گمراہی میں بھٹک گیاo‘‘۔ (الاحزاب)
1. عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ كُنْتُ أَكْتُبُ كُلَّ شَيْءٍ أَسْمَعُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُرِيدُ حِفْظَهُ، فَنَهَتْنِي قُرَيْشٌ، وَقَالُوا أَتَكْتُبُ كُلَّ شَيْءٍ تَسْمَعُهُ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَشَرٌ يَتَكَلَّمُ فِي الْغَضَبِ وَالرِّضَا ؟، فَأَمْسَكْتُ عَنِ الْكِتَابِ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَوْمَأَ بِأُصْبُعِهِ إِلَى فِيهِ، فَقَالَ اكْتُبْ، فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، مَا يَخْرُجُ مِنْهُ إِلَّا حَقٌّ.
سیدنا عبداللہ بن عمرو (رضی اللہ عنہ) کہتے ہیں میں ہر اس حدیث کو جو رسول اللہ ﷺ سے سنتا یاد رکھنے کے لیے لکھ لیتا، تو قریش کے لوگوں نے مجھے لکھنے سے منع کردیا، اور کہا کیا تم رسول اللہ ﷺ سے ہر سنی ہوئی بات کو لکھ لیتے ہو ؟
حالانکہ رسول اللہ ﷺ بشر ہیں، غصے اور خوشی دونوں حالتوں میں باتیں کرتے ہیں، تو میں نے لکھنا چھوڑ دیا، پھر رسول اللہ ﷺ سے اس کا ذکر کیا،
آپ ﷺ نے اپنی انگلی سے اپنے منہ کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا لکھا کرو، قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس سے حق بات کے سوا کچھ نہیں نکلتا ۔
(سنن ابوداؤد 3646، کتاب۔ علم کابیان)
2. عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لَا أُلْفِيَنَّ أَحَدَكُمْ مُتَّكِئًا عَلَى أَرِيكَتِهِ يَأْتِيهِ الْأَمْرُ مِنْ أَمْرِي مِمَّا أَمَرْتُ بِهِ أَوْ نَهَيْتُ عَنْهُ، فَيَقُولُ لَا نَدْرِي، مَا وَجَدْنَا فِي كِتَابِ اللَّهِ اتَّبَعْنَاهُ.
سیدنا ابورافع (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میں تم میں سے کسی کو اپنے تخت پر ٹیک لگائے ہرگز اس حال میں نہ پاؤں کہ اس کے پاس میرے احکام اور فیصلوں میں سے کوئی حکم آئے، جن کا میں نے حکم دیا ہے یا جن سے روکا ہے، اور وہ یہ کہے یہ ہم نہیں جانتے، ہم نے تو اللہ ﷻ کی کتاب میں جو کچھ پایا بس اسی کی پیروی کی ہے۔ (صحیح)
(سنن ابوداؤد 4605، کتاب ۔ سنت کا بیان)
3; صحابہ اکرام رضوان اللہ علیھم اجمعین قرآن پاک و سنت رسول اللہ ﷺ پر عمل جان، مال و اولاد بلکہ سب سے بڑھ کر کرتے اور ادب اتنا کہ ناقابل بیان ہے، سیدنا عمرو بن میمون فرماتے ہیں کہ ؛
عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ، قَالَ مَا أَخْطَأَنِي ابْنُ مَسْعُودٍ عَشِيَّةَ خَمِيسٍ إِلَّا أَتَيْتُهُ فِيهِ، قَالَ فَمَا سَمِعْتُهُ يَقُولُ لِشَيْءٍ قَطُّ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا كَانَ ذَاتَ عَشِيَّةٍ، قَالَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ فَنَكَسَ، فَنَظَرْتُ إِلَيْهِ فَهُوَ قَائِمٌ مُحَلَّلَةً أَزْرَارُ قَمِيصِهِ، قَدِ اغْرَوْرَقَتْ عَيْنَاهُ، وَانْتَفَخَتْ أَوْدَاجُهُ، قَالَ أَوْ دُونَ ذَلِكَ، أَوْ فَوْقَ ذَلِكَ، أَوْ قَرِيبًا مِنْ ذَلِكَ، أَوْ شَبِيهًا بِذَلِكَ.
