میلادالنبی کی شرعی حیثیت قسط دوئم

صحیح بخاری ، صحیح مسلم ، جامع ترمذی اور میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : ترمذی شریف میں باب “باب ماجاء في ميلاد النبي صلي الله عليه وآله وسلم” ، الجامع ترمذی شریف میں ایک باب ہے “باب ماجاء في ميلاد النبي صلي الله عليه وآله وسلم” جو امام ترمذی نے باندھا ہے ۔ تب تک میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم منانا بدعت نہیں سمجھا جاتا تھا ۔ بدعت کا بہتان بہت بعد کی ایجاد ہے ۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ 604 ہجری کے بعد میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم منانے کا رواج پڑا ۔ جبکہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ 209 ہجری میں پیدا ہوئے اور 279 میں فوت ہوئے ۔

مشکوٰۃ میں ترمذی اور دارمی کے حوالے سے حدیث پاک موجود ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بعض انبیاء کرام علیہم السّلام کے فضائل کا ذکر کر رہے تھے کہ اس محفل میں آقا تشریف لائے اور آپ نے اپنے فضائل خود بیان فرمائے جن میں سے کچھ یہ ہیں “خبردار میں اللہ کا حبیب ہوں ” اور آپ ہی کے زمانے میں ایک اور محفل میلاد مسجدِ نبوی میں منعقد ہوئی جس میں آپ نے منبر پر بیٹھ کر اپنے فضائل اور ولادت کے تذکرے فرمائے ۔ (جامع ترمذی ج 2 ص 201)

صحیح مسلم شریف جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 7، مشکوٰۃ شریف صفحہ نمبر 179 میں یہ حدیث درج ہے کہ : حضرت سیدنا ابو قتادہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ بارگاہ رسالت میں عرض کی گئی کہ ’’یارسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم آپ پیر کا روزہ کیوں رکھتے ہیں ؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے جواب دیا ’’اسی دن میں پیدا ہوا اور اسی دن مجھ پر وحی نازل ہوئی‘‘ ۔

امام حافظ بن حجر رحمتہ ﷲ علیہ (المتوفی 852ھ) نے ایک سوال کے جواب میں لکھا ’’میرے لئے اس (محفل میلاد) کی تخریج ایک اصل ثابت سے ظاہر ہوئی ، دراصل وہ ہے جو بخاری و مسلم میں موجود ہے : حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ نے یہودیوں کو دسویں محرم کا روزہ رکھتے دیکھا ۔ ان سے دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ یہ وہ دن ہے، جس دن ﷲ تعالیٰ نے فرعون کو غرق کیا تھا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو نجات دی تھی ، ہم اس دن کا روزہ شکرانے کے طور پر رکھتے تھے ۔ (صحیح البخاری، کتاب الصوم، باب صوم یوم عاشوراء ، رقم الحدیث 2004، صفحہ نمبر 321)۔(صحیح المسلم، کتاب الصیام، باب صوم یوم عاشوراء رقم الحدیث 2656، صفحہ نمبر
462،)

اس کرہ ارض پر بسنے والے کسی بھی عالم دین (اگرچہ وہ صحیح عالم ہو) سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے پیر کے روزے کے متعلق دریافت کیجئے ، اس کا جواب یہی ہوگا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے اپنی ولادت کی خوشی میں روزہ رکھا ۔ نبی علیہ السلام اپنی آمد کی خوشی منائے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے غلام اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کا جشن نہ منائیں ۔ یہ کیسی محبت ہے ؟ اسی لئے تو مسلمان ہر سال زمانے کی روایات کے مطابق جشن ولادت مناتے ہیں ۔ کوئی روزہ رکھ کر مناتا ہے تو کوئی قرآن کی تلاوت کر کے ، کوئی نعت پڑھ کر ، کوئی درود شریف پڑھ کر ، کوئی نیک اعمال کا ثواب اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی بارگاہ میں پہنچا کر تو کوئی شیرینی بانٹ کر ، دیگیں پکوا کر غریبوں اور تمام مسلمانوں کوکھلا کر اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی ولادت کا جشن مناتاہے ۔ یعنی زمانے کی روایات کے مطابق اچھے سے اچھا عمل کرکے اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی ولادت کا جشن منایا جاتا ہے ۔ پس جو شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو مانتا ہے تو وہ سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سمجھ کر اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی ولادت کا جشن منائے گا اور جو شخص نبی کو نہیں مانتا ، وہ اس عمل سے دور بھاگے گا ۔

