صدیقِ اکبر أمیر المؤمنین یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں

تحقیق فائز علی خاں الحنفی

الحمد لله رب العالمين والصلاة والسلام على اشرف الانبياء والمرسلين وعلى آله وصحبه أجمعين أما بعد ۔

رافضیوں کا یہ عتراض ہوتا ہے کہ صدیقِ اکبر أمیر المؤمنین یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں یعنی وہ یہ کہنا چاہتے ہیں اور کچھ کہتے بھی ہیں کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ صدیقِ اکبر ہو ہی نہیں سکتے وہ صدیق ہی نہیں ہے ۔

اور وہ ابن ماجہ سے روایت پیش کرتے ہیں کہ جس کے الفاظ یہ ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا میں اللہ کا بندہ اور اس کے رسول ﷺ کا بھائی ہوں اور میں صدیق اکبر ہوں میرے بعد اس فضیلت کا دعویٰ جھوٹا شخص ہی کرے گا یعنی جو یہ دعویٰ کرے گا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بعد وہ جھوٹا ہوگا تم اس اس روایت کا تحقیقی جائزہ لیں گے ملاحظہ فرمائیں ۔

امام ابو عبداللہ محمد بن یزید بن ماجہ (ت ٢٧٣ هـ) رحمہ اللہ فرماتے ہیں ۔
“حدثنا محمد بن إسماعيل الرازي، حدثنا عبيد الله بن موسى، انبانا العلاء بن صالح، عن المنهال، عن عباد بن عبد الله، قال، قال علي: “انا عبد الله، واخو رسوله صلى الله عليه وسلم، وانا الصديق الاكبر لا يقولها بعدي إلا كذاب، صليت قبل الناس بسبع سنين”
ترجمہ:
عباد بن عبداللہ کہتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا میں اللہ کا بندہ اور اس کے رسول اکرم ﷺ کا بھائی ہوں اور میں صدیق اکبر ہوں میرے بعد اس فضیلت کا دعویٰ جھوٹا شخص ہی کرے گا میں نے سب لوگوں سے سات برس پہلے نماز پڑھی ۔
📕سنن ابن ماجه – باب فى فضائل اصحاب رسول الله ﷺ – باب فضل علي بن أبي طالب رضي الله عنه – ح ۱۲۰ ۔

روایت کی اسنادی حیثیت ملاحظہ کریں مذکورہ روایت قابلِ احتجاج نہیں ہے کیونکہ اس روایت میں دو علتیں موجود ہیں پہلا راوی عبیداللہ بن موسیٰ اور دوسرا (مرکزی) راوی عباد بن عبداللہ اسدی کوفی ہے ۔

پہلا راوی :
عبید اللّٰه بن موسیٰ العیسيٰ الکوفي ۔

امام شمس الدین عثمان الذه‍بی (ت ٧٤٨ هـ) رحمہ اللہ فرماتے ہیں ۔
“شیخ البخاري ثقة في نفسه؛ لكنه شيعي متحرق”
یہ امام بخاری رحمہ اللہ کے استاد ہیں اور اپنی ذات کے اعتبار سے ثقہ ہیں لیکن یہ شیعہ اور جلنے والا شخص ہے ۔
“وقال أبو داود: كان شيعياً متحرقاً”
امام ابوداؤد رحمہ اللہ کہتے ہیں یہ شیعہ تھا اور جلنے والا شخص تھا ۔
“وروى الميموني: عن أحمد: كان عبيدالله صاحب تخليط، حدث بأحاديث سوء، وأخرج تلك البلايا؛ وقد رأيته، مكة فما عرضت له وقد استشار محدث أحمد بن حنبل في الأخذ عنه فنه‍اه”
میمونی کہتے ہیں امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ عبیداللہ اختلاط کا شکار ہو جاتا تھا اس نے غلط روایات بیان کی ہیں اور اس نے جھوٹی روایات بیان کی ہیں میں نے اسے مکہ میں دیکھا تھا اور میں اس سے نہیں ملا ، ایک مرتبہ ایک محدث نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے اس سے روایات نقل کرنے کے بارے میں مشورہ کہا تو امام احمد رحمہ اللہ نے اسے منع کردیا ۔
📕میزان الاعتدال فی نقد الرجال – ج ۵ ص ۵١ برقم ۵٤٠۵ ۔

