کیا حضرت ابوبکر صدیقؓ نے حضرت خالد بن ولیدؓ کو یہ حکم دیا کہ وہ حضرت علیؓ کو قتل کر دیں ؟

 کیا حضرت ابوبکر صدیقؓ نے حضرت خالد بن ولیدؓ کو یہ حکم دیا کہ وہ حضرت علیؓ کو قتل کر دیں ؟

السلام علی من اتبع الھدیٰ

کچھ دن قبل مجھے کسی نے ایک مجہول شیعہ کی پوسٹ کا لنک بھیجا جس میں اس مجہول نے امام سمعانی کی کتاب الانساب کے حوالے سے یہ لکھا تھا کہ ”صحیحین کے ایک راوی“ عباد بن یعقوب نے روایت کیا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے حضرت خالد بن ولیدؓ کو یہ حکم دیا تھا کہ وہ حضرت علیؓ کو (معازاللہ) شہید کر دیں لیکن بعد میں نادم ہو کر منع کر دیا۔

ساتھ ہی اس نے امام احمدؒ کا قول نقل کیا ہے کہ امام احمدؒ نے ایسی روایات لکھنے کو ناپسند کیا ہے۔

آج ہم اس مجہول کی اسی پوسٹ کا رد کریں گے اور ساتھ ہی یہ ثابت کریں گے کہ یا تو یہ بندہ اول درجے کا جاہل ہے یا خاٸن ہے۔

اس نے اپنی پوسٹ میں ایک جملہ لکھا ہے کہ ”صحیحین کا ایک راوی“ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مجہول اس جملے سے عباد بن یعقوب کو بخاری و مسلم کا راوی ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور ساتھ یہ تاثر دے رہا ہے کہ یہ راوی ثقہ ہے۔

اول بات تو یہ کہ یہ جملہ استعمال کرنا یا تو اس شخص کے جاہل ہونے کی دلیل ہے یا خاٸن ہونے کی۔کیونکہ امام مسلمؒ نے تو اس سے روایت لی ہی نہیں البتہ امام بخاریؒ نے مقروناً ایک روایت نقل کی ہے جس سے راوی کی عدالت ثابت نہیں ہوتی کہ ثقہ ہے یا ضعیف۔

مقروناً سے مراد یہ ہے کہ محدث دو لوگوں سے روایت کرۓ،وہ دونوں ساتھی کہلاتے ہیں جیسے ”عن الولید وحدثنی عباد بن یعقوب“۔

اس طرح کسی سے روایت لینے سے اس پر ثقہ یا ضعیف کا حکم نہیں لگتا اور نہ ہی اس سے یہ مراد لی جاتی ہے کہ دونوں ثقہ ہے۔

اب آتے ہیں اس روایت اور اس راوی کے حالات کی طرف۔

تو امام سمعانیؒ نے الانساب میں یہ روایت عباد بن یعقوب کے ترجمے میں نقل کی ہے۔

اب یہاں پھر سے یہ ثابت ہو گا کہ یہ مجہول یا تو جاہل ہے یا خاٸن۔

کیونکہ امام سمعانیؒ نے یہ روایت اس کے منکر الحدیث ہونے پر دلالت کے طور پر نقل کی ہے کیونکہ انہوں نے اس کے ترجمے میں امام ابن حبانؒ کی جرح نقل کی کہ ”یہ رافضی تھا اور رافضیت کی دعوت دیتا تھا اور اس نے مشہور راویوں سے بہت سی منکر روایات نقل کی ہیں،اور یہ ترک ہونے کا مستحق ہے،(اور اس پر مثال دینے کے لۓ اس کی دو روایات نقل کی ہیں کہ)اس نے اپنی سند سے رسول اللہﷺ کا فرمان نقل کیا کہ اگر معاویہؓ کو میرے ممبر پر دیکھو تو قتل کر دینا،اور سمعانی نے ساتھ ہی دوسری روایت نقل کی کہ اس نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کے بارے میں روایت کیا کہ انہوں نے حضرت خالد بن ولیدؓ کو حکم دیا تھا کہ حضرت علیؓ کو قتل کر دیں لیکن بعد میں نادم ہو کر منع کر دیا“۔