عمرو بن میمون کہتے ہیں کہ میں بلا ناغہ ہر جمعرات کی شام کو عبداللہ بن مسعود (رضی اللہ عنہ) کے پاس جاتا تھا، میں نے کبھی بھی آپ کو کسی چیز کے بارے میں
قال رسول الله صلى الله عليه وسلم کہتے نہیں سنا،
ایک شام آپ نے کہا قال رسول الله صلى الله عليه وسلم اور اپنا سر جھکا لیا، میں نے ان کو دیکھا کہ اپنے کرتے کی گھنڈیاں کھولے کھڑے ہیں، آنکھیں بھر آئی ہیں اور گردن کی رگیں پھول گئی ہیں اور کہہ رہے ہیں آپ ﷺ نے اس سے کچھ کم یا زیادہ یا اس کے قریب یا اس کے مشابہ فرمایا۔ (صحیح )
(سنن ابن ماجہ 23,کتاب: سنت کی پیروی کا بیان.)
یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا کمال ادب تھا کہ حدیث مبارکہ کی روایت میں نبی اکرم ﷺ کی طرف اس وقت تک نسبت نہ کرتے تھے جب تک خوب یقین نہ ہوجاتا کہ یہی آپ ﷺ کا فرمان ہے یا نہیں اور کلمات کیا یہی ہیں،
اور جب ذرا سا بھی گمان اور شبہہ ہوتا تو اس خوف سے ڈر جاتے کہ کہیں آپ ﷺ پر جھوٹ نہ باندھ دیں، کیونکہ جو آپ ﷺ پر جھوٹ باندھے صحیح حدیث کی روشنی میں اس پر جہنم کی وعید ہے.
آج اکثریت کا یہ حال ہے، کہ بغیر علم کے ہی ایک حدیث مبارکہ پر نا جانے کیا کچھ کہ جاتے ہیں، کیا دل میں رب کریم کا خوف نہیں آتا ؟,
🌹شرعی تعلیمات سے دور کرنے کےلئے وسوسہ ڈالنا، بری بات پھیلانا شیاطین کا کام ہے🌹;
4; وَ کَذٰلِکَ جَعَلۡنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا شَیٰطِیۡنَ الۡاِنۡسِ وَ الۡجِنِّ یُوۡحِیۡ بَعۡضُہُمۡ اِلٰی بَعۡضٍ زُخۡرُفَ الۡقَوۡلِ غُرُوۡرًا ؕ وَ لَوۡ شَآءَ رَبُّکَ مَا فَعَلُوۡہُ فَذَرۡہُمۡ وَ مَا یَفۡتَرُوۡنَ﴿۱۱۲﴾
اللہ ﷻ کا ارشاد ہے؛ اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لیے شیطان انسانوں اور جنوں کو دشمن بنادیا جو (لوگوں کو) دھوکے میں ڈالنے کے لیے ایک دوسرے کو خوش نما باتیں القا کرتے رہتے ہیں۔ وہ یہ کام دھوکہ دینے کے لئے کرتے ہیں اور اگر تیرا رب چاہے تو یہ لوگ یہ کام نہ کریں، سو چھوڑ دیجئے ان کو اور ان باتوں کو جو وہ جھوٹ بناتے ہیں۔ (انعام)
الدر المنثور — جلال الدين السيوطي (٩١١ هـ)
قَوْلُهُ تَعالى: ﴿وكَذَلِكَ جَعَلْنا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا﴾ الآيَتَيْنِ.
1۔ عَنْ أبِي أُمامَةَ قالَ: قالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: «يا أبا ذَرٍّ، تَعَوَّذْ بِاللَّهِ مِن شَرِّ شَياطِينِ الجِنِّ والإنْسِ، قالَ: يا نَبِيَّ اللَّهِ، وهَلْ لِلْإنْسِ شَياطِينُ ؟ قالَ: نَعَمْ ﴿شَياطِينَ الإنْسِ والجِنِّ يُوحِي بَعْضُهم إلى بَعْضٍ زُخْرُفَ القَوْلِ غُرُورًا﴾ [الأنعام»: ١١٢] .
امام احمد، ابن ابی حاتم اور طبرانی رحمھم اللہ نے حضرت ابو امامہ (رضی اللہ عنہ) سے روایت کی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے ابوذر تو اللہ ﷻ سے پناہ مانگ جن اور انسان کے شیطانوں کے شر سے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ کیا انسانوں میں سے بھی شیاطین ہیں ؟
آپ ﷺ نے فرمایا ہاں (اور یہ آیت پڑھی)
آیت ﴿شَياطِينَ الإنْسِ والجِنِّ يُوحِي بَعْضُهم إلى بَعْضٍ زُخْرُفَ القَوْلِ غُرُورًا﴾ [الأنعام»: ١١٢] .