واقعہ حضرت ثوبیہ رضی اللہ عنہا اور میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم

محترم قارئین : ایک دوست نے میسج کیا کہ ایک نجدی نے انکار کر دیا ہے کہ بخاری شریف میں واقعہ حضرت ثوبیہ رضی اللہ عنہا والی حدیث نہیں ہے اس کا اسکن حوالہ دیں فقیر اس پر تفصیل سے لکھ چکا ہے مگر حیرت ہے نجدی بغض نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اتنا گر چکے ہیں کہ احادیث کا بھی انکار کر دیتے ہیں آیئے اس حدیث کے متعلق تفصیل سے پڑھتے ہیں اصل اسکن بھی پیشِ خدمت ہے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت مبارکہ ساری کائنات کے حق میں نعمت کبری ہے، اور اللہ تعالی کا ارشاد ہے : قُلْ بِفَضْلِ اللَّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُوا- ترجمہ : آپ فرمادیئجے کہ اللہ کی رحمت اور اس کے فضل پر ہی خوشی منائیں – (سورۂ یونس-58)

اس نعمت عظمی پر فرحت ومسرت کا اظہار کرنا تقاضۂ فطرت ہے ، جو شخص حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کے موقع پر خوشی کا اظہار کرتا ہے اللہ تعالی اسے اجرعظیم وثواب جزیل عطافرماتاہے – صحیح بخاری شریف اور دیگر کئی کتب حدیث میں الفاظ کے قدرے اختلاف کے ساتھ روایت مذکور ہے ، بعض روایتوں میں اختصار ہے اور بعض میں تفصیل ہے ، صحیح بخاری شریف ج 2،صفحہ 764،کی روایت کے الفاظ یہ ہیں : قال عروة و ثويبة مولاة لابی لهب کان ابولهب اعتقها فارضعت النبی صلی الله عليه وسلم فلما مات ابولهب اريه بعض اهله بشرحيبة قال له ماذا لقيت قال ابولهب لم الق بعدکم غير انی سقيت فی هذه بعتاقتی ثويبة ۔ ترجمہ : حضرت عروہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ‘ ثویبہ ابولہب کی باندی ہے، ابو لھب نے انہیں آزاد کیا تھا اور وہ حضرت نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو دودھ پلائیں ، جب ابولہب مرگیا تو اس کے خاندان والوں میں کسی نے خواب میں اسے بدترین حالت میں دیکھا‘ اس سے کہا : تو نے کیا پایا ؟ ابو لہب نے کہا : میں نے تم لوگوں سے جدا ہونے کے بعد کچھ آرام نہیں پایا ‘ سوائے یہ کہ ثویبہ کو آزاد کرنے کی وجہ سے اس ( انگلی ) سے سیراب کیا جاتا ہوں ۔ (صحیح بخاری شریف ،کتاب النکاح ،باب من قال لا رضاع بعد حولین ،جلد نمبر 2 ،ص764، حدیث نمبر: 4711 عربی ، صحیح بخاری مترجم اردو جلد سوم صفحہ نمبر 224 ، 225 ،)

