جنگِ جمل اور جنگ صفین اور شھادت عثمان رض کا حقیقی پس منظر قسط دوم

 بسم الله الرحمن الرحیم

مقدمہ

قارئینِ کرام جیساکہ آپ سب اس بات سے بخوبی واقف ہونگے کہ یہودونصاریٰ ہمارے پیارے نبی حضرت محمدﷺ کی شان میں اکثر گستاخیاں کرتےرہتے  ہیں اورمختلف طریقوں سے مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرتےہیں، لیکن کسی مسلمان نے آج تک یہ جرأت نہیں کی کہ ان کے اس عمل کے جواب میں حضرت عیسیٰؑ، حضرت موسیٰؑ یا کسی اورنبیؑ کی شان میں کسی قسم کی گستاخی کرے، کیونکہ تمام انبیاءؑ کوبرحق سمجھتے ہوئے ان کی تعظیم واحترام ہمارے ایمان کااہم ترین جُزہے۔

بالکل اسی طرح موجودہ دورکے روافض اوراسلام دشمن عناصر ہمارے صحابہ کرامؓ کی شان میں اکثر گستاخیاں کرتے رہتے ہیں اور مختلف طریقوں سے اہلسنت والجماعت کے جذبات کو مجروح کرتےہیں، لیکن کسی سنی مسلمان نے آج تک یہ جرأت نہیں کی کہ ان کے اس عمل کے جواب میں اہل بیت میں سےکسی کی شان میں کسی قسم کی گستاخی کرےحالانکہ جس طرح احادیث وتواریخ کی کتابوں میں مشاجرات صحابہؓ کاذکرملتاہے وہیں بالکل اسی طرح مشاجرات اہل بیتؓ کابھی ذکرملتاہے، لیکن اہلسنت والجماعت سے تعلق رکھنے والے کسی مسلمان نے آج تک ایسی کسی روایت کوبیان کرنے کی جسارت نہیں کی، کیونکہ تمام صحابہ کرامؓ اوراہل بیت ؓ کوبرحق سمجھتے ہوئے ان کی تعظیم واحترام ہمارے ایمان کااہم ترین جزہے۔

اس کے برعکس اگرہم کچھ دیر کے لئے یہ تسلیم بھی کرلیں کہ صحابہ کرامؓ میں سے بعض سے بہت بڑی غلطیاں اورگناہ سرزدہوئے ہیں توبھی آج کل کے اس پُرفتن دورمیں جہاں امت مسلمہ گمراہیت کے دل دل میں دھنسی چلی جارہی ہے اوردنیابھرمیں مسلمان ظلم وجبرکاشکار ہیں، ایسے نازک وقت میں مشاجرات صحابہؓ کی بحث کوعام مسلمانوں کے درمیان زیربحث لاناعقل سے عاری ہے۔ 

تعجب کی بات تویہ ہے کہ ایسا کرنے والے لوگ اپنے ان مضموم مقاصد کو دین کی خدمت اورامت مسلمہ کو متحد کرنے کانام دیتے ہیں اوریہ نعرہ لگاتے ہیں کہ ہم توحق بات بیان کرتے ہیں چاہے کسی کوبُری لگے۔ حالانکہ یہ بات تو صحیح ومرفوع حدیث اورحضرت علیؓ کے قول سے بھی ثابت ہے کہ حق بات بھی ہرجگہ، ہرموقع پراورہر کسی کے سامنے بیان کرنے والی نہیں ہوتی، اسے لئے شریعت نے ہمیں حکم دیاہے کہ لوگوں کی سمجھ کے مطابق ان کے سامنےبیان کیاجائے۔ اس کے باوجود بھی ایسے نازک وقت میں جہاں مسلمان دن بہ دن فرقوں میں بٹتے چلے جارہے ہیں اورامت مسلمہ کی متفقہ قوت کوکمزورکرتے چلے جارہے ہیں، مشاجرات صحابہؓ جیسے نازک وحساس موضوع کوزیربحث لایاجارہاہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج ہرجاہل اورکم علم وکم عقل شخص جسے غسل اوروضوع کے فرائض تک نہیں معلوم اورنہ ہی روزہ نمازکے مسائل کی کچھ خبرہے، دین کاٹھیکیدار بن کراُن مبارک حستیوں کے خلاف غلاظت وزہراُگل رہاہے، جن معترب حستیوں کو اﷲتعالیٰ نے قرآن میں’’رحماء بینہم‘‘کے لقب سے مخاطب کیا، جنہیں نبیﷺنے اپنے فرمان میں اس امت کے بہترین لوگ قراردیا۔ ایسے مبارک لوگوں کی ایک ایک غلطی اورگناہ کوایسے لوگ تنقید کانشانہ بنارہے ہیں جن کااپنادامن ایسے لاکھوں کبیرہ گناہوں اورغلطیوں سے بھراپڑاہے۔

امت مسلمہ کے نوجوانوں میں تیزی سے پھیلتے ہوئے اس بدترین بگاڑکوروکنے کے لئے اورایسے اسلام دشمن عناصرکاحقیقی چہرہ بے نقاب کرنے کے لئے میں نے یہ فیصلہ کیاکہ اس موضوع پر انٹرنیٹ پرایک مدلل اورجامع تحقیق پیش کی جائےتاکہ ہماری موجودہ اورآنے والی نسلیں حق اورباطل میں طمیزکرسکیں۔ تاکہ قیامت والے دن جب ہم سے اس متعلق سوال کیاجائے گاتوہم فخر سے کہہ سکیں کہ اے ربِّ کائنات، ہم آگ بجھانے والوں میں سے تھے، لگانے والوں میں سے نہیں تھے۔ ہم محمدﷺکے ساتھیوں کادفاع کرنے والوں میں سے تھے، محمدﷺکے ساتھیوں کوبدنام کرنے والوں میں سے نہیں تھے۔ ہم تیری آیات پرعمل کرنے والوں میں سے تھے، تیری آیات صرف پڑھ کرسنانے والوں میں سے نہیں تھے۔

ارشادباری تعالیٰ ہے کہ: ’’وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ‘‘۔ ’’اور جو مہاجرین اور انصار سابق اور مقدم ہیں اور جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیرو ہیں اللہ ان سب سے راضی ہوا اور وہ سب اس سے راضی ہوئے اور اللہ نے ان کے لئے ایسے باغ مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے یہ بڑی کامیابی ہے‘‘۔ [سورۃ التوبہ: ۱۰۰]

جیساکہ آپ تمام مسلمان اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ جنگ جمل اورجنگ صفین کی اصل وجہ وابتداءشہادتِ خلیفہ ثالث امیرالمومنین حضرت عثمان غنی رضی اﷲعنہ سےہوئی، جس کے نتیجہ میں مسلمانوں کی دو الگ جماعتیں دوالگ فکرونظریات کے تحت وجود میں آئیں۔ لہٰذا جنگ جمل وصفین کا حقیقی پس منظرجاننے کےلئے حضرت عثمان غنی رضی اﷲعنہ کی شہادت کی اصل وجوہات اورحالات کاجاننانہایت ضروری ہوگا۔

خلیفہ ثالث امیرالمومنین حضرت عثمان غنی رضی اﷲعنہ کی مظلومانہ شہادت کے اصل اسباب

امیرالمومنین سیدناحضرت عثمان غنی رضی اﷲعنہ کی شہادت سے قبل تمام مسلمان آپس میں متفق ومتحد تھےاوران کے درمیان کوئی اختلاف نہ تھالیکن حضرت عثمانؓ کی شہادت کے فوراًبعدمسلمانوں کی صفوں میں اختلاف وانتشاربرپاہوگیا۔ مسلمانوں کی متفقہ قوت جہاں دشمن اسلام کومٹانے میں صرف ہوتی تھی وہ باہمی آویزش واختلاف کی نظرہوگئی۔

حضرت عثمانؓ کی خلافت کے آخری ایّام  میں بعض لوگوں کوحضرت عثمانؓ کے چندمنتخب لوگوں سے بعض انتظامی امور میں کچھ شکایات پیداہوگئیں۔ جس کابھرپورفائدہ شرپسندافراداوراسلام دشمن قوتوں نے اٹھاتے ہوئےابن السوداء(یعنی عبداﷲابن سبا) نامی ایک یہودی بصورت نومسلم منافق کومسلمانوں کی صفوں میں شامل کردیا۔

موجودہ دورکے ایک یوٹیوب چینل چلانے والےنام نہادمفتی جناب انجنیئرعلی مرزاصاحب نے اپنی ناقص تحقیق اور کم علمی کے سبب اپنے ایک ریسرچ پیپرمیں چنداحادیث پیش کرکےاورحضرت ابوذرغفاری رضی اﷲعنہ کےحالات پراپنے ایک یوٹیوب بیان میں مسلمانوں کوحضرت عثمانؓ سے بدگمان کرنے کی ناکام کوشش کی ہے اوریہ تاثردیاہےکہ امیرالمومنین حضرت عثمان غنی رضی اﷲعنہ کی شہادت کے پیچھےدراصل عبداﷲابن سبا (یہودی) کی سازش نہیں تھی بلکہ حضرت عثمانؓ کااپنے رشتہ داروں(یعنی حضرت عثمانؓ کے سوتیلے بھائی حضرت ولیدبن عقبہؓ) کوحکومتی عہدےسے نوازنا، نعوذباﷲحضرت علیؓ کی طرف سےحج تمتع پرپیش کی جانے والی احادیث رسولﷺ کوقبول کرنے سے انکاراورآپؓ کے چندغلط فیصلوں کانتیجہ تھا۔ انجنیئرصاحب نے اپنے ریسرچ پیپرمیں حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ کے درمیان حج تمتع کے مسئلے پرہونے والے اختلاف اورحضرت ولید بن عقبہؓ کے بارے میں شراب نوشی کے الزام کی ایک ادھوری روایت کوذکرکیاتاکہ عام عوام کویہ لگے کہ صحابہ کرام ؓ خصوصاً حضرت علیؓ اور حضرت حسنؓ بھی حضرت عثمانؓ کی خلافت سے خوش نہ تھے اورحضرت عثمانؓ مظلومانہ طورپرقتل نہیں کیئے گئے تھےبلکہ مسلمانوں کےباہمی اختلافات کی بناپرانہیں قتل کیاگیاتھا۔

انجنیئرعلی مرزاصاحب اپنے ریسرچ پیپرمیں لکھتے ہیں: ’’نوٹ: دراصل سیدناحسن بن علیؓ کوولیدبن عقبہ جیسے بدکردارشخص کوگورنری کے عہدے پرفائزکرنے پرشدید غصہ بھی تھااوروہ بنواُمیہ اوربنوہاشم کےدرمیان ہونے والے ممکنہ قبائلی تعصب سے بھی اجتناب کرناچاہتے تھے‘‘۔ آگے لکھتے ہیں: ’’نوٹ: ولیدبن عقبہ، سیدناعثمانؓ کاسوتیلابھائی اوران کی طرف سے کوفہ کاگورنرتھا۔ اسکی غیراخلاقی حرکتوں اوراسی طرح سیدناعثمانؓ کی جانب سے (تالیف قلب کیلئے) لگائے گئےبنواُمیہ ہی کے چندرشتہ دارگورنروں کے افعال کی وجہ سے بعض صحابہ کرامؓ خلیفہ ثالث امیرالمومنین سیدناعثمان بن عفانؓ سے ناراض تھےاوربلآخریہی معاملات سیدناعثمانؓ کی مظلومانہ شہادت کاسبب بنے۔ شہادت عثمانؓ کوعبداﷲابن سبایہودی ملعون کے ایک بالکل الگ تھلگ فتنے سے جوڑدینادراصل صحیح الاسناداحادیث اورمستندتاریخ سے ناواقفیت اورفرقہ وارانہ کتمان حق کانتیجہ ہے‘‘۔ (واقعہ کربلاکاحقیقی پس منظر: ریسرچ پیپرنمبر۵-B، 1اکتوبر،2017)

انجنیئرعلی مرزاصاحب کااپنے سگے بھائیوں ( شیعوں) کی حمایت میں پیش کیئے گئے ان جھوٹے الزامات کاردہم اسلامی تاریخ کی سب سے قدیم کتاب تاريخ الطبری، مستندتاریخی روایات (جنہیں جلیل القدرائمہ محدثین کی توثیق حاصل ہے) اورانجنیئرصاحب کے اپنے استاد حافظ زبیرعلی زئی مرحوم کی کتابوں سے پیش کریں گےکہ حضرت عثمان غنی رضی اﷲعنہ کی شہادت دراصل ابن السوداء(یعنی عبداﷲابن سبایہودی)کی سازش کاہی نتیجہ تھی، لیکن اس سے پہلے ہم انجینئرعلی مرزاکے اس الزام کا تسلی بخش جواب دیں گے جوانہوں نے صحابی رسول حضرت ولیدبن عقبہ رضی اﷲعنہ پرلگائےہیں۔

انجنیئرعلی مرزاصاحب کےاس الزام کاجواب کہ: ’’سیدناعثمانؓ کی جانب سے (تالیف قلب کیلئے) لگائے گئےبنواُمیہ ہی کے چندرشتہ دارگورنروں کے افعال کی وجہ سے بعض صحابہ کرامؓ خلیفہ ثالث امیرالمومنین سیدناعثمان بن عفانؓ سے ناراض تھےاوربلآخریہی معاملات سیدناعثمانؓ کی مظلومانہ شہادت کاسبب بنے‘‘امام بخاریؓ کی کتاب تاریخ صغیرکی درج ذیل روایت میں ہی موجود ہے جس میں حضرت عثمان غنیؓ نے اہل بصرہ، اہل کوفہ، اہل شام اوراہل مصرسے ان کی مرضی کے مطابق گورنروں کی تقرری کااعلان فرمایا۔