(الانساب،جلد 3،صحفہ نمبر 95)

اس سے وہی بات ثابت ہو رہی ہے جو میں نے اوپر کہی تھی کہ یا تو یہ بندہ جاہل ہے یا خاٸن ہے کیونکہ اس نے اپنی جہالت یا خیانت کے زور پر اس راوی سے مروی منکر روایت کو صحیح روایت کہہ کر پیش کر دیا۔

اب آتے ہیں اس راوی پر مکمل جروحات کی طرف جس سے معلوم ہو گا کہ اس راوی کی روایت کو بطور دلیل پیش کرنا جاٸز ہے یا نہیں۔

امام ذھبیؒ فرماتے ہیں!

”عباد غالی شیعہ تھا اور بدعتیوں کا سردار تھا،(اور بخاری میں اس کی روایت ہونے پر وہی تفصیل بیان کی جو ہم نے اوپر بیان کی کہ)اس کی سند میں اس کے ہمراہ دوسرے شخص کا بھی تذکرہ ہے۔عباد بن یعقوب صحابہ کرامؓ کو بُرا بھلا کہتا تھا،ابن عدی کہتے ہیں کہ اس نے فضاٸل کے بارے میں ایسی روایات نقل کی ہیں جنہیں میں منکر کہتا ہوں،صالح جزرہ کہتے ہیں کہ عباد بن یعقوب حضرت عثمانؓ کو بُرا بھلا کہتا تھا میں نے اسے یہ کہتے ہوۓ سُنا کہ اللہ کی شان کے لاٸق نہیں کہ وہ طلحہؓ و زبیرؓ کو جنت میں داخل کرۓ(معازاللہ)(اس کے بعد امام ذھبیؒ نے اس کے غالی ہونے پر ایک واقعہ نقل کیا اور آخر پر لکھتے ہیں کہ)ابن حبان کہتے ہیں یہ شیعہ فرقے کا داعی تھا اس کے علاوہ اس نے مشہور راویوں کے حوالے سے منکر روایات نقل کی ہیں اس کی وجہ سے یہ متروک ہونے کا مستحق قرار پاتا ہے،(اور اس سے منکر روایات مروی ہونے پر دلیل دینے کے لۓ کہتے ہیں کہ)یہی وہ شخص ہے جس نے حضرت عبداللہؓ کے حوالے سے نبیﷺ کا یہ فرمان نقل کیا کہ ”جب تم معاویہؓ کو میرے ممبر پر دیکھو تو اسے قتل کر دینا(معازاللہ)“۔

(میزان الاعتدال،جلد 4،صحفہ نمبر 62،63)

اس کے بعد امام ذھبیؒ نے اس کو اپنی کتاب ”دیوان الضعفا“ میں شامل کیا اور اس پر ابن حبانؒ کی جرح نقل کی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ راوی امام ذھبیؒ کے نزدیک سخت ضعیف و غالی رافضی ہے“۔

(دیوان الضعفا والمتروکین،صحفہ نمبر 208)

امام ابن جوزیؒ نے بھی اس کو اپنی کتاب ”کتاب الضعفا“ میں شامل کیا اور اس پر امام ابن حبانؒ کی جرح نقل کی کہ!

”یہ رافضی ہے اور رافضیت کی طرف دعوت دیتا تھا اور اس نے مشہور راویوں کے حوالے سے منکر روایات نقل کی ہیں جس وجہ سے یہ متروک ہونے کا مستحق ہے،اور ابن عدیؒ کا قول نقل کیا کہ اس سے اہلبیت کے فضاٸل میں بہت سی منکر روایات منقول ہیں“۔

(کتاب الضعفا والمتروکین للابن جوزی،جلد 2،صحفہ نمبر 77)

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ راوی امام ابن جوزیؒ کے نزدیک بھی سخت ضعیف تھا۔

امام ابن حبانؒ نے خود بھی اس کو اپنی ”المجروحین“ میں شامل کیا اور کہتے ہیں کہ!

