ملا باقر مجلسی کی دوغلی پالیسی دیکھیں کہ خود وہ اخباری ہے یعنی حدیث کی سند ان کے ہاںُ کوئی معیار نہیں ہے بلکہ شیعہ کتب میں ہے کہ اگر مفتی کسی رویت کو بیان کرتا ہے وہی زمہ دار ہے اس رویت کا
بلکہ اگر رویت متصل سند ہے امام معصوم تک تو رویت بلا دلیل صحیح ہے اور اس پر بھی حوالہ دیکھ لیں
اور بڑی کتب شیعہ میں جو روایات و اخبار آئی ہیں وہ اصول اربعہ یعنی اصول کافی فروع و روضہ استبصار اور تھزیب الاحکام یا صدوق برقی صفار و مفید سب کی کتب اور کتاب بحار میں سب کی سب مورد عمل روایات ہیں
جب ملا باقر مجسلے کی کتاب بحار الانوار کی ہر رویت قابل حجت ہے تو اس کا مطلب اصول کافی تو حجت ہی حجت ہے تو ملا باقر مجلسی کا روایات کو ضعیف کہنا مراہ العقول میں تقیہ کے سوا کچھ نہیں
ایک ہی رویت کو مراہ العقول میں ضعیف کہا مگر جب رویت
وہی ملاد الاخیار میں آئے تو صحیح ہوگئ واہ جی واہ