2۔ عَنْ أبِي ذَرٍّ قالَ: قالَ لِيَ النَّبِيُّ ﷺ: يا أبا ذَرٍّ، تَعَوَّذْ بِاللَّهِ مِن شَرِّ شَياطِينِ الإنْسِ والجِنِّ، قُلْتُ: يا رَسُولَ اللَّهِ، ولِلْإنْسِ شَياطِينُ ؟ قالَ: نَعَمْ» .
امام احمد، ابن مردویہ اور بیہقی رحمھم اللہ نے الشعب میں حضرت ابوذر (رضی اللہ عنہ) سے روایت کیا کہ مجھ کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا
تو پناہ مانگ انسان اور جن کے شیطانوں سے۔
میں نے عرض کیا ؛ يا رَسُولَ اللَّهِ ﷺ، اور انسان میں بھی شیاطین ہیں ؟ فرمایا ہاں !۔
3۔ عَنِ ابْنِ عَبّاسٍ في قَوْلِهِ: ﴿وكَذَلِكَ جَعَلْنا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا شَياطِينَ الإنْسِ والجِنِّ﴾
قالَ: إنَّ لِلْجِنِّ شَياطِينَ يُضِلُّونَهم مِثْلَ شَياطِينِ الإنْسِ يُضِلُّونَهم، فَيَلْتَقِي شَيْطانُ الإنْسِ وشَيْطانُ الجِنِّ فَيَقُولُ هَذا لِهَذا: أضْلِلْهُ بِكَذا، وأضْلِلْهُ بِكَذا، فَهو قَوْلُهُ ﴿يُوحِي بَعْضُهم إلى بَعْضٍ زُخْرُفَ القَوْلِ غُرُورًا﴾
وقالَ ابْنُ عَبّاسٍ: الجِنُّ هُمُ الجانُّ ولَيْسُوا بِشَياطِينَ، والشَّياطِينُ ولَدُ إبْلِيسَ وهم لا يَمُوتُونَ إلّا مَعَ إبْلِيسَ، والجِنُّ يَمُوتُونَ، فَمِنهُمُ المُؤْمِنُ ومِنهُمُ الكافِرُ.
امام ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ رحمھم اللہ نے حضرت ابن عباس (رضی اللہ عنہ) سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ
آیت ﴿وكَذَلِكَ جَعَلْنا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا شَياطِينَ الإنْسِ والجِنِّ﴾ کے بارے میں فرمایا
کہ جنوں کے لئے شیاطین ہیں جو ان کو گمراہ کرتے ہیں جس طرح انسانوں کے شیاطیں ان کو گمراہ کرتے ہیں،
باہم ملاقات کرتے ہیں انسان کا شیطان اور جن کا شیطان اور یہ اس کو کہتا ہے میں نے اس کو اس طرح گمراہ کیا (اور وہ کہتا ہے) میں نے اس کو اس طرح گمراہ کیا۔اسی کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا
لفظ آیت ﴿يُوحِي بَعْضُهم إلى بَعْضٍ زُخْرُفَ القَوْلِ غُرُورًا﴾
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا جنات وہ تو جن ہیں یہ شیاطیں نہیں ہیں اور شیاطین ابلیس کی اولاد ہیں اور وہ نہیں مرتے ہیں مگر ابلیس کے ساتھ اور جنات مرتے رہتے ہیں ان میں مومن بھی ہیں اور کافر بھی ہیں۔
4۔ وأخْرَجَ أبُو الشَّيْخِ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ قالَ: الكَهَنَةُ هم شَياطِينُ الإنْسِ.
امام ابو الشیخ رحمة اللہ علیہ نے حضرت ابن مسعود (رضی اللہ عنہ) سے روایت کیا کہ کاہن انسانوں میں سے شیاطین ہیں۔
5۔ عَنِ ابْنِ عَبّاسٍ في قَوْلِهِ: ﴿يُوحِي بَعْضُهم إلى بَعْضٍ﴾ قالَ: شَياطِينُ الجِنِّ يُوحُونَ إلى شَياطِينِ الإنْسِ، فَإنَّ اللَّهَ تَعالى يَقُولُ: ﴿وإنَّ الشَّياطِينَ لَيُوحُونَ إلى أوْلِيائِهِمْ﴾ (الأنعام: ١٢١).