’’حَدثنِي مُحَمَّد بن أبي بكر الْمقدمِي ثَنَا حُصَيْن بن نمير ثَنَا جُبَير حَدَّثَنِي جُهَيْمٌ الْفِهْرِيُّ قَالَ أَنَا شَاهِدٌ الأَمْرَ كُلَّهُ قَالَ عُثْمَانُ لِيَقُمْ أَهْلُ كُلِّ مِصْرٍ كَرهُوا صَاحبهمْ حَتَّى أعزله عَنْهُم وأستعمل الَّذين يُحِبُّونَ فَقَالَ أَهْلُ الْبَصْرَةِ رَضِينَا بِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَامِرٍ فَأَقَرَّهُ وَقَالَ أَهْلُ الْكُوفَةِ اعْزِلْ عَنَّا سَعِيدَ بْنَ الْعَاصِ وَاسْتَعْمِلْ أَبَا مُوسَى فَفَعَلَ وَقَالَ أَهْلُ الشَّامِ قَدْ رَضِينَا بِمُعَاوِيَةَ فأقره وَقَالَ أهل مصر اعزل عَنَّا بن أَبِي سَرْحٍ وَاسْتَعْمِلْ عَلَيْنَا عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ فَفَعَلَ فَدَخَلَ عَلَيْنَا أَبُو عَمْرِو بْنُ بُدَيْلٍ الْخُزَاعِيُّ وَالْبَجَوِيُّ أَوِ التَّنُوخِيُّ فَطَعَنَهُ أَبُو عَمْرٍو فِي وَدَجِهِ وَعَلاهُ الآخَرُ بِالسَّيْفِ فَقَتَلاهُ فَأَخَذَهُمْ مُعَاوِيَة فَضرب أَعْنَاقهم‘‘۔ ’’یعنی (ایک دفعہ کاواقعہ ہےکہ) حضرت عثمانؓ نے فرمایاکہ جن مقامات کے لوگ اپنے حاکم کوناپسندکرتے ہوں وہ کھڑے ہوجائیں میں (ان کے تقاضے کی بناپر) ان کے حاکم اوروالی کومعزول کردوں گااورجس شخص کووہ پسندکرتے ہوں اس کوعامل وحاکم بنادوں گا۔ (اس اعلان کے بعد)

۱۔ اہل بصرہ نے کہاکہ عبداﷲبن عامرؓ پرہم راضی ہیں۔ یہ ہمیں منظورہے توان کے لئے ابن عامرکوبرقراررکھا۔

۲۔ اورکوفہ والوں نے کہاہمارے ہاں سے سعیدبن العاصؓ کومعزول کردیجئے اورابوموسیٰ اشعریؓ کوحاکم بنادیجئے۔ حضرت عثمانؓ نے اسی طرح کردیا۔

۳۔ اہل شام نے کہاکہ ہم امیرمعاویہؓ کی حکومت پرراضی ہیں توحضرت عثمانؓ نے شام کے علاقہ کے لئے انہیں برقراررکھا۔

اہل مصر نے کہاکہ ہمارے ہاں عبداﷲبن سعدابی سرح کومعزول کرکے عمروبن العاصؓ کوعامل ووالی بنادیجئے۔ حضرت عثمانؓ نے اسی طرح کردیا‘‘۔ (التاریخ الصغیرللبخاری: ج۱، ص۱۰۹)

اس روایت سے انجنیئرعلی مرزاصاحب کے اس الزام کی واضح تردیدہوگئی کہ آپؓ نے بنواُمیہ کے اپنے رشتہ داروں کوگورنراورحاکم بنارکھاتھا جس پربعض صحابہ کرامؓ آپؓ سے ناراض تھے۔ اوریہاں یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ حضرت عثمانؓ کاکرداراس معاملے میں نہایت بے داغ تھا۔ آپؓ نے کامل دیانتداری کے ساتھ عوام کےاحساسات اورمفادات کوپوری طرح ملحوظ رکھا۔ کسی قسم کی جانبداری اورقبیلہ پرستی سامنے نہیں رکھی۔

اس روایت نے بڑےبڑے الجھاؤصاف کردیئےاوراس نوعیت کی بیشترداستانیں ختم کرکے انجنیئرصاحب جیسے معترضین کے منہ بندکرکےرکھ دیئے ہیں۔

مختصر یہ کہ اتنی عظیم ووسیع سلطنت میں صرف چار سے پانچ رشتہ داروں کوحاکم بنایاگیااوران میں سے بھی بعض حسب ضرورت ادلتے بدلتے بھی رہے۔ کیااسی کانام ہے حکومت کے تمام اختیارات ایک خاندان کے لئے جمع کردیئے گئے؟ قارئین کرام خود انصاف فرمادیں۔

یہاں اس اعتراض کاجواب دینانہایت ضروری ہوگاجس پرمعترضین یہ کہتے نظرآتے ہیں کہ: ’’عثمانؓ نے مسلمانوں کے تمام اُمورکاایسے کارندوں کوحاکم بنادیاجولوگ حکومت کرنے کی صلاحیت اورلیاقت نہیں رکھتے تھے۔ حتیٰ کہ ان میں سے بعض افراد سے فسق وفجورظاہر ہوااوربعضوں سے خیانتیں صادرہوئیں وغیرہ وغیرہ‘‘۔

ان حضرات میں ولیدبن عقبہؓ، سعدبن العاصؓ، عبداﷲبن عامربن کریزؓ، امیرمعاویہؓ، عبداﷲبن سعدبن ابی سرحؓ اورمروان بن الحکم ہیں۔

ان حضرات پریہ طعن ہے کہ: ’’ان لوگوں کوحضرت عثمانؓ نے حکومت کی ذمہ داریاں سپردکیں حالانکہ یہ لوگ حکومت کی اہلیت وصلاحیت نہیں رکھتے تھےبلکہ فاسق وحائن تھے۔ انہوں نے مسلمانوں کی حکومت کونقصان پہنچایا۔ ان کی وجہ سے دین کاتنزل ہوا، اسلام کی بربادی ہوئی اورجاہلی تعصب اورقبائلی دھڑے بندی ہوئیں اوریہی چیزحضرت عثمانؓ کے قتل کی اصل وجہ بنی‘‘۔

ان اعتراضات کے جواب سے پہلے ان افراد(صحابہ کرامؓ) میں سے ہرایک کی پوزیشن الگ الگ ملاحضہ فرمائیں اورساتھ میں یہ بھی کہ یہ کون اورکس طرح کے لوگ تھے؟ ان کاکردارکیاتھا؟ اوران کے سبب ملت اسلامیہ کوفائدہ ہوایانقصان؟ اسلام کی انہوں نے کتنی خدمات سرانجام دیں۔ اوریہ لوگ اسلامی سلطنت کے حق میں اہل ثابت ہوئے یانااہل؟کیاان لوگوں کی وجہ سے کوئی قبائلی عصبیت لوٹ آئی تھی؟ یایہ تمام الزامات مخالفین کے گھڑے ہوئے ہیں اورصرف پروپیگنڈاہے؟

ان اعتراضات کے جوابات دینے سے پہلے میں قارئین کرام کے سامنے یہ بات واضح کردیناچاہتاہوں کہ ہم اس بات کے ہرگزقائل نہیں ہیں کہ صحابہ کرامؓ خطاسے پاک ومبّراتھے، نہ انبیاءعلیہم السلام اورفرشتوں کی طرح گناہوں سے محفوظ تھے۔ بلکہ تمام صحابہ کرامؓ انسان تھے اورانسان سے ظاہرہے خطا سرزدہوناکچھ بعیدنہیں۔

اعتراض کرنے والے لوگوں نے عوام الناس کے سامنے ان افرادکے نقائص ومصائب تونشرکردیئے لیکن ان لوگوں کے کردارکےخوائص وخوبیاں بیان نہیں کی۔ حالانکہ جوشخص حق بات بیان کرنے والاہوتاہے اس کوتوایک شخص کے محاسن وقبائح دونوں پہلوپیش کرنے چاہیےلیکن معترضین یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان اشخاص کی خوبیاں بیان کردی گئیں تویہ لوگ اپنے مضموم مقاصد میں کبھی کامیان نہ ہوسکیں گے اورعامۃ المسلمین کوصحابہ کرامؓ سے کبھی بدگمان نہیں کرسکیں گےلہٰذا انہوں نے بُراپہلو بیان کرنے میں ہی اپنی عافیت سمجھی۔ لیکن ہم یہاں اس بات کی وضاحت بھی پیش کریں گے جن خامیوں کا یہ لوگ ذکرکرتے ہیں وہ حقیقت میں خامیاں نہیں بلکہ الزامات تھے، اوراگرکچھ خامیاں تھی بھی توان خامیوں کی تلافی کی جاچکی تھی اوران خامیوں پران کی دوسری خوبیاں غالب تھیں جن کوملحوظ نظررکھنانہایت ضروری ہے، کیونکہ میرے نبیﷺ کافرمان عالیشان ہے:

’’حَدَّثَنَا آدَمُ بْنُ أَبِي إِيَاسٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الأَعْمَشِ، قَالَ سَمِعْتُ ذَكْوَانَ، يُحَدِّثُ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم “لاَ تَسُبُّوا أَصْحَابِي، فَلَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِهِمْ وَلاَ نَصِيفَهُ‏”‏‏‘‘۔ ’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے اصحاب کو بُرا بھلامت کہو۔ اگر کوئی شخص احد پہاڑ کے برابر بھی سونا ( اللہ کی راہ میں ) خرچ کر ڈالے تو ان کے ایک مد غلہ کے برابر بھی نہیں ہو سکتا اور نہ ان کے آدھے مد کے برابر‘‘۔ (صحیح البخاری: ج۵، كتاب فضائل أصحاب النبى صلى الله عليه وسلم، باب قَوْلِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم ‏”لَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِيلاً‏” قَالَهُ أَبُو سَعِيدٍ، رقم الحدیث ۳۶۷۳)

اسی طرح رسول اﷲﷺنےایک اورجگہ ارشادفرمایا: ’’حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، مُحَمَّدُ بْنُ نَافِعٍ حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثَنَا سَيْفُ بْنُ عُمَرَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم “إِذَا رَأَيْتُمُ الَّذِينَ يَسُبُّونَ أَصْحَابِي فَقُولُوا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى شَرِّكُمْ” ‘‘۔’’رسول اﷲﷺنے ارشادفرمایا:  جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو میرے اصحاب کےبارے میں بُرا کہہ رہے ہیں تو کہو الله تمہارے شر پر لعنت کرے‘‘۔ (جامع الترمذی: ج۱، كِتَاب الْمَنَاقِبِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، رقم الحدیث۱۸۰۰)

’’حَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ عَمْرٍو الْعُكْبَرِيُّ، ثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ طَلْحَةَ التَّيْمِيُّ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عُوَيْمِ بْنِ سَاعِدَةَ، عَنْ أَبِيه، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى الله عَلَيْه وَسَلَّمَ قَالَ: إنَّ اللهُ اخْتَارَنِي وَاخْتَارَ لِي أَصْحَابًا فَجَعَلَ لِي بَيْنَهُمْ وُزَرَاءَ وأنْصَارًا وأصْهَارًا، فَمَنْ سَبَّهُمْ فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ لَا يُقْبَلُ مِنْه يَوْمَ الْقِيَامَةِ صَرْفٌ وَلَا ِعَدْلٌ ‘‘۔ ’’رسول اﷲﷺنے ارشادفرمایا: الله نے مجھے منتخب کیا اور میرے لیے میرے ساتھیوں کا انتخاب فرمایا، ان میں سے میرے کچھ وزراء بنائے، مددگار اور قرابت دار بنائے، بس جو انھیں بُرا کہے اس پر الله کی، الله کے فرشتوں کی، اور تمام انسانوں کی لعنت ہو، قیامت کے دن نہ اس کا فرض قبول کیا جائےگا  نہ نفل‘‘۔ (المعجم الکبیر:ج ١٧، ص١٤٠)