اور اہلسنت کے اصولِ حدیث کے مطابق ایسا ثقہ شیعہ راوی جو بدعتی ہو اس کی ہر وہ روایت ناقابلِ قبول ہے جو اس کے مذہب کو تقویت دیتی ہو ۔

دوسرا (مرکزی) راوی :
عباد بن عبدالله الاسدي الكوفي ۔

امام ابو الفرج ابن الجوزی الحنبلی (ت ۵٩٧ هـ) رحمہ اللہ نے اپنے کتاب الموضوعات میں اس روایت کو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں ۔
“وھذا موضوع والمتھم به عباد بن عبدالله”
یہ من گھڑت روایت ہے اس میں جھوٹ بولنے والا عباد بن عبداللہ ہے ۔
📕الموضوعات – ج ۱ ص ۳٤١ ۔

امام شمس الدین عثمان الذھبی رحمہ اللہ المستدرك الحاکم کی تلخیص میں اس پر کیا حکم لگاتے ہیں ۔
“قلت: کذا قال وھو علی شرط واحد منھما بل ولا ھو بصحیح بل حدیث باطل فتدبرہ، وعباد قال ابن المديني: ضعيف”
(ذھبی) میں یہ کہتا ہوں امام حاکم رحمہ اللہ نے جس طرح کہا ہے یہ روایت شیخین کی شرط پر صحیح ہے مگر حقیقت میں یہ روایت ان دونوں میں سے کسی ایک کی شرط پر بھی نہیں ہے بلکہ یہ دوایت صحیح ہی نہیں ہے ، یہ حدیث باطل ہے ، اور عباد کے بارے میں ابن مدینی رحمہ اللہ کہتے ہیں یہ ضعیف ہے ۔
📕المستدرك علی الصحیحین تلخیص الذه‍بي – ج ٣ ص ١٢٩ ح ٤٦٤٨ ۔

محمد ناصر الدین البانی (ت ١٤٢٠ هـ) سنن ابن ماجہ کی تخریج میں اس پر کیا حکم لگاتے ہیں ملاحظہ فرمائیں ۔
“باطل: وعباد بن عبدالله ضعيف”
یہ روایت باطل ہے اور عباد بن عبداللہ ضعیف ہے ۔
📕ضعيف سنن ابن ماجه – ص ۱٤ برقم ٢٤ ۔

شيخ شعيب الأرنؤوط الحنفی (ت ١٤٣٨ هـ) سنن ابن ماجہ کی تخریج میں اس پر کیا حکم لگاتے ہیں
“إسناده ضعيف”
اس کی سند ضعیف ہے ۔
📕سنن ابن ماجه ت الأرنؤوط – ج ۱ ص ۸۷ ح ۱۲۰ ۔

امام قدامہ المقدسی الحنبلی (ت ٦٢٠ هـ) رحمہ اللہ اپنی کتاب علل الخلال میں امام الاثرم (رحمہ اللہ) کا یہ قول نقل فرماتے ہیں کہ جب امام احمد بن حنبل (رحمہ اللہ) سے علی رضی اللہ عنہ کی حدیث کے بارے میں پوچھا “أنا عبد الله وأخو رسوله وأنا الصديق الأكبر” اس پر امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا ۔
“فقال: اضرب عليه ؛ فإنه حديث منكر”
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے کہا اسے دور کرو یہ ایک منکر حدیث ہے ۔
📕المنتخب من علل الخلال – ص ۲۰٤ رقم ١١٤ ۔