امام ابن منذر اور ابن ابی حاتم رحمھم اللہ نے حضرت ابن عباس (رضی اللہ عنہ) سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ﴿يُوحِي بَعْضُهم إلى بَعْضٍ﴾ کے بارے میں فرمایا کہ جنوں کے شیاطین انسانوں کے شیاطین کے دلوں میں ڈالتے ہیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں لفظ آیت ﴿وإنَّ الشَّياطِينَ لَيُوحُونَ إلى أوْلِيائِهِمْ﴾ [الأنعام: ١٢١]
6۔ عَنْ قَتادَةَ في قَوْلِهِ: ﴿شَياطِينَ الإنْسِ والجِنِّ﴾ قالَ: مِنَ الإنْسِ شَياطِينُ، ومِنَ الجِنِّ شَياطِينُ ﴿يُوحِي بَعْضُهم إلى بَعْضٍ﴾ .
امام عبد الرزاق اور ابن منذر رحمھم اللہ نے قتادہ (رحمة اللہ علیہ) سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ﴿شَياطِينَ الإنْسِ والجِنِّ﴾ کے بارے میں فرمایا شیاطین انسانوں میں سے اور شیاطین جنوں میں سے
لفظ آیت ﴿يُوحِي بَعْضُهم إلى بَعْضٍ﴾ . (یعنی ان کے بعض بعض کو چپکے چپکے سکھاتا ہے) ۔
7۔ عَنِ ابْنِ عَبّاسٍ في قَوْلِهِ: ﴿زُخْرُفَ القَوْلِ غُرُورًا﴾ يَقُولُ: بُورًا مِنَ القَوْلِ.
امام ابن منذر رحمة اللہ علیہ نے حضرت ابن عباس (رضی اللہ عنہ) سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ﴿زُخْرُفَ القَوْلِ غُرُورًا﴾ کے بارے میں فرمایا کہ ایسی بات جو ہلاک کرنے والی ہو۔
8۔ عَنِ ابْنِ عَبّاسٍ: ﴿زُخْرُفَ القَوْلِ غُرُورًا﴾ . قالَ: يُحَسِّنُ بَعْضُهم لِبَعْضٍ القَوْلَ لِيَتَّبِعُوهم في فِتْنَتِهِمْ.
امام ابن ابی حاتم رحمة اللہ علیہ نے حضرت ابن عباس (رضی اللہ عنہ) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ﴿زُخْرُفَ القَوْلِ غُرُورًا﴾ یعنی ایسی بات جو ہلاکت کا باعث ہو۔
9۔ وأخْرَجَ الفِرْيابِيُّ، وأبُو نَصْرٍ السِّجْزِيُّ في الإبانَةِ، وأبُو الشَّيْخِ، عَنْ مُجاهِدٍ في الآيَةِ قالَ: شَياطِينُ الجِنِّ يُوحُونَ إلى شَياطِينِ الإنْسِ، كُفّارِ الإنْسِ ﴿زُخْرُفَ القَوْلِ غُرُورًا﴾ قالَ: تَزْيِينُ الباطِلِ بِالألْسِنَةِ.
امام فریابی، عبد بن حمید، ابن منذر، ابو نصر السجزی نے الابانہ میں اور ابو الشیخ نے مجاہد (رحمة اللہ علیہ) سے روایت کیا کہ انہوں نے اس آیت کے بارے میں فرمایا جنوں کے شیاطین دل میں ڈالتے ہیں انسانوں کے شیاطین کی طرف جو انسانوں میں سے کافر ہوتے ہیں اور فرمایا
لفظ آیت ﴿زُخْرُفَ القَوْلِ غُرُورًا﴾ باطل کو مزین کرتے ہیں زبانوں سے۔
10۔ عَنِ السُّدِّيِّ في قَوْلِهِ: ﴿زُخْرُفَ القَوْلِ﴾ قالَ: زَخْرَفُوهُ وزَيَّنُوهُ ﴿غُرُورًا﴾ قالَ: يَغُرُّونَ بِهِ النّاسَ والجِنَّ.