جن صحابہ کرامؓ پراعتراض کیاجاتاہے ان میں سب سے پہلانام حضرت ولیدبن عقبہ رضی اﷲعنہ کاہے جن کے بارے میں انجنیئرعلی مرزاصاحب نے بخاری ومسلم کی چنداحادیث کوبنیاد بناتے ہوئے اس قدرسنگین الزامات اوروہ بھی نہایت ہی گندی زبان استعمال کرتے ہوئے لگائے ہیں جن کااہلسنت والجماعت سے تعلق رکھنے والاکوئی مسلمان سوچ بھی نہیں سکتا۔ حالانکہ بخاری اور مسلم کی صحیح الاسناد روایات سے صرف اتناہی پتہ چلتا ہے کہ حضرت عثمان عنیؓ نے حضرت ولیدبن عقبہؓ کودو اشخاص کی گواہی پرشراب پینے کے جرم میں چالیس کوڑے لگوائے۔ اگرموصوف میں ذرابھی عقل وشعور اورشریعت کی سمجھ بوجھ ہوتی توموصوف الزام لگانے سے پہلے اس بات کی تحقیق کرتے کہ آیایہ الزام درست بھی تھایانہیں۔ جن صحابی رسول نے ایمان کی حالت میں رسول اﷲﷺکادیدارکیاہو، جن کی تربیت حصرت ابوبکرصدیق،عمرفاروق وعثمان غنی رضی اﷲعنہم اجمعین کے ہاتھوں ہوئی ہو، جنہوں نے تقریباًاپنی آدھی سے زیادہ زندگی میدان جہاد میں گزاری ہووہ بھلااپنی عمر کے آخری حصہ میں شراب پی کراپنی زندگی کی ساری ریاضت کوبربادکردیں، ایساکرناتوآج کل کے اس پُرفتن دورکے کسی انسان کے لئے ممکن نہیں تویہ کیسے ممکن ہے کہ خیرالقرون کے ایک صحابی رسول ایساکرسکتے ہیں۔ اس سوال کاجواب ہمیں تاریخ کے گہرے مطالعہ اورشریعت کی صحیح سمجھ بوجھ حاصل کرنے کے بعدبآسانی ہوجائے گاجنہیں ہم ذیل میں تفصیل سے بیان کریں گے۔

سیدناحضرت ولید بن عقبہ رضی اﷲعنہ کے مختصرحالات زندگی

سیدنا حضرت ولید بن عقبہ رضی اﷲعنہ پرلگائے گئے الزامات کاجائزہ لینے سے پہلے بہترہوگاکہ ان کی زندگی کے مختصرحالات، اسلامی خدمات اورفتوحات کے بارے میں بیان کیاجائے تاکہ قارئین کرام کوآپ کے مقام ومرتبہ کے بارے میں کچھ علم ہوسکے۔

پدری سلسلہ نسب: ’’ابن أبان بن أبي عمرو ذكوان بن أمية بن عبد شمس بن عبد مناف بن قصي، أبو وهب القرشي العبشمي‘‘۔

مادری سلسلہ نسب: ’’وهو أخو عثمان بن عفان لأمه أروى بنت كريز بن ربيعة بن حبيب بن عبد شمس‘‘۔

’’وأمها: أم حكيم البيضاء بنت عبد المطلب، وللوليد من الأخوة خالد، وعمارة، وأم كلثوم‘‘۔

’’آپ(ولیدبن عقبہؓ) اپنے آباؤاجدادکی طرف سے چھٹی پشت (یعنی عبدمناف) میں نبی کریمﷺاورحضرت علی المرتضیٰؓ کے ساتھ نسب میں شریک ہیں اورآپ کے چھٹے دادا مشترک ہیں۔ اورولیدؓ کی کنیت ابووہب ہے۔

اورماں کی جانب سے تعلق اس طرح ہے کہ: ولیدؓ کی ماں کانام ارویٰ بنت کریزبن ربیعہ ہے۔ اورارویٰ حضرت عثمانؓ کی بھی ماں ہیں۔ اس وجہ سے ولیدؓاورحضرت عثمانؓ باہم ماں جائے برادرہیں۔

پھرارویٰ بنت کریزکی ماں (یعنی ولیدوعثمانؓ دونوں کی نانی) البیضاءاُمّ حکیم ہیں جوعبدالمطلب بن ہاشم کی بیٹی ہیں۔ اورالبیضاءاُمّ حکیم نبی کریمﷺکے والدشریف حضرت عبداﷲکی والدہ ہیں (یعنی ایک بطن سے پیداشدہ ہیں) لہٰذاعقبہ کی اولاد(ولیدوغیرہ) حضرت عثمانؓ کے لیے ماں جائے برادرہیں‘‘۔ (طبقات ابن سعد: ج۶، ص۱۵ – تحت ولید بن عقبہ؛ البداية والنهاية: ج۴، ص۲۲۱)

یعنی ولیدبن عقبہؓ کانبی کریمﷺاورحضرت علیؓ کے ساتھ جوقرابت نسبی وخاندانی ہےوہ بھی واضح ہوگئی۔ یعنی ولیدؓکی والدہ نبی ہاشم خاندان کی بنت البنت (نواسی) ہیں اوران کانانہال نبی ہاشم ہیں۔ اورولیدبن عقبہؓ حضرت علیؓ کی پھوپھی زادبہن کے بیٹے ہیں۔

حافظ ذہبیؒ لکھتے ہیں: ’’وَهُوَ أَخُو أَمِيْرِ المُؤْمِنِيْنَ عُثْمَانَ لأُمِّهِ، مِنْ مُسْلِمَةِ الفَتْحِ بَعَثَهُ رَسُوْلُ اللهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ‘‘۔ ’’اورولیدبن عقبہؓ امیرالمومنین حضرت عثمانؓ کے بھائی ہیں، فتح مکہ کے موقعہ پرایمان لائے تھے۔ (مشہورروایت یہی ہے) اورحضورعلیہ السلام کے صحابہ کرامؓ میں سےہیں۔ (تجریداسماءالصحابہ للذہبی: ج۲، ص۱۲تجرید اسماء۹)

حافظ ابن حجرؓلکھتے ہیں: ’’قال وله أخبار فيها نكارة وشناعة وكان من رجال قريش ظرفا وحلما وشجاعة وأدبا وكان شاعرا شريفا۔ قال وخبر صلاته بهم وهو سكران وقوله أزيدكم بعد أن صلى الصبح أربعا مشهور من حديث الثقات‘‘۔ ’’ولید بن عقبہؓ قبیلہ قریش کے اہم لوگوں میں سے تھے۔ شرفاءِ قوم میں ان کاشمارہوتاتھا۔ بہادروشجاع تھے۔ باحوصلہ آدمی اورسخی تھے۔ اپنے دورکے شاعربھی تھے‘‘۔ (تہذيب التہذيب فی رجال الحدیث لابن حجر: ج۶، ص۷۴۰)

’’أسلم الوليد يوم فتح مكة، وبعثه رسول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ على صدقات بني المصطلق۔ وولاه عمر بن الخطاب صدقات بني تغلب۔ وولاه عثمان الكوفة بعد سعد بن أبي وقاص، ثم عزله عنها، فلم يزل بالمدينة حتى بويع علي، فخرج إلى الرقة، فنزلها، واعتزل علياً ومعاوية، ومات بالرقة‘‘۔ ’’فتح مکہ کے بعدنبی اقدسﷺنے ولیدبن عقبہؓ کوقبیلہ بنی مصطلق کے صدقات کی وصولی پرعامل وحاکم مقررفرمایا۔ پھرحضرت ابوبکرصدیقؓ نے اپنے دورخلافت میں قبیلہ بنی قضاعہ کے صدقات پرولیدبن عقبہؓ اورعمروبن العاصؓ دونوں کوعامل متعین فرمایا۔ اوران دونوں کورخصت کرنے کے لئے حضرت صدیق اکبرؓخودمدینہ سے باہرتشریف لےگئے۔ دونوں حضرات کوخداخوفی کی وصیتیں فرمائیں اورروانہ کیا۔ اورفاروقی دورمیں حضرت عمرفاروق اعظمؓ نے ولیدبن عقبہؓ کوقبیلہ بنی تغلب کے صدقات پرعامل وحاکم کی حیثیت سے تعینات فرمایا۔ اورحضرت عثمان غنیؓ نے بھی ولید بن عقبہؓ کوعامل وحاکم مقررکیا‘‘۔(تہذيب التہذيب فی رجال الحدیث لابن حجر: ج۶، ص۷۴۰)

امام أبو جعفرمحمدبن جریر الطبریؒ (المتوفى۳۱۰ھ) لکھتے ہیں: ’’ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں انھوں نے جو سب سے پہلا کارنامہ انجام دیا وہ یہ تھا کہ مجوس کے ساتھ ہونے والے ۱۲ھ کے معرکۂ میں یہ خلیفۃ المسلمین ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور سپہ سالار فوج خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے درمیان پیغام رساں کی خدمات سرانجام دیتےتھےاور جنگی خطوط لے جانے والے راز دار سپاہی تھے۔ اور۱۳ھ میں ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے انہیں قبیلۂ قضاعہ کی وصولی ٔ زکاة پر مامور فرمایا۔ پھر جب حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے ملک شام کی فتح کا عزم کیا تو اس وقت ان کے نزدیک ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ کے احترام واکرام اور اعتماد کا وہی مقام تھا جو عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کا تھا یعنی آپ نے ان دونوں کو مجاہدین کے لشکروں کی قیادت عطا فرمائی۔ پھر چشم فلک نے دیکھا کہ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ اسلام کا پرچم لے کر فلسطین کی جانب روانہ ہوئے اور ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ کی قیادت میں دوسرا لشکر شرق اردن کی طرف بڑھا۔ پھر۱۵ھمیں ولید رضی اللہ عنہ بلاد تغلب اور الجزیرہ میں بحیثیت امیر نظر آتے ہیں۔ شام کے شمالی حصہ میں رہ کر مجاہدین کی پشت پناہی کرتے ہیں تاکہ دشمن پیچھے سے حملہ آور نہ ہوسکے۔ چنانچہ ربیعہ وتنوخ کے مسلم وکافر سب ان کے ماتحت تھے۔ اس سمت کی ولایت وقیادت کی فرصت کو غنیمت سمجھ کر ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ نے یہ کیا کہ یہ علاقہ جو ہمیشہ عرب کے عیسائی قبائل سے بھرا رہتا تھا وہاں اپنے جنگ وجہاد اور حکومتی امور کی مشغولیت کے ساتھ ساتھ دعوت دین الٰہی کا کام شروع کیا۔ حکمت وموعظت حسنہ کے سارے اسلوب اختیار کئے تاکہ ایاد وتغلب کے یہ نصرانی بھی بقیہ عرب کی طرح آغوش اسلام میں آجائیں۔ لیکن قبیلۂ ایاد نے بلاد اناضول(موجودہ ترکی) کی طرف راہ فرار اختیار کی جو اس وقت بیزنطینیوں کے زیر حکومت تھا۔ چنانچہ ولید رضی اللہ عنہ نے خلیفۃ المسلمین عمرفاروق رضی اللہ عنہ کو اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ قیصر قسطنطنیہ سے ایک دھمکی آمیز خط کے ذریعہ ان بھاگے ہوئے نصرانیوں کو اسلامی مملکت کی حدود میں واپس بھیجنے کا مطالبہ کریں۔

اسی طرح جب ان کی اسلامی دعوت کی نشر واشاعت کی بنا پر قبیلۂ تغلب نے سرکشی کی کوشش کی تو انھوں نے اپنے اسلامی جوش وجذبہ اور ایمانی حرارت نیز مضری غیظ وغضب کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے جذبات کا اظہاران الفاظ میں کیا: جب میں نے اپنے سر پر عمامہ لپیٹ لیا تو اے قبیلۂ تغلب تیری ہلاکت میرے ہاتھوں مقدر ہے۔

یہ خبر جب عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو پہنچی اور انھیں اس بات کا اندیشہ ہوا کہ ان کا یہ نوجوان اور پرجوش قائد تغلب کے نصرانیوں کو گرفت میں لے کر ان کی سرکوبی نہ کرے اور پھر ایسے نازک وقت میں جب کہ وہ نصاریٰ فقط عربی حمیت کی بنا پر مسلمانوں کے ساتھ مل کر ان کے دشمنوں کے خلاف مصروف پیکار ہیں کہیں اس کے ہاتھ سے ان کی زمام قیادت نہ چلی جائے۔ اس مصلحت کے پیش نظر ولید رضی اللہ عنہ کو ان سے باز رکھا اور ان کے علاقہ سے دور کردیا۔

ولید بن عقبہ ؓحضرت عمررضی اﷲعنہ کی طرف سے جزیرہ عرب باشندوں کے حاکم تھے۔ وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت کے دوسرے سال کوفہ کے حاکم بن کرآئے‘‘۔ (تاريخ الطبری، تاريخ الاُم والملوك[اردو]: ج۳، ص۲۸۰-۲۷۹)

۳۰ھ؁ کےواقعات: سیدناحضرت ولید بن عقبہ رضی اﷲعنہ پرلگائے گئے الزامات کی اصل حقیقت

حضرت شعبیؒ فرماتے ہیں: ’’کوفہ وہ پہلاشہرہے جہاں شیطان نے مسلمانوں میں جھگڑاپیداکیا۔ اس کاواقعہ یہ ہے کہ حضرت سعدبن ابی وقاصؓ نے حضرت عبداﷲبن مسعودؓسے بیت المال سے قرض مانگاتوانہوں نے کچھ مال قرض دیدیا۔ مگرجب انہوں نے اس کاتقاضہ کیاتووہ ادانہیں کرسکے۔ اس پران کے درمیان تکرار ہوگئی۔ یہاں تک کہ کچھ لوگ مال وصول کرنے کے لئے حضرت عبداﷲبن مسعودؓ کے طرفدار ہوگئےاورکچھ لوگوں سےحضرت سعد ؓنے مددمانگی تاکہ انہیں کچھ عرصہ تک مہلت دی جائے۔ آخرکار لوگ منتشرہوگئےمگرکچھ لوگ حضرت سعدؓکوبُرابھلاکہہ رہے تھے اورکچھ لوگ حضرت عبداﷲبن مسعودؓکوملامت کررہے تھے‘‘۔