امام شمس الدین عثمان الذھبی رحمہ اللہ اپنی کتاب میزان الاعتدال میں اس روایت کو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں ۔
“قلت: ھذا کذب علی علي”
(ذھبی) میں یہ کہتا ہوں یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف جھوٹی بات منسوب کی گئی ہے ۔
📕میزان الاعتدال فی نقد الرجال – ج ٤ ص ٤٩ برقم ٤١٣١ ۔

امام ابو جعفر العقيلی المكی (ت ۳۲۲ هـ) رحمی اللہ اپنی کتاب الضعفاء میں اس روایت کو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں ۔
“الرواية في ه‍ذا فيه‍ا لين”
اس روایت میں کمزوری ہے ۔
📕الضعفاء الكبير – ص ۸٨٦ برقم ١١٢٢ ۔

امام تقي الدين ابن تيميہ الحرانی (ت ٧٢٨ هـ) رحمہ اللہ اپنی کتاب منھاج السنہ میں اس روایت کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں ۔
“ھو کذب ظاھر”
یہ واضح جھوٹ ہے ۔
📕منه‍اج السنة النبوية – ج ۷ ص ٤٤٤

اپ نے جیسے دیکھا کہ محدثین نے اس روایت پر کیا حکم لگایا ہے اور اس روایت کی کیا حیثیت ہے یہ روایت موضوع و منگھڑت ہے اب اس سند میں جو مرکزی راوی ہے عباد بن عبداللہ اسکے بارے میں امام بخاری و دیگر محدثین کیا فرماتے ہیں ملاحظہ فرمائیں ۔

امام محمد بن اسماعیل البخاری (ت ٢۵٦ هـ) رحمہ اللہ فرماتے ہیں ۔
“عباد بن عبدالله الأسدى؛ فيه نظر”
عباد بن عبداللہ الاسدی میں نظر ہے ۔
📕التاریخ الکبیر – ج ٦ ص ٣٢ برقم ١۵٩٤ ۔

امام بخاری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ عباد بن عبداللہ میں نظر ہے اور امام بخاری کا فیہ نظر کہنا اسکا مطلب کیا ہے یہ کس مقام پر امام بخاری کہتے ہیں اسکی شرح کرتے ہوئے امام شمس الدین عثمان الذھبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ۔
“وكذا عادته إذا قال: فيه نظر بمعنى أنه متهم، أوليس بثقة فهو عنده أسوأ حالا من الضعيف”
(امام بخاری رحمہ اللہ) کی یہ عادت ہے جب وہ کسی راوی کے بارے میں فیه نظر کہتے ہیں جو ان کے نزدیک مته‍م یا غیر ثقه ہو ، گویا وہ راوی ان کے نزدیک ضعیف سے زیادہ سخت ہے ۔
📕الموقظة في علم مصطلح الحديث – ص ٨٣ ۔

حافظ ابن حجر العسقلانی الشافعی (ت ٨۵٢ ھـ) رحمہ اللہ فرماتے ہیں ۔
“عباد بن عبدالله الأسدي: ضعيف من الثالثة”
عباد بن عبداللہ اسدی تیسرے طبقہ کا ضعیف راوی ہے ۔
📕تقریب الته‍ذیب – ج ١ ص ٤٢٤ برقم ٣١٣٦ ۔

امام ابو الفرج ابن الجوزی الحنبلی رحمہ اللہ نے عباد بن عبداللہ کو اپنی الضعفاء میں شامل کرکے نقل فرماتے ہیں ۔
“قال ابن المديني: ضعيف الحديث”
امام علی بن مدینی رحمہ اللہ کہتے ہیں یہ ضعیف الحدیث ہے ۔
📕الضعفاء والمتروکين – ج ٢ ص ٧۵ برقم ١٧٨٠ ۔

لہذا یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ اس میں راوی عباد بن عبداللہ ضعیف راوی ہے ۔

🖋️فائز علي خان الحنفي ۔