امام ابن ابی حاتم نے سدی (رحمة اللہ علیہ) سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ﴿زُخْرُفَ القَوْلِ﴾ کے بارے میں فرمایا کہ تم بات کو خوشنما بناؤ اور اسے خوب آراستہ کرو۔ اور فرمایا
لفظ آیت ﴿غُرُورًا﴾ اس کے ذریعے انسانوں اور جنوں کو دھوکہ دیتے ہیں۔
11۔ عَنِ ابْنِ زَيْدٍ في الآيَةِ قالَ: الزُّخْرُفُ المُزَيَّنُ حَيْثُ زَيَّنَ لَهم، هَذا الغُرُورُ، كَما زَيَّنَ إبْلِيسُ لِآدَمَ ما جاءَ بِهِ، وقاسَمَهُ إنَّهُ لَمِنَ النّاصِحِينَ.
امام ابو الشیخ نے ابن زید (رحمة اللہ علیہ) سے روایت کیا کہ انہوں نے اس آیت کے بارے میں فرمایا لفظ آیت زخرف سے مراد ہے مزین کرنا اس طرح پر کہ ان کے لئے اس دھوکہ کو خوب مزین کرتے ہیں جسے ابلیس نے آدم کے لئے اپنے فریب کو خوب مزین کیا تھا اور ان کے سامنے قسم کھائی کہ بیشک وہ خیر خواہوں میں سے ہے۔
(تفسیر درِ منثور
مفسر: امام جلال الدین السیوطی رحمة اللہ علیہ)
تفسیر تبیان القرآن میں ہے؛
اللہ تعالی کا ارشاد ہے : اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لیے شیطان انسانوں اور جنوں کو دشمن بنادیا جو (لوگوں کو) دھوکے میں ڈالنے کے لیے ایک دوسرے کو خوش نما باتیں القا کرتے رہتے ہیں۔ (الانعام) –
انسانوں اور جنوں میں سے شیاطین (سرکشوں) کا ہونا۔ –
اس آیت کا معنی یہ ہے کہ جس طرح ہم نے انبیاء سابقین (علیہم السلام) کے لیے سرکش اور شیطان انسانوں اور جنوں کو دشمن بنادیا تھا ‘ اسی طرح آپ کے لیے بھی سرکش اور شیطان انسانوں اور جنوں کو دشمن بنادیا ہے۔ –
اس آیت میں ” شیاطین الانس والجن “۔ فرمایا ہے۔ اس کی دو تفسیریں ہیں۔
ایک تفسیر یہ ہے کہ شیطان سے مراد سرکش ہے اور انسانوں اور جنوں میں سے بعض سرکش ہوتے ہیں اور یہ دونوں مومنوں کو بہکانے اور گمراہ کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔
اور دوسری تفسیر یہ ہے کہ تمام شیطان ابلیس کی اولاد ہیں ‘ اور اس نے ان کے دو گروہ کردیئے ہیں۔ ایک گروہ انسانوں کو بہکاتا ہے اور دوسرا گروہ جنوں کو بہکاتا ہے اور ان دونوں گروہوں کو شیاطین الانس والجن کہا جاتا ہے لیکن پہلی تفسیر راجح ہے اور اس کی تائید میں یہ حدیث ہے : –
امام احمد بن حنبل متوفی ٢٤١ ھ روایت کرتے ہیں : –
حضرت ابوامامہ (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے ‘ اور صحابہ کا یہ گمان تھا کہ آپ پر وحی نازل ہو رہی ہے ‘ اس لیے وہ آپ کے سامنے چپ چاپ بیٹھے تھے۔ اتنے میں حضرت ابو ذر (رضی اللہ عنہ) آکر آپ کے پاس بیٹھ گئے۔
آپ ﷺ نے فرمایا اے ابو ذر ! کیا تم نے آج نماز پڑھ لی ہے انہوں نے کہا نہیں۔
آپ ﷺ نے فرمایا اب کھڑے ہو کر نماز پڑھو۔ جب انہوں نے چار رکعات چاشت کی نماز پڑھ لی ۔
تو آپ ﷺ ان کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا جنوں اور انسانوں کے شیطانوں سے پناہ طلب کیا کرو ‘
انہوں نے کہا یا نبی اللہ ﷺ! کیا انسانوں کے لیے بھی شیطان ہوتے ہیں ‘
آپ ﷺ نے فرمایا ہاں ! جن اور انس کے شیاطین (لوگوں کو) دھوکے میں ڈالنے کے لیے ایک دوسرے کو خوش نما باتیں القا کرتے ہیں۔ الحدیث بطولہ۔ شیخ احمد شاکر نے کہا اس حدیث کی سند حسن ہے۔ –