عبداﷲبن عکنی کی روایت ہے کہ: ’’جب قرض کے بارے میں حضرت ابن مسعودؓاورحضرت سعدؓمیں جھگڑاہوااورحضرت سعدؓ وہ قرض ادا نہ کرسکے توحضرت عثمانؓ ان دونوں پرناراض ہوئے اورقرض کی رقم حضرت سعدسے وصول کی اورانہیں معزول کردیا۔ حضرت عثمانؓ حضرت عبداﷲبن مسعودؓپربھی ناراض ہوئے۔ مگرانہوں نے ابن مسعودؓ کوبرقراررکھااورولیدبن عقبہؓ کو(حضرت سعدؓکے بجائے) حاکم مقررکیا۔ وہ جزیرہ میں قبیلۂ ربیعہ کے حضرت عمرؓ کی طرف سے حاکم تھے۔ جب وہ کوفہ (حاکم ہوکر) آئے توانہوں نے جب تک وہ کوفہ کے حاکم رہےاپنے گھرکاکوئی دروازہ نہیں بنوایا‘‘۔

سیف کر روایت ہے کہ: ’’جب حضرت ولید بن عقبہؓ کوفہ آئے تووہ لوگوں کی محبوب ترین شخصیت بن گئے۔ کیونکہ وہ سب سے زیادہ نرم حاکم تھے۔ اس وجہ سے وہ پانچ سال تک (حاکم) رہے، انہوں نے اپنے گھرپرکوئی دروازہ نہیں رکھا(تاکہ ہرشخص ان کے پاس روک ٹوک کے بغیرآسکے)‘‘۔

کچھ عرصہ کے بعدکوفہ کے چندنوجوان ابن حیسمان خزاعی کے گھراکھٹے ہوکرآئے اورانہیں تنگ کرنے لگے۔ وہ تلوارلے کرنکلےمگرجب انہوں نے ان کی کثرت دیکھی تووہ (مدد کےلئے) پکارنے لگے۔ وہ بولے” تم خاموش ہوجاؤتمہیں ایک ہی وارسے اس رات کے خطرہ سے نجات مل جائےگی”۔ اس وقت حضرت ابوشریح خزاعی رضی اﷲعنہ انہیں دیکھ رہے تھے۔ وہ شخص فریادکرتارہامگران (نوجوانوں) نے اسے زدوکوب کرکے مارڈالا۔

آخرکارعوام نے چاروں طرف سے گھیرکرانہیں گرفتار کرلیا۔ ان (ملزموں) میں زہیربن جندب ازدی، مواع بن ابی لواع اسدی اورشبیل بن ابی الازدی بھی شامل تھے۔ ان کے برخلاف ابوشریحؓ اوران کے فرزندنے شہادت دی کہ یہ لوگ اس گھرمیں داخل ہوئے۔ کچھ لوگوں نے دوسرے لوگوں کومنع کیامگربعض افرادنے انہیں قتل کردیا۔

حاکم کوفہ (حضرت ولیدبن عقبہؓ) نے ان کے بارے میں حضرت عثمانؓ کوخط لکھا۔ حضرت عثمانؓ نے تحریرفرمایاکہ ان سب کوقتل کردیاجائے۔ چنانچہ وسیع میدان میں محل کے دروازہ کے قریب ان سب کوقتل کردیاگیا۔  (تاريخ الطبری، تاريخ الرسل والملوك: ج۳، ص۲۸۳)

ابوسعیدکی روایت ہے کہ ابوشریح رضی اﷲعنہ رسول اﷲﷺکے صحابی تھے۔ وہ مدینہ منورہ سے حجرت کرکے کوفہ منتقل ہوئے تھےکہ وہ جہادکے مقامات کے قریب رہیں۔ ایک رات جب کہ وہ چھت پرتھے انہوں نے اپنے پڑوسی کی چیخ وپکار کی آواز سنی، انہوں نے جھانک کردیکھا تو معلوم ہوا کہ کوفہ کے نوجوانوں نے انہیں گھیررکھاہے۔ انہوں نے ان کے پڑوسی پررات کے وقت حملہ کیاتھااوروہ اس سے کہہ رہے تھے: ” تم مت چیخوکیونکہ تلوار کا ایک وارتمہیں ٹھنڈاکردےگا”۔ اس کے بعد انہوں نے اسے مارڈالا۔ (یہ حالت دیکھ کر) وہ حضرت عثمانؓ کی طرف کوچ کرگئےاورمدینہ لوٹ آئے اوراپنے اہل وعیال کوبھی وہیں منتقل کرلیا۔

۳۰ھ؁ کےواقعات: ابن السوداء (عبداﷲبن سبا)کا حضرت ابوذرغفاری، حضرت ابوالدرداءاورحضرت عبادہ بن الصامت رضی اﷲتعالیٰ اجمعین کوحضرت امیرمعاویہ رضی اﷲعنہ کےخلاف بھڑکانا

امام أبو جعفر الطبریؒ (المتوفى۳۱۰ھ) لکھتے ہیں: ’’وفي هَذِهِ السنة- أعني سنة ثَلاثِينَ- كَانَ مَا ذكر من أمر أبي ذر ومعاوية، وإشخاص مُعَاوِيَة إِيَّاهُ من الشام إِلَى الْمَدِينَةِ، وَقَدْ ذكر فِي سبب إشخاصه إِيَّاهُ منها إِلَيْهَا أمور كثيرة، كرهت ذكر أكثرها۔

فأما العاذرون مُعَاوِيَة فِي ذَلِكَ، فإنهم ذكروا فِي ذَلِكَ قصة كَتَبَ إِلَيَّ بِهَا السَّرِيُّ، يَذْكُرُ أَنَّ شُعَيْبًا حَدَّثَهُ عَنْ سَيْف، عَنْ عَطِيَّةَ، عَنْ يَزِيدَ الْفَقْعَسِيِّ، قَالَ: لَمَّا وَرَدَ ابْنُ السَّوْدَاءِ الشَّامَ لَقِيَ أَبَا ذَرٍّ، فَقَالَ: يَا أَبَا ذَرٍّ، أَلا تَعْجَبُ إِلَى مُعَاوِيَةَ، يَقُولُ: الْمَالُ مَالُ اللَّهِ! أَلا إِنَّ كُلَّ شَيْءٍ لِلَّهِ كأنه يريد ان يحتجنه دُونَ الْمُسْلِمِينَ، وَيَمْحُوَ اسْمَ الْمُسْلِمِينَ فَأَتَاهُ أَبُو ذَرٍّ، فَقَالَ: مَا يَدْعُوكَ إِلَى أَنْ تُسَمِّيَ مَالَ الْمُسْلِمِينَ مَالَ اللَّهِ! قَالَ: يَرْحَمُكَ اللَّهُ يَا أَبَا ذَرٍّ، أَلَسْنَا عِبَادَ اللَّهِ، وَالْمَالُ مَالُهُ، وَالْخَلْقُ خَلْقُهُ، وَالأَمْرُ أَمْرُهُ! قَالَ: فَلا تَقُلْهُ، قَالَ: فَإِنِّي لا أَقُولُ: إِنَّهُ لَيْسَ لِلَّهِ، وَلَكِنْ سَأَقُولُ: مَالُ الْمُسْلِمِينَ۔

قَالَ: وَأَتَى ابْنُ السَّوْدَاءِ أَبَا الدَّرْدَاءِ، فَقَالَ لَهُ: مَنْ أَنْتَ؟ أَظُنُّكَ وَاللَّهِ يَهُودِيًّا! فَأَتَى عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ فَتَعَلَقَّ بِهِ، فَأَتَى بِهِ مُعَاوِيَةُ، فَقَالَ: هَذَا وَاللَّهِ الَّذِي بَعَثَ عَلَيْكَ أَبَا ذَرٍّ، وَقَامَ أَبُو ذَرٍّ بِالشَّامِ وَجَعَلَ يَقُولُ: يَا مَعْشَرَ الأَغْنِيَاءِ، وَاسُوا الْفُقَرَاءَ بَشِّرِ الَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلا يُنْفِقُونَها فِي سَبِيلِ اللَّهِ بمكاو من نار تكوى بها جباهم وَجُنُوبُهُمْ وَظُهُورُهُمْ فَمَا زَالَ حَتَّى وَلِعَ الْفُقَرَاءُ بِمِثْلِ ذَلِكَ، وَأَوْجَبُوهُ عَلَى الأَغْنِيَاءِ، وَحَتَّى شَكَا الأَغْنِيَاءُ مَا يَلْقَوْنَ مِنَ النَّاسِ۔ فَكَتَبَ مُعَاوِيَةُ إِلَى عُثْمَانَ: أَنَّ أَبَا ذَرٍّ قَدْ أَعْضَلَ بِي، وَقَدْ كَانَ مِنْ أَمْرِهِ كَيْتَ وَكَيْتَ فَكَتَبَ إِلَيْهِ عُثْمَانُ: أَنَّ الْفِتْنَةَ قَدْ أَخْرَجَتْ خطمها وعينيها‘‘۔

’’۳۰ھ ؁میں حضرت ابوذرغفاری رضی اﷲعنہ کاحضرت امیرمعاویہ رضی اﷲعنہ سے اختلاف ہوااورامیرمعاویہؓ نے انہیں شام سے مدینہ کی طرف بھجوادیا۔

انہیں شام سے بھجوانے کےبارےمیں بہت سی باتیں بیان کی گئی ہیں، ان میں سے اکثرباتیں ایسی ہیں جن کاذکرمیں پسندنہیں کرتاہوں۔

امیرمعاویہؓ کےحامی بہ روایت سیف یہ بیان کرتے ہیں کہ جب ابن السوداء(ابن سبا) شام آیاتووہ حضرت ابوذرسے ملااورکہا: اے ابوذر! کیاتمہیں معاویہ کے اس قول پرتعجب نہیں کہ وہ کہتے ہیں۔ مال اﷲکامال ہے، جبکہ ہرچیزاﷲکی ہے۔ ایسااندیشہ ہے کہ کہیں وہ مسلمانوں کوچھوڑکرتمام مال اپنے لیے مخصوص کرلیں اورمسلمانوں کانام تک مٹاڈالیں۔

یہ سن کرحضرت ابوذرؓ معاویہؓ کے پاس آئے اورکہنے لگے: کیاوجہ ہے کہ آپ مسلمانوں کے مال کواﷲکامال کہتے ہیں؟ حضرت معاویہؓ بولے: اے ابوذرؓ! کیاہم اﷲکے بندے نہیں ہیں اورمال اس کامال نہیں ہے؟ اوریہ مخلوق اس کی نہیں ہےاوراصل حکم اس کانہیں ہے؟ حضرت ابوذرؓ نے فرمایا: آپ یہ بات نہیں کہیں میں اس کاقائل نہیں ہوں کہ یہ تمام چیزیں اﷲکی نہیں ہیں۔ مگرمیں ضرورکہوں گاکہ یہ مسلمانوں کامال ہے۔

ابن السوداء(ابن سبا)پھرحضرت ابوالدرداءرضی اﷲعنہ کے پاس آیاتووہ کہنے لگے: تم کون ہو؟ بخدا! میرے خیال میں تم یہودی ہو۔ پھروہ عبادہ بن الصامت رضی اﷲعنہ کے پاس گیاوہ اسے معاویہؓ کے پاس لے آئے اورکہنے لگے۔ یہی وہ شخص ہے جس نے حضرت ابوذرؓ کوآپ کے برخلاف کیا‘‘۔ (تاريخ الطبری، تاريخ الرسل والملوك: ج۴، ص۲۸۳)

قارئین کرام ذراغورفرمائیں کہ عبداﷲابن سبایہودی جب حضرت ابوذرغفاریؓ، حضرت ابوالدرداءؓ اورحضرت عبادہ بن الصامتؓ جیسے جلیل القدرصحابی رسول کوبہکانے کی ہمت کرسکتاہے اورایک حد تک کامیاب بھی ہوسکتاہے توپھرکیادیگرصحابہؓ ومسلمین اس کے شرسے بچ پائے ہونگے؟

۳۵ھ؁ کےواقعات: ابن السوداء (عبداﷲبن سبا)کی خفیہ تحریک

امام أبو جعفر الطبریؒ (المتوفى۳۱۰ھ) یزید فقعسی سے روایت نقل کرتےہیں کہ: ’’فيما كتب به إلي السري، عن شعيب، عَنْ سَيْفٍ، عَنْ عَطِيَّةَ، عَنْ يَزِيدَ الْفَقْعَسِيِّ، قَالَ: كَانَ عَبْد اللَّهِ بن سبأ يهوديا من أهل صنعاء، أمه سوداء، فأسلم زمان عُثْمَان، ثُمَّ تنقل فِي بلدان الْمُسْلِمِينَ، يحاول ضلالتهم، فبدأ بالحجاز، ثُمَّ الْبَصْرَةِ، ثُمَّ الْكُوفَة، ثُمَّ الشام، فلم يقدر عَلَى مَا يريد عِنْدَ أحد من أهل الشام، فأخرجوه حَتَّى أتى مصر، فاعتمر فِيهِمْ، فَقَالَ لَهُمْ فِيمَا يقول: لعجب ممن يزعم أن عِيسَى يرجع، ويكذب بأن محمدا يرجع، وَقَدْ قَالَ اللَّه عز وجل: «إِنَّ الَّذِي فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لَرادُّكَ إِلى مَعادٍ»۔فمحمد أحق بالرجوع من عِيسَى قَالَ: فقبل ذَلِكَ عنه، ووضع لَهُمُ الرجعة، فتكلموا فِيهَا ثُمَّ قَالَ لَهُمْ بعد ذَلِكَ: إنه كَانَ ألف نبي، ولكل نبي وصي، وَكَانَ علي وصي مُحَمَّد، ثُمَّ قَالَ: مُحَمَّد خاتم الأنبياء، وعلي خاتم الأوصياء، ثُمَّ قَالَ بعد ذَلِكَ: من أظلم ممن لم يجز وصية رَسُول اللهﷺ، ووثب على وصى رسول الله ﷺ، وتناول أمر الأمة! ثُمَّ قَالَ لَهُمْ بعد ذَلِكَ: إن عُثْمَان أخذها بغير حق، وهذا وصى رسول الله ﷺ۔