اس روایت کی شرح کرتے ہوئے شارحین صحیح بخاری شریف علامہ بدرالدین عینی حنفی اور حافظ ابن حجر عسقلانی شافعی وغیرہ رحمھم اللہ تعالی اپنی اپنی شرح میں دیگر کتب حدیث کے حوالہ سے تفصیلی روایت تحریر فرماتے ہیں ۔ ہم یہاں علامہ بدرالدین عینی حنفی رحمتہ اللہ علیہ کی شرح عمدۃ القاری ج ،14 صفحہ 45، سے عبارت نقل کرتے ہیں : وذکر السهيلی ان العباس رضی الله تعالی عنه قال لمامات ابولهب رايته فی منامی بعد حول فی شرحال، فقال مالقيت بعدکم راحة الا ان العذاب يخفف عنی کل يوم اثنين، قال وذلک ان النبی صلی الله عليه وسلم ولد يوم الاثنين وکانت ثويبة بشرت ابالهب بمولده فاعتقها ۔
ترجمہ : حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ جب ابولہب مر گیا تو میں نے ایک سال کے بعد خواب میں اسے بدترین حالت میں دیکھا تو اس نے کہا : میں تم سے جداہونے کے بعد اب تک راحت نہیں پایا البتہ ہر پیر کے دن مجھ سے عذاب ہلکا کیا جاتاہے ۔ حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں وہ اس لئے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پیر کے دن تولد ہوئے اور ثویبہ نے ابو لھب کو آپ کی ولادت باسعادت کی خوشخبری دی تو اس نے انہیں آزاد کردیا ۔(عمدۃ القاری، کتاب النکاح ،باب من قال لا رضاع بعد حولین،ج14،ص45) یہ روایت مختلف الفاظ کے ساتھ ذیل میں ان کتب احادیث میں بھی موجود ہے : (سنن کبری، للبیہقی،کتاب النکاح ،حدیث نمبر:14297- مصنف عبدالرزاق ، کتاب المناسک ج7،۔حدیث نمبر:13546- جامع الاحادیث والمراسیل ، مسانید الصحابۃ ،حدیث نمبر:43545- کنزالعمال، ج6،کتاب الرضاع من قسم الافعال ،حدیث نمبر:15725،) ۔

سلف صالحین و علماء امت میں حافظ شمس الدین ابن الجزری نے اور حافظ شمس الدین بن ناصر الدین دمشقی رحمھما اللہ تعالی نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے موقع پر خوشی منانے اور فرحت و مسرت کا اظہار کرنے پر اس روایت سے استدلال کیاہے ۔ حافظ شمس الدین بن ناصرالدین دمشقی فرماتے ہیں : قدصح ان ابا لهب يخفف عنه عذاب النار فی مثل يوم الاثنين باعتاقه ثويبة مسرورا بميلاد النبی صلی الله عليه وسلم ثم انشد ۔
ترجمہ : یہ صحیح روایت ہیکہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت مبارک پر خوش ہو کر ثویبہ کو آزاد کرنے کی وجہ سے ابو لہب سے پیر کے دن دوزخ کے عذاب میں تخفیف کی جاتی ہے پھر انہوں نے اشعار پڑھے ‘ اس کا ترجمہ یہ ہے: جب یہ ( ابولھب ) کافر ہے جس کی مذمت میں ’’ سورہ تبت یدا‘‘ نازل ہوئی اور وہ ہمیشہ دوزخ میں رہنے والا ہے تو احمد مجتبی صلی اللہ علیہ وسلم کی میلاد پر خوش ہونے کی وجہ سے ہمیشہ ہر پیر کے دن اس سے عذاب میں تخفیف کی جاتی ہے تو اس بندہ کے حق کس قدر اجر و ثواب کا گمان کیا جائے جو عمر بھر احمد مجتبی صلی اللہ علیہ وسلم کے میلاد کی خوشی منایا اور حالت ایمان میں انتقال کیا ۔ علاوہ ازیں اس کا ذکر ۔ (شرح المواہب للزرقانی ، ج1،ص261،اور سبل الہدی والرشاد ،ج،1،ص367،) میں موجود ہے ۔