(مسند احمد ‘ ج ١٦‘ رقم الحدیث :‘ ٢٢١٨٩‘ ٢١٤٣٨‘) –
وحی ‘ زخرف القول اور غرور کے معنی: –
اس آیت میں فرمایا ہے میں سے بعض ‘ بعض کی طرف غرور (دھوکے) میں مبتلا کرنے کے لیے زخرف القول کی وحی کرتے ہیں۔ –
وحی کا معنی ہے اشارہ کرنا ‘ لکھنا اور کلام خفی۔ جب وحی کی نسبت انبیاء (علیہم السلام) کی طرف ہو تو اس کا معنی ہے اللہ تعالی کا وہ کلام جو اللہ تعالی انبیاء (علیہم السلام) پر بلاواسطہ یا فرشتے کی وساطت سے نیند یابیداری میں نازل فرماتا ہے ‘
اور جب اس کی نسبت عام مسلمانوں کی طرف ہو تو اس سے مراد الہام ہوتا ہے۔ یعنی کسی خیر اور نیک بات کا دل میں ڈالنا
اور جب اس کی نسبت شیطان کی طرف ہو جیسا کہ اس آیت میں ہے تو اس کا معنی ہے وسوسہ ‘ یعنی کسی بری بات یا برے کام کی طرف انسانوں کے دل کو مائل اور راغب کرنا۔ زخرف اس چیز کو کہتے ہیں جس کا باطن باطل ‘ برائی اور گناہ ہو اور اس کا ظاہر مزین ‘ خوش نما اور خوب صورت ہو۔ جیسے چاندی پر سونے کاملمع کرکے اسے سونا بنا کر پیش کیا جائے۔ –
غرور کے معنی ہیں دھوکا ‘ مغرور وہ شخص ہے جو کسی چیز کو مصلحت کے مطابق عمدہ اور نفع آور گمان کرے اور درحقیقت وہ اس طرح نہ ہو۔ –
شیطان کے وسوسہ اندازی کی تحقیق: –
شیطان کے وسوسہ سے دھوکہ کھانے کی تحقیق یہ ہے کہ جب تک انسان کسی چیز کے متعلق یہ یقین نہ کرے کہ اس میں خیر غالب ہے اور نفع زیادہ ہے ‘ وہ اس چیز میں رغبت نہیں کرتا اور اس کے حصول کے درپے نہیں ہوتا۔
پھر اگر اس کا یہ یقین واقع کے مطابق ہو تو یہ حق اور صدق ہے اور اگر یہ یقین کسی فرشتے کے القاء کرنے کی وجہ سے ہے ‘ تو یہ الہام ہے اور اگر اس کا یہ یقین واقع کے مطابق نہیں ہے اور اس کا ظاہر حسین اور مزین ہے اور اس کا باطن فاسد اور باطل ہے ‘ تو یہ کلام مزخرف ہے۔
اب یا تو اس نے اپنی لاعلمی کی وجہ سے بری چیز کو اچھا اور پیتل کو سونا سمجھ لیا اور یا ارواح خبیثہ نے اس کے دل میں یہ وسوسہ ڈالا ہے اور اس کے ذہن میں برائی کو خوش نمابنا کر پیش کیا ہے ‘ اور یہی معنی اس آیت میں مراد ہے۔ –
درحقیقت روحین دو قسم کی ہوتی ہیں ‘
ایک طیب اور طاہر ہوتی ہیں یہ فرشتے ہیں ‘
اور دوسری ناپاک اور شریر ہوتی ہیں ‘ یہ شیاطین ہیں۔
ارواح طیبہ جس طرح لوگوں کو نیکی کا حکم دیتی ہیں ‘ اسی طرح ایک دوسرے کو بھی نیکی کا حکم دیتی ہیں ‘
اور ارواح خبیثہ جس طرح لوگوں کو برائی کا حکم دیتی ہیں ‘ اسی طرح ایک دوسرے کو بھی برائی کا حکم دیتی ہیں۔
پھر انسانوں میں جن کی سرشت نیک ہوتی ہے اور ان پر پاکیزگی اور خیر کا غلبہ ہوتا ہے ‘ انکی فرشتوں کے ساتھ مناسبت ہوتی ہے اور ان پر الہام ہوتا ہے
اور جن کی سرشت خبیث ہوتی ہے اور ان پر برائی کا غلبہ ہوتا ہے ‘ انکی شیطانوں کے ساتھ مناسبت ہوتی ہے اور ان کے دلوں میں شیطان وسوسے ڈالتے رہتے ہیں۔
پھر انسانوں میں جو زیادہ خبیث اور سرکش ہوتے ہیں ‘ وہ دوسرے انسانوں کے دلوں میں وسوسہ اندازی کرتے ہیں اور برائیوں کو خوش نما بنا کر دوسرے لوگوں کو دھوکے میں ڈالتے ہیں اور لوگوں کو برائیوں اور گناہوں پر راغب کرتے ہیں۔