فانهضوا فِي هَذَا الأمر فحركوه، وابدءوا بالطعن عَلَى أمرائكم، وأظهروا الأمر بالمعروف، والنهي عن المنكر، تستميلوا الناس، وادعوهم إِلَى هَذَا الأمر۔

فبث دعاته، وكاتب من كَانَ استفسد فِي الأمصار وكاتبوه، ودعوا فِي السر إِلَى مَا عَلَيْهِ رأيهم، وأظهروا الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر، وجعلوا يكتبون إِلَى الأمصار بكتب يضعونها فِي عيوب ولاتهم، ويكاتبهم إخوانهم بمثل ذَلِكَ، ويكتب أهل كل مصر مِنْهُمْ إِلَى مصر آخر بما يصنعون، فيقرؤه أُولَئِكَ فِي أمصارهم وهؤلاء فِي أمصارهم، حَتَّى تناولوا بِذَلِكَ الْمَدِينَة، وأوسعوا الأرض إذاعة، وهم يريدون غير مَا يظهرون، ويسرون غير مَا يبدون، فيقول أهل كل مصر: إنا لفي عافيه مما ابتلي بِهِ هَؤُلاءِ، إلا أهل الْمَدِينَة فإنهم جاءهم ذَلِكَ عن جميع الأمصار، فَقَالُوا: إنا لفي عافية مما فِيهِ الناس، وجامعه مُحَمَّد وَطَلْحَة من هَذَا المكان، قَالُوا: فأتوا عُثْمَان، فَقَالُوا: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، أيأتيك عن الناس الَّذِي يأتينا؟ قَالَ: لا وَاللَّهِ، مَا جاءني إلا السلامة، قَالُوا: فإنا قَدْ أتانا وأخبروه بِالَّذِي أسقطوا إِلَيْهِم، قَالَ: فأنتم شركائي وشهود الْمُؤْمِنِينَ، فأشيروا علي، قَالُوا: نشير عَلَيْك أن تبعث رجالا ممن تثق بهم إِلَى الأمصار حَتَّى يرجعوا إليك بأخبارهم۔

فدعا مُحَمَّد بن مسلمة فأرسله إِلَى الْكُوفَةِ، وأرسل أُسَامَة بن زَيْد إِلَى الْبَصْرَة، وأرسل عمار بن ياسر إِلَى مصر، وأرسل عَبْد اللَّهِ بن عُمَرَ إِلَى الشام، وفرق رجالا سواهم، فرجعوا جميعا قبل عمار، فَقَالُوا: أَيُّهَا النَّاسُ، مَا أنكرنا شَيْئًا، وَلا أنكره أعلام الْمُسْلِمِينَ وَلا عوامهم، وَقَالُوا جميعا: الأمر أمر الْمُسْلِمِينَ، إلا أن امراءهم يقسطون بينهم، ويقومون عَلَيْهِم واستبطأ الناس عمارا حَتَّى ظنوا أنه قَدِ اغتيل، فلم يفجأهم الا كتاب من عبد الله ابن سَعْدِ بْنِ أبي سرح يخبرهم أن عمارا قَدِ استماله قوم بمصر، وَقَدِ انقطعوا إِلَيْهِ، مِنْهُمْ عَبْد اللَّهِ بن السوداء، وخالد بن ملجم، وسودان بن حمران، وكنانة بن بشر‘‘۔

’’عبد اللہ ابن سبا اہل صنعا کا ایک یہودی تھا، اس کی ماں سیاہ فام تھی۔ وہ تیسرے خلیفہ حضرت عثمانؓ کے دور میں مسلمان ہوا، پھروہ مسلمانوں کے شہروں میں پھر کرانہیں گمراہ کرنے کی کوشش کرتارہا۔ پہلے وہ حجاز گیاپھربصرہ اورکوفہ گیاپھرشام بھی گیا۔ مگروہ اہل شام میں سے کسی کوگمراہ نہیں کرسکا۔ انہوں نے اس کووہاں سے نکال دیا۔ وہاں سے وہ مصر گیااوروہاں آباد ہوگیا۔ مسلمانوں کے سامنے وہ عجیب وغریب باتیں کرتاتھا۔ ان میں سے ایک یہ تھی:

یہ بات عجیب وغریب ہےکہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰؑ واپس آئیں گے اوراگرکوئی یہ کہےکہ حضرت محمدﷺواپس آئیں گے تووہ اس بات کوجھوٹ کہتے ہیں حالانکہ اﷲبزرگ وبرترنے یہ کہا! “بے شک جس نے قرآن کریم تم پرفرض کیاوہ تمہیں آخرت کی طرف لوٹانے والاہے”۔ اس لئے حضرت محمدﷺ حضرت عیسیٰؑ کے بہ نسبت لوٹنےکے زیدہ حقدار ہیں۔ چنانچہ اس کی یہ بات بعض لوگوں نے مان لی اور رجعت کامسئلہ مقررہوگیااورلوگ اس مسئلہ پربحث کرنے لگے۔

اس کے بعد وہ کہنے لگا۔ گزشتہ زمانےمیں ایک ہزار پیغمبرتھے اورہرپیغمبرکاایک وصی (جانشین) ہوتاہے اور حضرت محمدﷺکا جانشین علیؑ تھے۔ محمدﷺخاتم الانبیاءتھے اورحضرت علیؓ خاتم الاوصیاء ہیں۔ پھرکہنے لگا! اس سے بڑھ کرظالم کون ہے جس نے رسول اﷲﷺکی وصیت پرعمل نہیں کیا۔ اوررسول اﷲﷺکے وصی کے حق کوغضب کرکے امت اسلامیہ کاانتظام اپنے ہاتھوں میں لے لیاہو، اس کے بعد وہ مسلمانوں سے یہ کہنے لگا۔ عثمان ؓنے اس حق کو غصب کیا ہے اور علیؑ پر ظلم کیا ہے؛ رسول اﷲﷺ کے یہ وصی موجودہیں اس لئے تم اس کام کے لئے اٹھ کھڑے ہوجاؤ۔ اس کاآغاز اپنے حکام پرطعن وتشنیع سے کرواوریہ ظاہرکروکہ تم نیک کام کاحکم دیتے ہواوربُرے کاموں سے منع کرتے ہواس طرح تم عوام کواپنی طرف مائل کرسکوگے۔ اس کے بعد تم انہیں اس کام کی طرف بلاؤ۔

اس طرح اس نے (اس تحریک کا) پروپیگنڈاکرنے والوں کوچاروں طرف بھیجااوروہ شہروں میں فسادبرپاکررہے تھے، ان سے اس خط وکتابت کی اوروہ لوگ اس سے خط وکتابت کرتے رہے۔ یہ لوگ پوشیدہ طورپراپنی تحریک کی طرف عوام کودعوت دیتے رہے مگربظاہروہ نیک کاموں کاحکم دیتے اوربُرے کاموں سے روکتے تھے۔

یہ لوگ مختلف شہروں کے لوگوں کے ساتھ خطوط بھی بھیجتے تھے اوربظاہران خطوں میں وہ اپنے حکام پرنکتہ چینی کرتےتھے۔ دوسرے ساتھی بھی اسی طرح ان سےخط وکتابت کرتےتھے۔

اس کے علاوہ (ایک پوشیدہ سازشی جماعت ہونے کی حیثیت سے) ہرشہرکے لوگ دوسرے شہرکے لوگوں کواپنی کارگزاری سے مطلع کرتے تھےاس طرح ہرایک شہردوسرے شہرکی کارگزاری کو(لوگوں کے سامنے) پڑھ کرسناتاتھا۔ یہاں تک کہ ان کی خبریں مدینہ تک پہنچ گئیں۔

ان لوگوں نے تمام ممالک میں (اس تحریک کی) نشر و اشاعت وسیع کردی تھی وہ جوکہتے یالکھتے تھے اس سے برخلاف مراد لیتے تھے مثلاً ہرشہرکے یہ لوگ یہ کہاکرتے تھے “ہم خیروعافیت کے ساتھ ہیں اوران چیزوں میں مبتلانہیں ہیں جس میں یہ لوگ مبتلا ہیں سوائے اہل مدینہ کے”۔

اس قسم کی اطلاعات تمام شہروں سے آئی تھیں “ہم جس چیزمیں مبتلا ہیں اس سے بخیروعافیت ہیں” یہ خبریں اہل مدینہ تک بھی پہنچی تووہ حضرت عثمانؓ کے پاس پہنچے اور کہنے لگے۔ “اے امیرالمومنین! کیاآپ کوبھی وہ اطلاعات ملی ہیں جن سے ہم باخبرہیں؟ وہ بولے نہیں، میرےپاس سلامتی کی خبریں آرہی ہیں۔ وہ بولے ہمارے پاس ایسی خبریں موصول ہوئی ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے وہ کچھ بیان کیاجوانہیں معلوم ہواتھا۔ حضرت عثمانؓ نے فرمایا! تم میرے شیریک کارہواورمسلمان اس کے گواہ ہیں اس لئے تم مجھے مشورہ دو۔ وہ بولے ہم آپ کویہ مشورہ دیتے ہیں کہ آپ قابل اعتماد افراد کومختلف شہروں میں بھیجیں تاکہ وہ صحیح اطلاعات لے کرواپس آئیں”۔

چنانچہ آپ نے محمد بن سلمہ کوبلوایا۔ انہیں کوفہ کی طرف بھیجااوراسامہ بن یزید کوبصرہ کی طرف، عماربن یاسرؓ کومصرکی طرف بھیجااورعبداﷲبن عمرؓکوشام بھیجا۔ ان کے علاوہ دوسرے لوگوں کوبھی دیگرعلاقوں کی طرف بھیجا۔

یہ سب حضرت عمارؓسے پہلے واپس آگئے اورسب نے یہ کہا”اے لوگو! ہم نے وہاں کوئی ایسی قابل اعتراض بات نہیں دیکھی اورنہ وہاں کےخواص وعوام کوکوئی ناخوشگوارمعاملے کاعلم ہے۔ مسلمانوں کواپنے معاملات پراختیارحاصل ہے ان کےحکام ان کے درمیان عدل وانصاف کرتے ہیں اوران کی خبرگیری رکھتے ہیں”۔

حضرت عمارؓ نے واپس آپنے میں تاخیرکردی یہاں تک کہ یہ اندیشہ پیداہوگیاکہ کہیں وہ ناگہانی طورپرشہید نہ کردیئے گئے ہوں۔ آخر کاراچانک عبداﷲبن سعدبن ابی سرح کایہ خط آیاکہ حضرت عمارؓ کومصرکے ایک گروہ نے اپنی طرف مائل کرلیاہےاوران کے پاس لوگ اکھٹے ہونے لگے ہیں جن میں مندرجہ ذیل افرادبھی شامل ہیں: عبداﷲبن السوداء(یعنی عبداﷲبن سبا)، خالدبن ملجم، سودان بن حمران اورکنافہ بن بشر‘‘۔ (تاريخ الطبری، تاريخ الرسل والملوك: ج۴، ص۳۴۰- ۳۴۱)