نیز ابن عبد الوہاب نجدی کے بیٹے شیخ عبد الله بن محمد بن عبد الوهاب نے اپنی کتاب “مختصر سيرة الرسول صلى الله عليه وسلم” میں رقم کیا ہے : وأرضعته صلى الله عليه وسلم ثويبة عتيقة أبي لهب، أعتقها حين بشرته بولادته صلى الله عليه وسلم. وقد رؤي أبو لهب بعد موته في النوم فقيل له: ما حالك؟ فقال: في النار، إلا أنه خفف عني كل اثنين، وأمص من بين إصبعي هاتين ماء -وأشار برأس إصبعه- وإن ذلك بإعتاقي ثويبة عندما بشرتني بولادة النبي صلى الله عليه وسلم وبإرضاعها له ۔
ترجمہ : ابو لہب کی آزاد کردہ باندی “ثویبہ” کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت رضاعت کا شرف ملا،ابو لہب نے انہيں اس وقت آزاد کیا تھا جس وقت انہوں نے اسے حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ولادت باسعادت کی بشارت سنائی تھی- اور ابو لہب کے مرنے کے بعد اسے خواب میں دیکھا گيا ، اس سےپوچھا گیا کہ تیرا کیا حال ہے ؟ تو اس نے کہا : میں عذاب میں ہوں البتہ ہر پیر کے دن مجھ سے عذاب ہلکا کیا جاتاہے ، اور میں اپنی ان دونوں انگلیوں کے درمیان پانی چوستا ہوں (اس نے اپنی انگلی کی پور کی جانب اشارہ کیا) اور یہ ثویبہ کو اس موقع پر آزاد کرنے کی برکت ہے جس وقت اس نے مجھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ولادت کی بشارت دی تھی،اور خدمت رضاعت کا شرف حاصل کیا تھا – شیخ عبد الله بن محمد بن عبد الوهاب نے اس روایت سے جواز میلاد پر استدلال کرتے ہوئے علامہ ابن جوزی کا قول نقل کیا ہے : قال ابن الجوزي: فإذا كان هذا أبو لهب الكافر الذي نزل القرآن بذمه جوزي بفرحه ليلة مولد النبي صلى الله عليه وسلم به فما حال المسلم الموحد من أمته صلى الله عليه وسلم يسر بمولده ؟۔ ترجمہ:ابن جوزی نے کہا:جب کافر ابو لہب کہ جس کی مذمت میں قرآن کریم کی سورت نازل ہوئی اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ولادت کی شب خوش ہونے پر ثواب دیا جارہا ہے تو آپ کی امت کا مؤمنِ موحّد جب آپ کی ولادت پر اظہار مسرت کرتا ہے تو وہ کس قدر نوازا جائے گا – (مختصر سيرة الرسول صلى الله عليه وسلم لعبد الله بن محمد بن عبد الوهاب، باب رضاعه من ثويبة عتيقة أبي لهب ،ج 1،ص10-مطبوعہ: دار الفيحاء دمشق ـ مختصر سيرة الرسول صلى الله عليه وسلم لعبد الله بن محمد بن عبد الوهاب، باب رضاعه من ثويبة عتيقة أبي لهب ،ج 1،ص16/17-مطبوعہ: دار السلام الرياض)

خاص طور پر میلاد شریف کے دن اہتمام کرنا خود حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے عمل مبارک سے ثابت ہے ، چنانچہ صحیح مسلم شریف میں ہے : عَنْ أَبِي قَتَادَةَ الْأَنْصَارِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ عَنْ صَوْمِ الِاثْنَيْنِ فَقَالَ فِيهِ وُلِدْتُ وَفِيهِ أُنْزِلَ عَلَيَّ- ترجمہ : سیدنا ابو قتادہ انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روز دوشنبہ کے روزہ کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے ارشاد فرمایا: یہ میری ولادت کا دن ہے اور اسی دن مجھ پر قرآن نازل کیا گیا ۔ (صحيح مسلم ، كتاب الصيام ، باب استحباب صيام ثلاثة أيام من كل شهر وصوم يوم عرفة وعاشوراء والاثنين والخميس، حدیث نمبر:1978)

اسی روایت کے مطابق ہمارے اسلاف جوکہ اپنے دور کے مستند مفسر ، محدث اور محقق رہے ہیں ان کے خیالات پڑھئے اور سوچئے کہ اس سے بڑھ کر جشن ولادت منانے کے اور کیا دلائل ہوں گے ؟

(1) ابولہب وہ بدبخت انسان ہے جس کی مذمت میں قرآن کی ایک پوری سورۃ نازل ہوئی ہے لیکن محض اس وجہ سے کہ اس کی آزاد کردہ باندی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو دودھ پلایا تو اس کا فائدہ اس کے مرنے کے بعد بھی اس کو کچھ نہ کچھ ملتا رہا۔ سہیلی وغیرہ نے اس خواب کا اتنا حصہ اور بیان کیا ہے ۔ ابولہب نے حضرت عباس سے یہ بھی کہا کہ دوشنبہ پیر) کو میرے عذاب میں کچھ کمی کردی جاتی ہے ۔ علماء کرام نے فرمایا اس کی وجہ یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی تشریف آوری کی بشارت سنانے پر ثویبہ کو جس وقت ابولہب نے آزاد کیا تھا اسی وقت اس کے عذاب میں کمی کی جاتی ہے ۔ (تذکرہ میلاد رسول صفحہ نمبر 18،)