اس آیت میں یہی بتایا ہے کہ شیطان جن اور شیطان انسان لوگوں کو دھوکے میں دالنے کے لیے برائیوں کو خوش نما بنا کر بیان کرتے ہیں ‘ اور اسی لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شیطان انسانوں اور شیطان جنوں سے پناہ مانگنے کا حکم دیا ہے۔ –
اس بحث میں یہ حدیث بھی پیش نظر رہنی چاہیے۔ –
امام ابوعیسی محمد بن عیسی ترمذی متوفی ٢٧٩ ھ روایت کرتے ہیں : –
حضرت عبداللہ بن مسعود (رضی اللہ۔عنہ) بیان کرتے ہیں کہ ابن آدم کے قریب ایک شیطان کا نزول ہوتا ہے اور ایک فرشتہ کا نزول ہوتا ہے (یعنی اس کے دل میں ایک القاء کرنے والا شیطان ہوتا ہے اور ایک فرشتہ) شیطان کی طرف القا کرنے والا اس کو مصائب سے ڈراتا ہے اور حق کی تکذیب کراتا ہے
اور فرشتہ کی طرف سے القاء کرنے والا خیر کی بشارت دیتا ہے۔ جو شخص اس کو اپنے دل میں پائے وہ اللہ ﷺ کا شکر بجا لائے اور جو شخص اپنے دل میں دوسری بات پائے وہ ” اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم “۔ پڑھے ‘ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی : –
(آیت) ” الشیطن یعدکم الفقر ویامرکم بالفحشاء “۔ (البقرہ : ٢٦٨) –
ترجمہ : شیطان تم کو مفلسی سے ڈراتا ہے اور بےحیائی کا حکم دیتا ہے۔ –
امام ابو عیسی نے کہا یہ حدیث حسن غریب ہے۔ –
(سنن الترمذی ‘ ج ٤‘ رقم الحدیث :‘ ٢٩٩٩) –
امام مسلم بن حجاج قشیری ٢٦١ ھ روایت کرتے ہیں : –
حضرت عبداللہ بن مسعود (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم میں سے ہر شخص کے ساتھ ایک جن پیدا ہوتا ہے۔
صحابہ اکرام نے پوچھا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کے ساتھ بھی پیدا کیا گیا ہے ؟
آپ ﷺ نے فرمایا ہاں ! میرے ساتھ بھی پیدا کیا گیا ہے ‘ لیکن اللہ تعالی نے میری اعانت فرمائی ‘ وہ مسلمان ہوگیا۔ وہ مجھے نیکی کے سوا اور کوئی مشورہ نہیں دیتا۔ –
(صحیح مسلم) –
قاضی عیاض نے کہا ہے کہ امت کا اس پر اجماع ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جسم ‘ آپ کا دل اور آپ کی زبان شیطان کے آثار سے محفوظ ہے اور اس حدیث میں یہ اشارہ ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قرین جن (ہم زاد) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی برکت اور آپ کی مبارک صحبت سے مسلمان ہوگیا اور برائی کا حکم دینے والا نیکی کا حکم دینے والا بن گیا ‘ اور ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے آپ کو شیطان کے اغواء اور اس کے وسوسوں سے بچانے کی کوشش کریں۔ –
شیطان کی طرف القاء وسوسہ ہوتا ہے اور فرشتہ کی طرف سے القاء الہام ہوتا ہے۔ شیطان کفر ‘ فسق اور ظلم کے وسوسے ڈالتا ہے اور توحید ‘ رسالت ‘ مرنے کے بعد اٹھنے ‘ قیامت اور جنت اور دوزخ کے انکار کی تلقین کرتا ہے اور فرشتہ ‘ اللہ ﷻ اور رسول ﷺ اور قرآن مجید کی تصدیق کی تلقین کرتا ہے اور نماز ‘ روزہ اور دیگر نیکی کے کاموں کی ترغیب دیتا ہے۔ جب اس کے دل میں اس قسم کی باتیں آئیں تو اللہ ﷻ کا شکر ادا کرے