حضرت عثمان رضی اﷲعنہ کا شہروالوں کے نام ہدایت نامہ

امام أبو جعفر الطبریؒ (المتوفى۳۱۰ھ)سیف سے روایت نقل کرتےہیں کہ: ’’كَتَبَ إِلَيَّ السَّرِيُّ، عَنْ شُعَيْبٍ، عَنْ سيف، عَنْ مُحَمَّدٍ وَطَلْحَةَ وَعَطِيَّةَ، قَالُوا: كَتَبَ عُثْمَانُ إِلَى أَهْلِ الأَمْصَارِ: أَمَّا بَعْدُ، فَإِنِّي آخُذُ الْعُمَّالَ بِمُوَافَاتِي فِي كُلِّ مَوْسِمٍ، وَقَدْ سَلَّطْتُ الأُمَّةَ مُنْذُ وُلِّيتُ عَلَى الأَمْرِ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْيِ عَنِ الْمُنْكَرِ، فَلا يُرْفَعُ عَلَيَّ شَيْءٌ وَلا عَلَى أَحَدٍ مِنْ عُمَّالِي إِلا أَعْطَيْتُهُ، وَلَيْسَ لِي وَلِعِيَالِي حَقٌّ قِبَلَ الرَّعِيَّةِ إِلا مَتْرُوكٌ لَهُمْ، وَقَدْ رَفَعَ إِلَيَّ أَهْلُ الْمَدِينَةِ أَنَّ أقواما يشتمون، وآخرون يضربون، فيأمن ضَرَبَ سِرًّا، وَشَتَمَ سِرًّا، مَنِ ادَّعَى شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ فَلِيُوَافِ الْمَوْسِمَ فَلْيَأْخُذْ بِحَقِّهِ حَيْثُ كَانَ، مِنِّي أَوْ مِنْ عُمَّالِي، أَوْ تَصَدَّقُوا فان الله يجزى المتصدقين فَلَمَّا قُرِئَ فِي الأَمْصَارِ أَبْكَى النَّاسَ، وَدَعَوْا لِعُثْمَانَ وَقَالُوا: إِنَّ الأُمَّةَ لَتَمَخَّضُ بِشَرٍّ وَبَعَثَ إِلَى عُمَّالِ الأَمْصَارِ فَقَدِمُوا عَلَيْهِ: عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَامِرٍ، وَمُعَاوِيَةُ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعْدٍ، وَأَدْخَلَ مَعَهُمْ فِي الْمَشُورَةِ سَعْيِدًا وَعَمْرًا، فَقَالَ: وَيْحَكُمْ! مَا هَذِهِ الشِّكَايَةُ؟ وَمَا هَذِهِ الإِذَاعَةُ؟ إِنِّي وَاللَّهِ لَخَائِفٌ أَنْ تَكُونُوا مَصْدُوقًا عَلَيْكُمْ، وَمَا يَعْصِبُ هَذَا إِلا بِي، فَقَالُوا لَهُ: أَلَمْ تَبْعَثْ! أَلَمْ نَرْجِعْ إِلَيْكَ الْخَبَرَ عَنِ الْقَوْمِ! أَلَمْ يَرْجِعُوا وَلَمْ يُشَافِهْهُمْ أَحَدٌ بِشَيْءٍ! لا وَاللَّهِ مَا صَدَقُوا وَلا بَرُّوا، وَلا نَعْلَمُ لِهَذَا الأَمْرِ أَصْلا، وَمَا كُنْتَ لِتَأْخُذَ بِهِ أَحَدًا فَيُقِيمُكَ عَلَى شَيْءٍ، وَمَا هِيَ إِلا إِذَاعَةً لا يَحِلُّ الأَخْذُ بِهَا، وَلا الانْتِهَاءُ إِلَيْهَا۔ قَالَ: فَأَشِيرُوا عَلَيَّ، فَقَالَ سَعِيدُ بْنُ الْعَاصِ: هَذَا أَمْرٌ مَصْنُوعٌ يُصْنَعُ فِي السِّرِّ، فَيُلْقَى بِهِ غَيْرُ ذِي الْمَعْرِفَةِ، فَيُخْبَرُ بِهِ، فَيُتَحَدَّثُ بِهِ فِي مَجَالِسِهِمْ، قَالَ: فَمَا دَوَاءُ ذَلِكَ؟ قَالَ: طَلَبُ هَؤُلاءِ الْقَوْمِ، ثُمَّ قَتْلُ هَؤُلاءِ الَّذِينَ يخَرْجُ هَذَا مِنْ عِنْدِهِمْ۔

وَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعْدٍ: خُذْ مِنَ النَّاسِ الَّذِي عَلَيْهِمْ إِذَا أَعْطَيْتَهُمُ الَّذِي لَهُمْ، فَإِنَّهُ خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَدَعْهُمْ قَالَ مُعَاوِيَةُ: قَدْ وَلَّيْتَنِي فَوَلَّيْتُ قَوْمًا لا يَأْتِيكَ عَنْهُمْ إِلا الْخَيْرَ، وَالرَّجُلانِ أَعْلَمُ بِنَاحِيَتَيْهِمَا، قَالَ: فَمَا الرَّأْيُ؟ قَالَ: حُسْنُ الأَدَبِ، قَالَ: فَمَا تَرَى يَا عَمْرُو؟ قَالَ: أَرَى أَنَّكَ قَدْ لِنْتَ لهم، وتراخيت۔

عَنْهُمْ، وَزِدْتَهُمْ عَلَى مَا كَانَ يَصْنَعُ عُمَرُ، فَأَرَى أَنْ تَلْزَمَ طَرِيقَةَ صَاحِبَيْكَ، فَتَشْتَدَّ فِي مَوْضِعِ الشِّدَّةِ، وَتَلِينَ فِي مَوْضِعِ اللِّينِ إِنَّ الشِّدَّةَ تَنْبَغِي لِمَنْ لا يَأْلُو النَّاسَ شَرًّا، وَاللِّينُ لِمَنْ يَخْلُفُ النَّاسَ بِالنُّصْحِ، وَقَدْ فَرَشْتَهُمَا جَمِيعًا اللِّينَ۔

وَقَامَ عُثْمَانُ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ وَقَالَ: كُلُّ مَا أَشَرْتُمْ بِهِ عَلَيَّ قَدْ سَمِعْتُ، وَلِكُلِّ أَمْرٍ بَابٌ يُؤْتَى مِنْهُ، إِنَّ هَذَا الأَمْرَ الَّذِي يُخَافُ عَلَى هَذِهِ الأُمَّةِ كَائِنٌ، وَإِنَّ بَابَهُ الَّذِي يُغْلَقُ عَلَيْهِ فَيُكَفْكَفُ بِهِ اللِّينُ وَالْمُؤَاتَاةُ وَالْمُتَابَعَةُ، إِلا فِي حُدُودِ اللَّهِ تَعَالَى ذِكْرُهُ، الَّتِي لا يَسْتَطِيعُ أَحَدٌ أَنْ يُبَادِيَ بِعَيْبِ أَحَدِهَا، فَإِنْ سَدَّهُ شَيْءٌ فَرَفُقَ، فَذَاكَ وَاللَّهِ لَيُفْتَحَنَّ، وَلَيْسَتْ لأَحَدٍ عَلَيَّ حُجَّةُ حَقٍّ، وَقَدْ عَلِمَ اللَّهُ أَنِّي لم آل الناس خيرا، ولا نفسي وو الله إِنَّ رَحَا الْفِتْنَةِ لَدَائِرَةٌ، فَطُوبَى لِعُثْمَانَ إِنْ مَاتَ وَلَمْ يُحَرِّكْهَا كَفْكِفُوا النَّاسَ، وَهَبُوا لَهُمْ حُقُوقَهُمْ، وَاغْتَفِرُوا لَهُمْ، وَإِذَا تُعُوطِيَتْ حُقُوقُ اللَّهِ فَلا تُدْهِنُوا فِيهَا‘‘۔

’’حضرت عثمانؓ نے (اسلامی) شہروالوں کے نام یہ تحریرکیاتھا “میں نے حکام کے لئے یہ مقررکردیاہے کہ وہ ہرموسم حج میں مجھ سے ملاقات کریں۔ جب سے خلیفہ مقررکیاگیاہوں، میں نے امت اسلامیہ کے لئے یہ اصول مقررکردیاہے کہ نیکی کاحکم دیاجائے اوربُرے کاموں سے روکاجائے۔ اس لئے جومیرے سامنے یامیرے حکام کے سامنے مطالبہ حق پیش کیاجائے گاوہ حق اداکیاجائے گا۔ میری رعایاکے حقوق میرےاہل وعیال کےحقوق پرمقدم ہوں گے۔ اہل مدینہ کویہ بات معلوم ہوئی ہےکہ کچھ لوگ گالی دیتے ہیں اورکچھ لوگ زدوکوب کرتےہیں۔ پوشیدہ طورپرملامت کرنا، گالی دینااورزدوکوب کرنابہت براہے۔ جوکوئی کسی حق کادعویدارہوتووہ موسم حج میں آئے اوراپناحق حاصل کرےخواہ وہ مجھ سے لیاجائے یامیرے حکام سے لیاجائےیاتم معاف کردوتوایسی صورت میں اﷲمعاف کرنے والوں کوجزائے خیردیگا”۔

جب یہ شہروں میں پڑھاگیاتوعوام رونے لگے اورانہوں نے حضرت عثمانؓ کے حق میں دعاکی اورکہنے لگےقومی مصیبت کے آثارنظرآرہے ہیں۔

آپ نے شہری حکام کوبلابھیجاتومندرجہ ذیل حکام آپ کے پاس آئے: عبداﷲبن عامر، معاویہؓ، عبداﷲبن سعد۔ ان کے ساتھ مشورہ میں سعیدبن العاص اورعمرو بن العاصؓ کوبھی شامل کیاگیا۔ اس موقع پرآپ نے فرمایا”یہ شکایت کیاہے اوریہ افواہیں کیسی ہیں؟ بخدامجھے اندیشہ ہے کہ یہ سچ ثابت نہ ہوں۔ کیایہ باتیں میری وجہ سے ہورہی ہیں”؟ یہ (حکام) بولے “کیاآپ نے نمائندے نہیں بھیجے تھےاورہم نے ان لوگوں کے بارے میں اطلاع نہیں بھیجی تھی؟ کیاوہ لوٹ کرنہیں آئےیاان افرادنے ان سےروبروگفتگونہیں کی تھی؟ بخدامخبرین سچے نہیں ہیں اورنہ وہ راست بازمعلوم ہوتے ہیں بلکہ ان باتوں کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ آپ ان (خبروں) کی بدولت کسی کوگرفتار نہیں کرسکتے ہیں کیونکہ یہ بات آپ کے لئے نامناسب ہوگی۔ یہ سب باتیں افواہوں پرمبنی ہیں ان کی بدولت کسی کامواخذہ نہیں ہوسکتاہے اورنہ اس سے کوئی نتیجہ نکالاجاسکتاہے؛ اس پرآپ نے فرمایاتم مجھے مشورہ دو”۔

سعیدبن العاص نے کہا “یہ جعلی اوربناوٹی معاملہ ہے جوپوشیدہ طورپرتیارکیاجاتاہےاورجب کسی ناواقف کویہ بات معلوم ہوتی ہے تووہ اس خبرکی مختلف محفلوں میں تشہیرکرتاہے”۔ آپ نے فرمایا”پھراس کاعلاج کیاہے؟” انہوں نے کہا”ان لوگوں کوبلایاجائے اورپھران لوگوں کوقتل کیاجائےجن کی طرف سے یہ افواہیں پھیلتی ہیں”۔

عبداﷲبن سعدنے کہا”اگرآپ ان لوگوں کوان کےحقوق عطاکرتے ہیں توان سے ان کےواجبات بھی وصول کریں یہ بات انہیں (آزاد)چھوڑنے سے بہترہے”۔

امیرمعاویہؓ نےکہا”آپ نے مجھے حاکم مقررکیاتومیں ایسے لوگوں کاحاکم ہوں جن کی طرف سے کوئی ناخوشگواربات نہیں نکلے گی اوریہ دونوں حضرات بھی اپنے علاقوں سے زیادہ واقف ہوں گے”۔

آپ نے فرمایاپھرکیارائے ہے؟ وہ بولے حسن ادب آپ نے فرمایا “اے عمروبن العاصؓ تمہاری کیارائے ہے”؟ وہ بولے “میری رائے یہ ہےکہ آپ نے مسلمانوں کے ساتھ نرمی اختیارکردکھی ہے اورانہیں ڈھیلاچھوڑدیاہے بلکہ آپ نے حضرت عمرؓکے زمانے سے زیادہ انہیں عطیات اوروظائف دینے شروع کردیئے ہیں اس لئے میری رائے یہ ہے کہ آپ اپنے دونوں پیش روحضرات (حضرت ابوبکرؓوعمرؓ)کے طریقہ پرچلیں جہاں سختی کاموقع ہو، وہاں سختی اختیارکریں اورجہاں نرمی کاموقع ہو، وہاں نرمی اختیار کریں کیونکہ جولوگوں کے ساتھ سازشیں کرتاہو، اس کے ساتھ سختی کرنی چاہیئے اورجولوگوں کے ساتھ خیرخواہی کرے اس کے ساتھ نرمی کرنی چاہیئے مگرآپ نے دونوں کے ساتھ یکساں سلوک اختیارکررکھاہے”۔

اس کے بعدحضرت عثمانؓ کھڑے ہوئے اورانہوں نے حمدوثناکےبعدیوں فرمایا “تم لوگوں نے جومجھے مشورے دیئے ہیں وہ میں نے سن لئے ہیں اورہرکام کے انجام دینے کاایک طریقہ ہوتاہےوہ بات جس کااس امت اسلامیہ کواندیشہ ہے، ہوکررہے گی۔ اس فتنہ کاجودروازہ بندہے اسے نرمی، موافقت اوراطاعت کے ذریعہ مسدودرکھنے کی کوشش کی جائےگی۔ البتہ اﷲکے حدودوقوانین کی حفاظت کی جائےگی۔ اگراس فتنہ کے دروازہ کوبندرکھناہے تونرمی کاطریقہ بہترہے تاہم یہ دروازہ کھل کررہے گااورکوئی اسے روک نہیں سکےگا۔اﷲجانتاہے کہ میں نے لوگوں اوراپنی ذات کی بھلائی کے لئے کوئی کوتاہی نہیں کی۔ بخدا! فتنہ وفسادکی چکی گردش میں آکررہے گی۔ عثمانؓ کے لئے کیاہی اچھاہے کہ وہ فتنہ کوبرپاکرنے سے پیشترہی رخصت ہوجائے۔ تم لوگوں کوفتنہ وفساد سے روکواوران کے حقوق اداکرواوران سے درگزرکرو۔ البتہ اﷲکے حقوق کی ادائیگی میں سستی نہ کرو‘‘۔ (تاريخ الطبری، تاريخ الرسل والملوك: ج۴، ص۳۴۲- ۳۴۳)

