شیخین رضی اللہ عنہم نبی ﷺ کے جنازہ اور تدفین کے وقت موجود نہ تھے۔ اسی لئے اہل سنت والجماعت کی احادیث کی کتابوں سے ضعیف اور مردود اثر نقل کرتے ہیں حالانکہ ان کی اپنی کتابوں سے شیخین کا رسول اللہ ﷺ کے جنازہ میں شریک ہونا ثابت ہے۔ اسی سلسلے میں روافض ایک حدیث نقل کرتے جو کہ اہل کفار کی سب سے مضبوط دلیل تصور کی جاتی ہے۔ وہ روایت یہ ہے
ابن نمیر نے ھشام بن عروۃ سے سنا، انہوں نے اپنے والد سے کہ ابوبکر اور عمر رسول اللہ ﷺ کی تدفین کے وقت موجود نہ تھے بلکہ وہ دونوں انصار کے پاس تھے اور رسول اللہ ﷺ کو ان کے واپس آنے سے پہلے دفن کیا جا چکا تھا۔
سند کی تحقیق: ھشام بن عروۃ کا پورا نسب اس طرح ہے۔ هشام بن عروة بن الزبير بن العوام رضی اللہ عنہ دیکھیےتقریب التھذیب 7302
جس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ سند منقطع ہے کیونکہ ھشام بن عروۃ نے اپنے باپ عروۃ بن زبیر سے یہ بات سنی ہے اور آگے زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ یا کسی اور صحابی کا واسطہ گر گیا ۔ عروۃ بن زبیر کا رسول اللہ ﷺکے جنازہ میں موجود ہونا اور صحابی رسول ﷺ ہونا ثابت نہیں کیونکہ وہ تو آپ ﷺ کی وفات کے بعد سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کے دور میں پیدا ہوئے۔ دیکھیے تقریب التھذیب 4561 ۔
خلاصہ کلام یہ کہ اس روایت کی سند منقطع ہونے کی وجہ سے یہ ضعیف ہے اور اس سے استدلال باطل ہے الحمد للہ
اس روایت پر جرح کرنے کے بعد میں ضروری سمجھتا ہوں کہ شیخین کی رسول اللہ کے جنازے میں تدفین شیعہ کتابوں سے ہی ثابت کر دی جائے۔
اب اصول کافی میں لکھا ہے رسول اللہ ﷺ کی نماز جنازہ میں مہاجرین اور انصار نے شرکت کی۔
شیعہ بھی یہ مانتے ہیں کہ مہاجرین میں شیخین رضی اللہ عنہم آتے ہیں۔ تو اگر شیخین مہاجرین میں آتے اور غالی رافضیوں کے بقول تمام صحابہ الیکشن میں مصروف تھے تو یہ کافی کا یعقوب کلینی رافضی کیا لکھ گیا کہ مہاجرین اور انصار نے جوق در جوق نماز جنازہ پڑھی؟ دوسرا شیخین رضی اللہ عنہم کا جنازہ میں موجود ہونا اور اس کی تفصیل ملا باقر مجلسی رافضی نے بھی لکھی ہے حیات القلوب اور جلاء العیون میں۔ افسوس رافضیوں کو گھر کا پتا نہیں اور باہر پنگے لیتا پھرتا ہے۔
اہل سنت کی کتابوں میں بے شمار ثبوت موجود ہے لیکن میں فی الحال ایک ہی روایت لگاؤں گا۔
1)اصول کافی میں روایت ہے کہ
امام باقر سے پوچھا گیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا جنازہ کیسے پڑھا گیا تو آپ نے فرمایا جب حضرت علی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو غسل دے چکے تو حضرت علی نے دس دس آدمی کمرے میں داخل کیے روایت کے آخر میں ہے کہ اہل مدینہ اور اسکے اردگرد کوئی بھی بھی ایسا نا رہا جس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا جنازہ نا پڑھا ہو۔
( اصول کافی جلد سوم ص 26)
(2) امام جعفر صادق سے روایت ہے کہ حضرت عباس نے امیر المومنین سے کہا کہ لوگ اس نیت سے اکٹھے ہوے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جنت البقیع میں دفن کیا جائے اور ان میں سے کوئی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے جنازہ کی امامت کرے حضرت علی باہر آئے اور فرمایا حضور صلی اللہ علیہ وسلم جسطرح زندگی میں خلق کےامام تھے وصال فرماجانے کے بعد بھی امام ہیں (یعنی کوئی بھی انکے جنازے کی امامت نہیں کروا سکتا) روایت کے آخر میں ہے کہ حضرت علی نے نماز جنازہ پڑھی پھر مہاجر و انصار نے کو کہا کہ دس دس آئیں اور جنازہ پڑھ کر باہر نکل جائیں۔
(اصول کافی جلد سوم ص 27)
مذکورہ بالا حوالے سے جاہل قسم کے مخالفین کا یہ اعتراض بھی رفع ہوجاتا ھے کہ مولا علی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا جنازہ پڑھایا جبکہ حضرت علی فرما رھے ہیں کہ کوئی بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا امام نہیں بن سکتا۔
(3) کلینی نے بسند معتبر امام باقر سے روایت بیان کی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا جب وصال ہوا تو ملائکہ و تمام مہاجر و انصار صحابہ رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا جنازہ پڑھا۔
(اصول کافی جلد سوم ص 27)
(4) مخالفین کی بہت ہی مشہور کتاب ھے احتجاج طبرسی اس میں لکھا ھے کہ
پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ دس دس صحابہ کو کمرے میں داخل کرتے رہے وہ جنازہ پڑھتے رہے اور نکلتے رہے یہاں تک کہ مہاجر و انصار صحابہ اکرام رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین میں کوئی بھی ایسا نہ رہا جس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز جنازہ نا پڑھی ہو۔
(احتجاج طبرسی جلد اول ص 104)
(5) ملا باقر مجسلی حیات القلوب میں لکھتا ھے پڑھا۔
کلینی نے بسند معتبر امام باقر سے روایت بیان کی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا جب وصال ہوا تو ملائکہ و تمام مہاجر و انصار صحابہ رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا جنازہ پڑھا۔
( حیات القلوب جلد دوم ص 1022)
(6) اسی روایت کو ملا باقر مجلسی جلاء العیون میں نقل کرتا ھے۔
کلینی نے بسند معتبر امام باقر سے روایت بیان کی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا جب وصال ہوا تو ملائکہ و تمام مہاجر و انصار صحابہ رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا جنازہ پڑھا۔
( جلاء العیون جلد اول ص 153)
مندرجہ بالا حوالہ جات سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوگئی کہ مخالفین کا اعتراض جہالت پر مبنی ھے اور تمام صحابہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا جنازہ پڑھا۔