اور جب اس کے خلاف باتیں آئیں ‘ تو شیطان کے شر سے پناہ مانگے۔ ہرچند کہ احکام شرعیہ میں الہام معتبر نہیں ہے ‘ لیکن وساوس شیطان سے اجتناب میں وہ معتبر ہے ‘ عارفین نے کہا ہے کہ جو شخص حرام کھاتا ہو وہ الہام اور وسوسہ میں تمیز نہیں کرسکتا۔-
اللہ تعالی کا ارشاد ہے : اور اگر آپ کا رب چاہتا تو وہ یہ نہ کرتے، سو آپ انہیں اور انکی افتراء پردازیوں کو ان کے حال پر چھوڑدیں۔ (الانعام : ١١٢) –
شیاطین کو پیدا کرنے کی حکمت : –
اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اگر اللہ تعالی چاہتا تو انسانوں اور جنوں میں سرکش اور شیاطین سابقہ انبیاء (علیہم السلام) اور ان کے امتیوں کو اپنے وسوسوں اور سازشوں سے نقصان نہ پہنچاتے اور اسی طرح وہ آپ ﷺ کو اور آپ ﷺ کی امت کو بھی ضرر پہنچانے سے باز رہتے ‘
لیکن یہ چیز اللہ تعالی کی مشیت میں نہیں ہے۔
اللہ تعالی کی مشیت یہ ہے کہ بعض نیک لوگ ان شیاطین کی سازشوں اور وسوسوں کی وجہ سے ضرر میں مبتلا ہوں ‘ پھر اللہ تعالی ان شیاطین کو آخرت میں سزا دے اور نیک لوگوں کو ان کے امتحان میں کامیاب ہونے اور مصائب پر صبر کرنے کی وجہ سے جزا دے ‘
تو آپ ﷺ، ابلیس اور اس کے پیروکاروں کو اور انکی مزخرف باتوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیجئے۔ یہ آیت کفر پر عذاب کی وعید اور اسلام پر ثابت قدم رہنے والوں کی بشارت کو متضمن ہے۔
اور اس میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینا ہے اور آپ کے قلب مبارک سے غم کو زائل کرنا ہے۔
(تبیان القرآن)
قرآن و سنت مصطفی ﷺ پر عمل کرنے میں ہی ہماری نجات و کامیابی ہے.
بس ،اپنا محاسبہ خود ہی کر لیا کریں، ہمیں سوچنا چاہئے کیا ہماری خواہشات، ہمارا طرز زندگی شرعی تعلیمات کے تابع ہے؟
شرعی احکامات پر عمل کرنے والوں کےلئے ہی برکتیں و عزتیں ہیں، کامیابی اور غلبہ کے وہی مستحق ہیں۔
علامہ اقبال رحمة اللہ علیہ نے کیا خوب فرمایا ہے ؛
سبق پڑھ صداقت کا شجاعت کا عدالت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
یعنی اپنے اندر صداقت، شجاعت اور عدل کی صفات پیدا کر، قرآن پاک و سنت رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات پر عمل کر، اگر ایسا ہوا تو اے مسلمان پھر دنیا تیری پیروی کرے گی۔
اللہ رب العالمین ہمیں، ہماری نسلوں اور تمام امت مسلمہ کو قرآن پاک و سنت رسول اللہ ﷺ پر عمل کرنے اور دین اسلام و امت مسلمہ کی خدمت کرنے والا بنائے۔۔اَمِين يَا رَبَّ الْعَالَمِيْن
واللہ اعلم
اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى ُمحَمَّدِ ُّوعَلَى اَلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى اِبْرَاهِيْمَ وَعَلَى اَلِ ابْرَاهِيْمَ اِنَّكَ حَمِيْدُ مَجِيِد
اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمّدِ ٌوعَلَى اَلِ مُحَمّدٍ كَمَابَارَكْتَ عَلَى اِبْرَاهِيْمَ وَعَلَى اَلِ اِبْرَاهِيْمَ اِنَّكَ حَمِيُد مَّجِيد
السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