حضرت امیرمعاویہ رضی اﷲعنہ کی تقریر

امام أبو جعفر الطبریؒ (المتوفى۳۱۰ھ)سیف سے روایت نقل کرتےہیں کہ: ’’كَتَبَ إِلَيَّ السَّرِيُّ، عَنْ شُعَيْبٍ، عَنْ سَيْفٍ، عن بدر بن الخليل بن عُثْمَانَ بن قطبة الأسدي، عن رجل من بني أسد، وشاركهم فِي هَذَا المكان أَبُو حَارِثَة وأبو عُثْمَان، عن رجاء بن حيوة وغيره قَالُوا: فلما ورد عُثْمَان الْمَدِينَة رد الأمراء إِلَى أعمالهم، فمضوا جميعا، وأقام سَعِيد بعدهم، فلما ودع مُعَاوِيَة عُثْمَان خرج من عنده وعليه ثياب السفر متقلدا سيفه، متنكبا قوسه، فإذا هُوَ بنفر من الْمُهَاجِرِينَ، فِيهِمْ طَلْحَة وَالزُّبَيْر وعلي، فقام عَلَيْهِم، فتوكأ عَلَى قوسه بعد مَا سلم عَلَيْهِم، ثُمَّ قَالَ: إنكم قَدْ علمتم أن هَذَا الأمر كَانَ إذ الناس يتغالبون إِلَى رجال، فلم يكن منكم احد الا وفي فصيلته من يرئسه، ويستبد عَلَيْهِ، ويقطع الأمر دونه، وَلا يشهده، وَلا يؤامره، حَتَّى بعث اللَّه جَلَّ وَعَزَّ نبيه ص، وأكرم بِهِ من اتبعه، فكانوا يرئسون من جَاءَ من بعده، وَأَمْرُهُمْ شُورى بَيْنَهُمْ، يتفاضلون بالسابقة والقدمة والاجتهاد، فإن أخذوا بِذَلِكَ وقاموا عَلَيْهِ كَانَ الأمر أمرهم، والناس تبع لَهُمْ، وإن أصغوا إِلَى الدُّنْيَا وطلبوها بالتغالب سلبوا ذلك، ورده الله الى من كان يرئسهم وإلا فليحذروا الغير، فإن اللَّه عَلَى البدل قادر، وله المشيئة فِي ملكه وأمره إني قَدْ خلفت فيكم شيخا فاستوصوا بِهِ خيرا، وكانفوه تكونوا أسعد مِنْهُ بِذَلِكَ ثُمَّ ودعهم ومضى، فَقَالَ علي: مَا كنت أَرَى أن فِي هَذَا خيرا، فَقَالَ الزُّبَيْر: لا وَاللَّهِ، مَا كَانَ قط أعظم فِي صدرك وصدورنا مِنْهُ الغداة‘‘۔ ’’جب امیرمعاویہؓ حضرت عثمانؓ کےپاس سے رخصت ہوئے توجب وہ وہاں سے نکلےاس وقت سفری لباس میں تھےان کے گلے میں تلوارتھی اوروہ تیرکمان سے لیس تھے۔ انہوں نے مہاجرین کے چندلوگوں کودیکھاجن میں حضرت طلحہؓ، حضرت زبیرؓاورحضرت علیؓ بھی شامل تھے، انہوں نے ان کوسلام کرنے کےبعداپنی کمان کاسہارالیااورپھران سے یوں مخاطب ہوئے:

“جب (عہدجاہلیت میں) لوگوں پرچندگنتی کے لوگ غالب آجاتےتھے، اس وقت تمہارے ہرخاندان اورقبیلےمیں ایسے لوگ ہوتےتھےجواپنی قوم کے خودمختاراورمطلق العنان سرداربن کرحکومت کرتےتھےاوروہ کسی سے مشورہ نہیں لیتے تھےتاآنکہ خدائےبزرگ وبرترنے اپنے پیغمبرآن حضرتﷺکومبعوث کیااوران کی پیروی کرنےوالوں کوعزت بخشی اس کے بعدوہ باہمی مشورہ کےبعدحاکم مقررکرنےلگے۔ وہ (اس معاملہ میں) ان کی بزرگی، سابقہ اسلامی خدمات اورذاتی صلاحیت ومحنت کوترجیح دیتے تھے۔ اگرآئندہ بھی انہوں نے یہی طریقہ اختیارکیااوراس طریقہ پرقائم رہے توانکی حکومت برقراررہے گی اورلوگ ان کی پیروی کریں گے۔ اگریہ مسلمان دنیاداربن گئے اورطاقت کے ذریعہ دنیاطلبی میں لگ گئےتوان سے یہ (نعمت) چھن جائے گی اوراﷲتعالیٰ ان میں پھررئیسانہ نظام قائم کردیگاورنہ انہیں غیروں (کے تسلط) سے ڈرناچاہیئےکیونکہ اﷲتعالیٰ تبدیل کرنے پرقادرہے اوراپنی خدائی سےاسے ہرطرح کااختیارحاصل ہے۔ میں اس بوڑھے (خلیفہ عثمانؓ) کوتمہارے سپرد کرکے جارہاہوں توان کے ساتھ اچھاسلوک کرواوران کےساتھ تعاون کرواس کی وجہ سے تم زیادہ خوشحال رہوگے”۔

اس کےبعدوہ انہیں الوداع کہہ کرچلے گئے۔ حضرت علیؓ نے فرمایا: “میری رائے میں اس میں کوئی بھلائی نہیں ہے”۔ حضرت زبیرنے فرمایا: “نہیں بخدا! جیساعظیم ترشخص وہ آج صبح ہمارے اورتمہارے دلوں میں ہے پہلے کبھی نہیں تھا”‘‘۔  (تاريخ الطبری، تاريخ الرسل والملوك: ج۴، ص۳۴۳- ۳۴۴)

حضرت معاویہ ؓ کی تقریرپرحضرت علیؓ کااعتراض اورحضرت عثمانؓ کاجواب

موسیٰ بن طلحہ بیان کرتےہیں کہ: ’’حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ شَبُّوَيْهِ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ يَحْيَى، عَنْ مُوسَى بْنِ طَلْحَةَ، قَالَ: أَرْسَلَ عُثْمَانُ إِلَى طَلْحَةَ يَدْعُوهُ، فَخَرَجْتُ مَعَهُ حَتَّى دَخَلَ عَلَى عُثْمَانَ، وَإِذْ عَلِيٌّ وَسَعْدٌ وَالزُّبَيْرُ وَعُثْمَانُ وَمُعَاوِيَةُ، فَحَمِدَ اللَّهَ مُعَاوِيَةُ وَأَثْنَى عَلَيْهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ثُمَّ قَالَ: أَنْتُمْ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ ص، وَخِيرَتُهُ فِي الأَرْضِ، وَوُلاةُ أَمْرِ هَذِهِ الأُمَّةِ، لا يَطْمَعُ فِي ذَلِكَ أَحَدٌ غَيْرُكُمْ، اخْتَرْتُمْ صَاحِبَكُمْ عَنْ غَيْرِ غَلَبَةٍ وَلا طَمَعٍ، وَقَدْ كَبِرَتْ سِنُّهُ، وَوَلَّى عُمُرُهُ، وَلَوِ انْتَظَرْتُمْ بِهِ الْهِرَمَ كَانَ قَرِيبًا، مَعَ أَنِّي أَرْجُو أَنْ يَكُونَ أَكْرَمَ عَلَى اللَّهِ أَنْ يَبْلُغَ بِهِ ذَلِكَ، وَقَدْ فَشَتْ قَالَةٌ خِفْتُهَا عَلَيْكُمْ، فَمَا عَتَبْتُمْ فِيهِ مِنْ شَيْءٍ فَهَذِهِ يَدِي لَكُمْ به، ولا تطمعوا الناس في امركم، فو الله لَئِنْ طَمِعُوا فِي ذَلِكَ لا رَأَيْتُمْ فِيهَا ابدا الا ادبارا قال على: ومالك وَذَلِكَ! وَمَا أَدْرَاكَ لا أُمَّ لَكَ! قَالَ: دَعْ أُمِّي مَكَانَهَا، لَيْسَتْ بِشَّرِّ أُمَّهَاتِكُمْ، قَدْ اسلمت وبايعت النبيﷺ، وَأَجِبْنِي فِيمَا أَقُولُ لَكَ فَقَالَ عُثْمَانُ: صَدَقَ ابْنُ أَخِي، إِنِّي أُخْبِرُكُمْ عَنِّي وَعَمَّا وُلِّيتُ، إِنَّ صَاحِبَيَّ اللَّذَيْنِ كَانَا قَبْلِي ظَلَمَا أَنْفُسَهُمَا وَمَنْ كَانَ مِنْهُمَا بِسَبِيلٍ احْتِسَابًا، وَإِنَّ رَسُولَ الله ص كَانَ يُعْطِي قَرَابَتَهُ، وَأَنَا فِي رَهْطِ أَهْلِ عَيْلَةٍ، وَقِلَّةِ مِعَاشٍ، فَبَسَطْتُ يَدِي فِي شَيْءٍ مِنْ ذَلِكَ الْمَالِ، لِمَكَانِ مَا أَقُومُ بِهِ فِيهِ، وَرَأَيْتُ أَنَّ ذَلِكَ لِي، فَإِنْ رَأَيْتُمْ ذَلِكَ خَطَأً فَرُدُّوهُ، فَأَمْرِي لأَمْرِكُمْ تَبَعٌ قَالُوا: أَصَبْتَ وَأَحْسَنْتَ، قَالُوا: أَعْطَيْتَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ خَالِدِ بْنِ أُسَيْدٍ وَمَرْوَانَ- وَكَانُوا يَزْعُمُونَ أَنَّهُ أَعْطَى مَرْوَانَ خَمْسَةَ عَشَرَ أَلْفًا، وَابْنَ أُسَيْدٍ خَمْسِينَ أَلْفًا- فَرَدُّوا مِنْهُمَا ذَلِكَ، فَرَضَوْا وَقَبِلُوا، وَخَرَجُوا رَاضِينَ‘‘۔ ’’حضرت عثمانؓ نے حضرت طلحہؓ کودعوت دے کربلوایا۔ میں بھی (ان کے فرزند) ان کے ساتھ روانہ ہواجب وہ حضرت عثمانؓ کےپاس پہنچے توحضرت علیؓ، حضرت سعدؓ، حضرت زبیرؓ اورحضرت معاویہؓ وہاں موجودتھے۔ امیرمعاویہؓ حمدوثناکے بعدیوں تقریرکی:

“آپ لوگ رسول اﷲﷺکے صحابی ہیں اورروئے زمین کے بہترین انسان ہیں۔ آپ لوگ اس امت (اسلامیہ) کے ارباب حل وعقدہیں کیونکہ آپ لوگوں کے علاوہ اورکوئی اس (حکمرانی) کی توقع نہیں رکھ سکتاہے۔

آپ نے اپنے ساتھی (حضرت عثمانؓ) کوجبراورطمع کے بغیرانتخاب کیاہے۔ وہ سن رسیدہ ہوگئے ہیں اوران کی عمرختم ہوگئی ہے۔ اوراگرتم ان کےبڑھاپے کی انتہائی عمرکاانتظارکروگے تووہ بھی قریب ہے۔ تاہم مجھے توقع ہے کہ وہ اﷲکواس قدرعزیزہیں کہ وہ انہیں اس عمرتک نہیں پہنچائے گا۔

وہ افواہ پھیل گئی ہےجس کامجھے اندیشہ تھا، تم اس کے لئے قابل ملامت نہیں ہو، میرایہ ہاتھ بھی تمہارے ساتھ ہےتاہم تم عوام کواپنے بارے میں توقع نہ دلاؤکیونکہ اگروہ اس کی طرف مائل ہوگئے توتم ہمیشہ اس میں تنزل وادباردیکھوگے”۔

حضرت علیؓ نے فرمایا: “تمہارااس سے کیاتعلق ہے؟ تمہیں یہ بات کیسے معلوم ہوئی۔ تمہاری ماں نہ رہے”۔

حضرت معاویہؓ بولے: “تم میری والدہ کواپنے مقام پرچھوڑدو۔ وہ بدترین ماں نہیں ہے۔ وہ مسلمان ہوئی ہیں اورنبی کریمﷺ سے انہوں نے بیعت کی ہے۔ جوبات میں تم سے کہہ رہاہوں تم مجھے اسی کاجواب دو”۔

حضرت عثمانؓ نےفرمایا: “میرےبھتیجے نے سچ کہاہے، میں اپنے بارے میں اوراپنی خلافت کے بارے میں تمہیں مطلع کرتاہوں۔ یہ واقعہ ہے کہ میرے ان دوساتھیوں نے جومجھ سے پہلے (خلیفہ) ہوتے تھے، اپنی ذات اوراپنے رشتہ داروں کےلئےثواب حاصل کرنے کے لئے تنگ دستی برداشت کی۔ تاہم یہ حقیقت ہے کہ رسول اﷲﷺاپنے رشتہ داروں کودیاکرتےتھے۔ میں بھی اس خاندان سے متعلق ہوں جوعیال دوراورتنگ دست ہے چنانچہ یہ مال میری نگرانی میں ہےاس لئے میں نے اس مال میں سے کچھ رقم اس وجہ سے دی کہ وہ میری ملکیت ہے، اگرتمہاری یہ رائے ہوکہ یہ بات غلط ہے تواسے لوٹایاجاسکتاہےکیونکہ میراحکم تمہارے حکم کے تابع ہے”۔

