🔹 نکاح ام کلثوم ع اور ایک منگھڑت روایت🔹
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
شیعہ کی نکاح اُم کلثوم سے بچنے کی نئی کوشش
🖋️ سید علی معاویہ
شیعوں کو جب یہ پتہ چلتا ہے کے سیدنا علی علیہ السّلام نے اپنی بیٹی سیدنا عمر علیہ السّلام کو دی اور ان سے نکاح کیا تو انکے اندر آگ لگتی ہے جس سے بھاگنے کے وہ نئے نئے طریقے نکال لیتے ہیں۔ آج کل شیعوں کا ابّو جان ملّا یاری اس سے بچنے کا نیا راستہ نکال لایا ہے جسکو آج ہم بند کرنے جا رہے ہیں۔ یاری ایک روایت پیش کرتا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کے سیدنا علی نے اپنی بیٹی اُم کلثوم کی جگہ ایک جنّ کی سیدنا عمر علیہ السلام سے شادی کردی 🥲😂۔ پہلے وہ روایت نقل کرتے ہیں اور پھر اُسکی سند پر بات کرتے ہیں۔
سند:
عن أبي بصير جدعان بن نصر، حدثنا أبو عبدالله محمد بن مسعدة : حدثنا محمد بن حمويه بن إسماعيل الأربنوئي ، عن أبي عبدالله الزبيني ، عن عمر بن أذينة [ قال : ] قيل لأبي عبد الله الله
📙 الخرائج والجرائح جلد 2 صفحہ 825 – 826
یہ روایت بلکل من گھڑت ہے
علت نمبر 1:
محمد بن مسعدة
اس کے بارے میں علامہ جواہری علامہ خوئی کا قول نقل کرتے ہیں
” مجہول“
📕 المفید من معجم الرجال الحدیث صفحہ 577
اسی طرح علامہ علی الشاھرودی فرماتے ہیں ” لم يزکروة ” یعنی مجہول
📗 مستدرکات فی علم الرجال الحدیث جلد 7 صفحہ 322
علت نمبر 2:
محمد بن حمویہ بن اسماعیل اسکے بارے میں علامہ علی الشاھرودی فرماتے ہیں ” لم يزکروة ” یعنی مجہول۔
کئی علماء جیسے شریف المرتضیٰ اور مجلسی وغیرہ نے نکاح اُم کلثوم و عمر بن الخطاب علیہ السلام کو تواتر کا درجہ دیا ہے۔
چونکہ اخباریوں کے نزدیک سند حجت نہیں اس لیے ہم ان سے روایات سے ہی بات کرینگے۔
آپکے چھٹے امام جعفر صادق رح فرماتے ہیں کے اُم کلثوم ایسی شرم گاہ ہے جسکو ہم سے چھین لیا گیا۔ جب اُم کلثوم چھینی ہی نہیں گئیں تو پھر اس روایت کا کیا مطلب۔ جبکہ آپ یہ بلکل ثابت نہیں کرسکتے ہیں کے یہ انہوں ہے تقیہ کرتے ہوئے فرمایا۔
<><><><><><><><><><><><><><><><><>
♦️ نکاح ام کلثوم ع اور روافض کی بےبسی ♦️
بحار الانوار، جلد اکتالیس، صفحہ 281 میں ملا باقر مجلسی نے الخرائج والجرائح کے حوالہ سے روایت نقل کی ہے جس میں سیدنا عمر علیہ السلام کہ شادی ام کلثوم سلام اللہ علیہا کے روپ میں جنیہ سے ہوئی، اس روایت میں سند کے اعتبار سے من گھڑت ہونے کے ساتھ ساتھ مزید علتیں بھی ہیں۔
1) سیدنا عمر علیہ السلام کی ام کلثوم سلام اللہ علیہا سے شادی کی متواتر روایات (کتاب الکافی وغیرھم) کے مقابل میں یہ خبر واحد بلکہ منکر روایت ہے۔
2) الخرائج والجرائح چھٹی ہجری کی کتاب ہے جوکہ تیسری ہجری کی کتاب الکافی، جو کہ اصول اربعہ کی پہلی، اہم اور انکے ہاں مسلمہ احادیث کی کتاب ہے، کے مقابل کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔
3) محمد بن یعقوب الکلینی (مولف: الکافی) جوکہ روافض کے نزدیک ثقہ الاسلام ہے کہ مقابل قطب الدين الراوندي (مولف: الخرائج والجرائح) کی کوئی حیثیت نہیں۔
4) الراوندي جس سے روایت کر رہا ہے وہ اسکے شیوخ میں سے نہیں ہے جو کہ سند میں انقطاع کو ظاہر کرتا ہے۔
5) اس روایت کا متن مزید بہت سے جھوٹ پر مشتمل ہے مثلا اس جنیہ نے عمر علیہ السلام کو قتل کیا معاذ اللہ، انکی میراث پر قابض ہوئی اور نجران کی طرف چلی گئی، پھر علی علیہ السلام نے ام کلثوم سلام اللہ علیہا کو ظاہر کر دیا، اب یہ بات متفق علیہ ہے کہ عمر علیہ السلام کی شہادت مجوسی غلام ابو لولو فیروز کے ہاتھوں مصلی رسول ع پر ہوئی، جس نے پھر ڈر کے مارے موقع پر ہی خودکشی کرلی، ناکہ کسی جنیہ کے ہاتھوں جوکہ زندہ سلامت نجران چلی گئی ہو، جب کہ یہ بات بھی متفق علیہ ہے کہ عمر علیہ السلام کی شہادت کے بعد علی علیہ السلام نے عدت ہی میں ام کلثوم سلام اللہ علیہا کو، بمعہ انکی اولاد زید ورقیہ ع، اپنے گھر لے آئے ناکہ اسکو چھپایا ہوا تھا اور پھر ظاہر کیا۔
حاصل تحریر یہ ہے کہ روافض، نکاح ام کلثوم ع سے زچ ہوکر جھوٹ پر مشتمل ایسی روایت لائے ہیں جوکہ انکی مزید رسوائی اور جگ ہنسائی پر مشتمل ہے۔
<><><><><><><><><><><><><><><><><>
اس روایت میں چونکہ محمد بن مسعدہ مجہول ہے اس لئے اس کے مقابل دیگر متواتر روایات کو ترجیح حاصل رہے گی۔
جب مجہول یا ضعیف راوی صحیح روایت سے متضاد یا مخالفت میں کوئی روایت بیان کریں تو
اسکا حل ملاں باقر مجلسی نے ملاذ الاخیار کے صفحہ نمبر 27 پر یوں بیان کیا ہے کہ:
روایات کے جمع اور تعارض کے وقت ضروری ہے کہ راویان کے احوال کو مد نظر رکھا جائے۔
سو مذکورہ بالا روایت (جنیہ والی) سند میں چونکہ محمد بن مسعدہ مجہول ہے اس لئے اس کے مقابل دیگر متواتر روایات کو ترجیح حاصل ہو