”یہ رافضی تھا اور رافضیت کی طرف دعوت دیتا تھا اور اس نے مشہور راویوں کے حوالے سے منکر روایات نقل کی ہیں جس وجہ سے یہ متروک ہونے کا مستحق ہے،یہی وہ شخص ہے جس نے اپنی سند سے نبیﷺ کا یہ فرمان نقل کیا کہ ”جب تم معاویہؓ کو میرے ممبر پر دیکھو تو اسے قتل کر دینا(معازاللہ)“۔

(کتاب المجروحین من المحدثین،صحفہ نمبر 163)

امام ابن حجرؒ اس کے بارے میں لکھتے ہیں کہ!

”دسویں طبقہ کا صدوق رافضی راوی ہے،بخاری میں اس کی حدیث مقروناً(جس کی تفصیل ہم اوپر بیان کر چکے) آٸی ہے،ابن حبان نے مبالغہ سے کام لیتے ہوۓ اسے مستحقِ ترک کہا ہے“۔

(تقریب التہذیب،جلد 1،صحفہ نمبر 426)

یہاں امام ابن حجرؒ سے خطا ہوٸی ہے کہ انہوں نے ابن حبانؒ کے قول کو مبالغہ کہا ہے کیونکہ باقی تمام محدثین نے ابن حبانؒ کا قول قبول کیا ہے۔

اب بعض رافضی ابن حجرؒ کے صدوق کہنے اور میزان الاعتدال میں اس کے بارے میں اس جملے کہ ”حدیث نقل کرنے میں سچا تھا“ کو لے کر بھڑکیں مارنے کی کوشش کر سکتے ہیں کہ اس کی روایت کو قبول کیا جاۓ گا۔

البتہ ان کی یہ بھڑکیں بھی کسی کام کی نہیں کیونکہ اس پر جرح مقدم ہے لیکن پھر بھی میں ان کی بھڑکوں کا جواب پہلے ہی دے دیتا ہوں کہ اہلسنت کے اصولِ حدیث کے مطابق ایسا شیعہ راوی جو غالی و بدعتی ہو اور اصحابِ رسولﷺ کو بُرا بھلا کہتا ہو(جیسا کہ عباد بن یعقوب کرتا تھا) تو ایسے راوی کی بیان کردہ وہ تمام روایات جو اس نے صحابہ کی تنقیص میں بیان کی ہوں سب کو رد کر دیا جاۓ گا،اور اس راوی پر تو ویسے بھی منکر روایات نقل کرنے کی جرح موجود ہے جس وجہ سے شیعوں کے بھڑکیں مارنے کے تمام راستے بند ہو جاتے ہیں۔

اور امام احمد بن حنبلؒ کا ایسی روایات لکھنے کو ناپسند کرنا اسی وجہ سے تھا کہ اس طرح کی منکر روایات کو نہ لکھا جاۓ،کہ ان سے عام لوگوں میں فتنہ پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔

ہم نے الحَمْدُ ِلله بفضل باری تعالیٰ یہ ثابت کیا کہ عباد بن یعقوب ایک بدعتی و غالی رافضی راوی ہے جو منکر روایات بیان کرتا تھا اور اس کی بیان کردہ یہ روایت بھی منکر ہے اور اس روایت کو بیان کرنا اس مجہول شخص کی جہالت یا خیانت کے علاوہ کچھ نہیں۔

دُعا ہے کہ اللہ ہم سب کو اس فتنہِ رافضیت سے محفوظ رکھے اور ان لوگوں کو حق سننے و سمجھنے کی توفیق عطا فرماۓ۔

اپنا تبصرہ لکھیں