لوگوں نے کہاآپؓ نے صحیح اوربہترین فیصلہ کیاہے۔ کچھ لوگوں نے یہ بھی کہا”آپ نے خالدبن اسیداورمروان کو(بیجا) دیاہے”۔ ان کا خیال تھاکہ انہوں (حضرت عثمانؓ) نےمروان کوپندرہ ہزاردیئے ہیں اورابن اسیدکوپچاس ہزاردیئے ہیں۔ چنانچہ جب ان سے وہ رقم لوٹائی گئی تووہ خوش ہوگئے اوررضامنداورمطمئن ہوکرنکلے‘‘۔  (تاريخ الطبری، تاريخ الرسل والملوك: ج۴، ص۳۴۴- ۳۴۵)

حضرت معاویہ ؓ کی فوجی امدادکی پیشکش اورحضرت عثمانؓ کاانکار

سیف بیان کرتےہیں کہ: ’’رجع الحديث إِلَى حديث سيف، عن شيوخه: وَكَانَ مُعَاوِيَة قَدْ قَالَ لِعُثْمَانَ غداة ودعه وخرج: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، انطلق معي إِلَى الشام قبل أن يهجم عَلَيْك من لا قبل لك بِهِ، فإن أهل الشام عَلَى الأمر لم يزالوا فَقَالَ: أنا لا أبيع جوار رسول الله ص بشيء، وإن كَانَ فِيهِ قطع خيط عنقي قَالَ: فأبعث إليك جندا مِنْهُمْ يقيم بين ظهراني أهل الْمَدِينَةِ لنائبة إن نابت الْمَدِينَةِ أو إياك قَالَ: أنا أقتر عَلَى جيران رسول الله ص الأرزاق بجند تساكنهم، وأضيق عَلَى أهل دار الهجرة والنصرة! قَالَ: وَاللَّهِ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، لتغتالن أو لتغزين، قَالَ: حسبي اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ وَقَالَ مُعَاوِيَة: يَا أيسار الجزور، وأين أيسار الجزور! ثُمَّ خرج حَتَّى وقف عَلَى النفر‘‘۔ ’’جب حضرت عثمانؓ نے امیرمعاویہؓ کوصبح کے وقت رخصت کیاتوچلتے وقت امیرمعاویہؓ نے ان سے کہا ” اےامیرالمومنین! اس سے پہلے کہ وہ لوگ جن کاآپ سے کوئی تعلق نہیں ہےآپ پرحملہ آورہوں آپ میرےساتھ شام چلے چلیں کیونکہ اہل شام ابھی فرمابردارہیں”۔

حضرت عثمانؓ نے فرمایا: “میں رسول اﷲﷺکاپڑوس کسی چیزکے بدلے میں فروخت نہیں کرونگا، خواہ اس کی وجہ سے میری گردن کی شہ رگ کٹ جائے”۔

امیرمعاویہؓ نے کہا: “میں آپ کے پاس ایک لشکربھیج دونگاجواہل مدینہ کے قریب رہے گاتاکہ وہ مدینہ میں ا ٓپ پرکوئی ناگہانی حادثہ رونماہو، تواس وقت کام میں آئے”۔

آپؓ نے فرمایا: “اس فوج کویہاں ٹھہراکرمجھے رسول اﷲﷺکے پڑوسیوں کے رزق میں کمی کرنی پڑے گی اوردارلہجرت کے رہنے والوں کوتنگی رزق کاسامناکرناپڑےگا”۔

امیرمعاویہؓ نے کہا: “اے امیرالمومنین! بخداآپ پراچانک حملہ ہوگایاآپ کوجنگ کرنی پڑے گی”۔ آپؓ نے فرمایا: “اﷲ میرے لئے کافی ہےاوروہی عمدہ کارسازہے”۔ پھر امیرمعاویہؓ روانہ ہوئے۔ کچھ حضرات کے پاس ٹھہرے پھرچلے گئے‘‘۔ (تاريخ الطبری، تاريخ الرسل والملوك: ج۴، ص۳۴۵)

بغاوت کاآغاز

’’ثُمَّ مضى وَقَدْ كَانَ أهل مصر كاتبوا أشياعهم من أهل الْكُوفَة وأهل الْبَصْرَة وجميع من أجابهم أن يثوروا خلاف أمرائهم واتعدوا يَوْمًا حَيْثُ شخص أمراؤهم، فلم يستقم ذَلِكَ لأحد مِنْهُمْ، ولم ينهض إلا أهل الْكُوفَة، فإن يَزِيد بن قيس الأرحبي ثار فِيهَا، واجتمع إِلَيْهِ أَصْحَابه، وعلى الحرب يَوْمَئِذٍ القعقاع بن عَمْرو، فأتاه فأحاط الناس بهم وناشدوهم‘‘۔ ’’اس اثناءمیں اہل مصر نے اپنے متبعین کے ساتھ خط وکتابت جاری رکھی کہ وہ اپنے حکام کے خلاف بغاوت کردیں۔ اس خط وکتابت کے سلسلے میں اہل کوفہ واہل بصرہ اوردیگرعلاقوں کے سبھی متبعین شامل تھے انہوں نے اس مقصد کےلئے دن بھی مقررکردیاتھاجبکہ ان کے حکام وہاں سے روانہ ہوئے تھے مگراہل کوفہ کے علاوہ کہیں (یہ سازش) کامیاب نہیں ہوئی۔ یزید بن قیس ارجسی نے علم بغاوت بلندکیااوراس کے ساتھی اس کے پاس اکھٹے ہوگئےاسی زمانے میں جنگی قیادت قعقاع بن عمروکے سپردتھی، وہ اس کے پاس آیااس وقت لوگ اسے گھیرے ہوئے تھے‘‘۔(تاريخ الطبری، تاريخ الرسل والملوك: ج۴، ص۳۴۵)

’’ولما رجع الأمراء لَمْ يَكُنْ للسبئية سبيل إِلَى الخروج إِلَى الأمصار، وكاتبوا أشياعهم من أهل الأمصار أن يتوافوا بِالْمَدِينَةِ لينظروا فِيمَا يريدون، وأظهروا أَنَّهُمْ يأمرون بالمعروف، ويسألون عُثْمَان عن أشياء لتطير فِي الناس، ولتحقق عَلَيْهِ، فتوافوا بِالْمَدِينَةِ‘‘۔ ’’جب حکام واپس آگئے توسبائیہ(یعنی عبداﷲبن سباکے متبعین) کے لئے مختلف شہروں میں آمدورفت کاذریعہ باقی نہ رہاتوانہوں نے مختلف شہروں میں اپنے پیروکاروں کولکھاکہ وہ مدینہ کے قریب پہنچیں تاکہ وہاں پہنچ کروہ غورکرسکیں کہ وہ کیاچاہتے ہیں، انہوں نے (عوام کے سامنے) یہ ظاہرکیاکہ وہ نیک کاموں کاحکم دے رہے ہیں اورحضرت عثمانؓ سے چندباتیں دریافت کرناچاہتے ہیں جوعوام میں مشہورہیں اس لئے وہ اصل حقیقت معلوم کرنے کے لئے جارہے ہیں۔ چنانچہ وہ مدینہ پہنچ گئے۔ حضرت عثمانؓ نے دواشخاص کوبھیجا۔ ایک شخص کاتعلق قبیلہ مخزوم سے تھااوردوسرے کاتعلق قبیلہ زہرہ سے تھا، انہیں آپ نے ہدایت دی: “تم دونوں معلوم کروکہ وہ کیاچاہتے ہیں اوران کے بارے میں پوری معلومات حاصل کرو۔ یہ دونوں حضرت عثمانؓ کی تادیبی کاروائی کاشکار ہوچکے تھے۔ تاہم ان دونوں نے حق وصداقت کی پاس داری کی اورکینہ لے کرنہیں گئے۔ جب ان (شورشوں پسندوں) نے ان دونوں اشخاص کودیکھاتوانہوں نے دونوں کواپنے مطالبات سے مطلع کیا۔ ان دونوں نے ان سے پوچھا: “تمہارے ساتھ اہل مدینہ میں سے کون ہے”؟ وہ بولے تین افرادہیں۔ انہوں نے پوچھا: “تم کیاکرناچاہتے ہو؟” وہ بولے “ہم انہیں (حضرت عثمانؓ کو) چندباتیں یاددلاناچاہتےہیں جنھیں ہم نےلوگوں کے دلوں میں راسخ کردیاہے۔ پھرواپس آکرہم عوام کوبتائیں گےکہ ہم نے انہیں یہ باتیں یاددلائیں مگرانہوں نے ان کی تلافی نہیں کی اورنہ توبہ کی۔ اس کے بعدہم حاجیوں کی حیثیت سے آئیں گےاورانہیں گھیرکرمعزول کردیں گےاوراگروہ اس سے انکار کریں توہم انہیں قتل کردیں گے”۔

(ان کایہ پروگرام سن کر) وہ دونوں واپس آئے اورحضرت عثمانؓ کوتمام صورت حال سے مطلع کیا۔ آپؓ ہنسنے لگے اورپھرفرمایا: “اے اﷲتوان کی اصلاح فرمااوراگرتونے انہیں درست نہیں کیاتووہ (امت اسلامیہ میں) تفرقہ اندازی اورانتشارپیداکردیں گے۔ جہاں تک عمار کاتعلق ہے، انہوں نے عباس بن عتبہ بن ابی لہب پرحملہ کیاتھااوراس سے جنگ کی تھی۔ محمد بن ابی بکرپرتعجب ہےکہ وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ حقوق ان کے ذمہ لازم نہیں ہیں۔ ابن سہلہ بھی ابتلااورفتنہ کاشکارہورہے ہیں”۔

آپ نے اہل کوفہ اوراہل بصرہ کو خط لکھے اورنمازمیں شریک ہونے کااعلان کرایاجب رسول اﷲﷺکے صحابہ کرامؓ نے آپؓ کوچاروں طرف سے گھیرلیاتوآپ نے حمدوثناکے بعدان لوگوں کے حالات سے انہیں مطلع کیااوروہ دونوں (مخبربھی) کھڑےہوگئے۔ سب نے متفق ہوکریہ کہاآپ ان سب کوقتل کردیں کیونکہ رسول اﷲﷺنے فرمایاہے: “جوشخص مسلمانوں کا (مستقل) خلیفہ ہوتے ہوئے اپنے یاکسی اورشخص کے لئے پروپیگنڈا (دعوت) کرے تواس پراﷲکی لعنت ہےتم اسے قتل کردو”۔ حضرت عمربن الخطاب رضی اﷲعنہ نے بھی فرمایاہے: “میں تمہارے لئے(ایسے شخص کے لئے) کوئی رعایت نہیں دیتاہوں مگریہ کہ تم اسے مارڈالو۔ میں بھی (اس کام میں) تمہاراشریک ہوں”۔

پھرآہستہ آہستہ ان اختلافات نے بغاوت کی شکل اختیارکرلی چنانچہ دارالحکومت مدینہ منورہ پرباغیوں نے چڑھائی کردی۔ باغیوں نے مدینہ شریف کی ناکہ بندی کرلی اورسیدنا عثمان غنیؓ کے مکان کامحاصرہ کرلیا۔ حضرت عثمانؓ کی آمدورفت رُک گئی حتیٰ کہ گھرسے باہرمسجدنبوی تک جانادشوار ہوگیا۔ باغیوں سے بچاؤ کےلئے دارعثمانی کے دروازے پرنگرانی کرنے والے سیدناحضرت عباس رضی اﷲعنہ کے صاحبزادے سیدناعبداﷲبن عباس رضی اﷲعنہ تھے جنہوں نے حتی المقدورفسادیوں کوباغیانہ حرکات سے سخت منع کیااورعثمان غنیؓ کی پوری طرح نگرانی کی۔ اسی دوران ایک روزحضرت عثمانؓ اپنے مکان کی چھت پرچڑھے اورآوازدیکرعبداﷲبن عباسؓ کوبلوایااوران سےکہاکہ حج کاموسم آگیاہے، آپ میری طرف سے امیرحج بن کرانتظامات حج سنبھال لیں۔ ابن عباسؓ نے جواباً عرض کیاکہ اﷲ کی قسم ان فسادیوں کے ساتھ جہاد کرنامیرے نزدیک حج بیت اﷲسے زیادہ عزیزہے۔ پھرحضرت عثمانؓ نے ان کو اﷲکی قسم دے کرفرمایاکہ آپ ضرور جائیں۔ چنانچہ ابن عباسؓ کےامیر حج بن کرروانہ ہونےکےکچھ مدت بعد ۱۸ ذوالحجہ۳۵ہجری کوخلیفہ ثالث حضرت عثمان غنی ذوالنورین رضی اﷲعنہ کوظلماًشہیدکردیاگیا‘‘۔ (تاريخ الطبری، تاريخ الرسل والملوك: ج۴، ص۴۰۵-۴۱۱)

اپنا تبصرہ لکھیں