(2) شیخ محقق حضرت علامہ مولانا شاہ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ ﷲ علیہ کا فرمان مبارک : میلاد شریف کرنے والوں کے لئے اس میں سند ہے جوشب میلاد خوشیاں مناتے ہیں اور مال خرچ کرتے ہیں ۔ یعنی ابولہب کافر تھا اور قرآن پاک اس کی مذمت میں نازل ہوا ۔ جب اسے میلاد کی خوشی منانے اور اپنی لونڈی کے دودھ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے لئے خرچ کرنے کی وجہ سے جزا دی گئی تو اس مسلمان کا کیا حال ہوگا جو محبت اور خوشی سے بھرپور ہے اور میلاد پاک میں مال خرچ کرتا ہے ۔ (مدارج النبوۃ جلد دوم صفحہ نمبر 26)

(3) حضرت علامہ مولانا حافظ الحدیث ابن الجزری رحمۃ ﷲ علیہ کا فرمان مبارک : جب ابولہب کافر جس کی مذمت میں قرآن پاک نازل ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی ولادت کی خوشی میں جزا نیک مل گئی (عذاب میں تخفیف) تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی امت کے مسلمان موحد کا کیا حال ہوگا ۔ جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی ولادت کی خوشی مناتا ہو اور حضور کی محبت میں حسب طاقت خرچ کرتا ہو ۔ مجھے اپنی جان کی قسم ﷲ کریم سے اس کی جزا یہ ہے کہ اس کو اپنے فضل عمیم سے جنت نعیم میں داخل فرمائے گا ۔ (مواہب لدنیہ جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 27،)

(4) جلیل القدر محدث حضرت علامہ ابن جوزی رحمۃ ﷲ علیہ کا فرمان مبارک : جب ابولہب کافر (جس کی قرآن میں مذمت بیان کی ہے) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی ولادت پر خوش ہونے کی وجہ سے یہ حال ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی امت کے اس موحد مسلمان کا کیا کہنا جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی ولادت پر مسرور اور خوش ہے ۔ (بیان المولد النبوی صفحہ نمبر 70 بحوالہ مختصر سیرۃ الرسول صفحہ نمبر 23 عبد اللہ بن محمد بن عبد الوہاب نجدی)

ان محدثین کرام اور اسلاف علیہم الرّحمہ کے خیالات سے ثابت ہے کہ جشن ولادت منانا اسلاف کا بھی محبوب فعل رہا ہے اور یہ بات واضح ہے کہ جب کافر محمد بن عبداﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی آمد کی خوشی مناکر فائدہ حاصل کرسکتا ہے تو مسلمان محمد رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی آمد کا جشن مناکر کیوں فائدہ حاصل نہیں کرسکتا ؟ بلکہ ابن الجزری نے تو قسم اٹھا کر فرمایا ہے کہ میلاد منانے والوں کی جزا یہ ہے کہ ﷲ تعالیٰ اپنے فضل سے انہیں جنت میں داخل فرمادے گا ۔

جہاں تک مروجہ طریقے سے میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم منانے کا سوال ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ جیسے جیسے زمانہ ترقی کرتا رہا ، لوگ ہر چیز احسن سے احسن طریقے سے کرتے رہے ۔ پہلے مسجدیں بالکل سادہ ہوتی تھیں ، اب اس میں فانوس اور دیگر چراغاں کرکے اس کو مزین کرکے بنایا جاتا ہے ۔ پہلے قرآن مجید سادہ طباعت میں ہوتے تھے ، اب خوبصورت سے خوبصورت طباعت میں آتے ہیں وغیرہ اسی طرح پہلے میلاد سادہ انداز میں ہوتا تھا ، صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین اور تابعین اپنے گھروں پر محافلیں منعقد کرتے تھے اور صدقہ و خیرات کرتے تھے ۔
(خاکسار رضوی بھائی)