اصول کافی اور اس کے صحت عندالشیعہ ہونے پر دلائل

اصول کافی کی روایات جن میں اللہ و اس کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور اصحاب رسول اور خاص کر اہل بیت کی حد درجہ گستاخانہ عبارات موجود ہیں جب میں بندہ ناچیز رضوی بھائی نے اس پر پوسٹ کی تو شیعہ کچھ لوگ میدان میں آئے اور کہا کہ یہ رویات ضعیف ہیں ملا باقر مجلسی نے مراہ العقول میں حکم لگایا کہ ضعیف ہیں تو جواب عرض کیا جا رہا ہے کہ ملا باقر مجلسی مراہ لعقول میں حکم لگا کر یہ بھی بہت کم جگہ پر وضاحت کرتا ہے کہ اس نے یہ رویت ضعیف کس بنیاد پر بتائی
وہ بس کہتا کہ حدیث سادس عشر ضعیف بس

کس راوی یا کس علت کی وجہ سے ضعیف ہے کچھ پتہ نہیں

لہذا مراہ العقول کی کسی روایت کو ضعیف کہنے سے وہ ضعیف نہیں ہو جاتی جب تک علت واضع نہ ہو

ملا باقر مجلسی خود ایک اخباری عالم ہے وہ کیسے رویت کو ضعیف کہہ سکتا ہے

پہلے ہم کچھ اقوال اصول کافی کی صحت پر بیان کرتے ہیں اس کے بعد پھر آتے ہیں ملا باقر مجلسی پر

شیعہ کے شیخ محمد امین الاسترآبادی کتاب الکنی والالقاب القمی جلد دوم 594 پر لکھتے ہیں

ہم نے علماء و مشائخ سے سنا ہے کہ اسلام میں ایسی کوئی کتاب لکھی ہی نہیں گئ جو اصول کافی کے مساوی ہو یا ہم پلہ ہو

شیخ العباس قمی نے کہا الکافی تمام اسلامی کتب میں عظیم المرتبت ہے

الکافی تمام ! اسلامی کتابوں میں سے عظیم ا المرتبت کتاب ہے،

ر قد اتفق اهل الامامة و جمهور الشيعة علي تفصيل هذا الكتاب ولا حذنة الثقة بخبره والاكتفاء باحكامة وهم مجمعون على الإقرار بارتفاع درجة و علوقدره على انه القطب الذي عليه مدارروايات الثقات ان الكليني أوثق الناس في الحديث وأن المعروضين بالضبط والاتقان إلى اليوم وعندهم اجل وأفضل من جميع اصول الأحاديث عليه، و
باطل، وقد ترك السائله المتحير

[ مقدمة مظفري ص 25

یعنی تمام شیعہ خیر البریہ کا اس کتاب کی فضیلت اور اسکے قابل عمل ووثوق ہونے پر اتفاق ہے انکا اس امر پر اجماع ہے کہ اس کتاب کا درجہ تمام کتب ا احادیث سے اجل وارفع ہے اور یہ کتاب وہ قطب ہے جس پر قابل اعتماد راوی جو ضبط و اتقان میں مشہور ہیں کی روایات کا دارومدار ہے

الخوئی اپنے شیخ نائینی کے بارے میں لکھتا ہے کہ اس نے کہا الکافی کے اسناد میں مناقشہ
نا اہلوں کا پیشہ ہے ۔۔

وسمعت شيخنا الاستاذ الشيخ محمد حسين النائيني : قدس سره : في مجلس بحثه يقول: (إن المناقشة في إسناد روايات الكافي حرفة العاجز).
{ كتاب الانتصار للنائيني في صحة الكافي}

شیخ علی ابوالحسن : عصر حاضر کے محقق شیعہ علماء میں ہیں ان کا بھی یہی موقف ہیں کہ اصول کافی تمام
روایات صحیح ہے اور انتہائی غصہ نظر آتے ہیں الخوئی کے الکافی کے روایات کو قرآن کے خلاف کہنے پر

الخوئی کو جواب دیتے ہوئے اپنی کتاب “الفؤاد الرجالیہ” کے ساتھ .
رساله ” الانتصار للنائيني في صحۃ الکافی” میں لکھتا ہے کہُ
کاش وہ (الخوئی ) اس دعوی باطلہ سے پہلے تامل سے کام لیتا کیا اس (کلینی) . کے لئے یہ جائز تھا کہ وہ
الکافی میں ایسی روایات نقل کرتا جو قرآن کی مخالفت کرتی ہیں؟ اور یا جس میں شکوک و شبہات فيه ہوں اور
یا اندھے اہلسنت کی موافقت ہوں باوجود بیس سال (الکافی پر) کام کرنے کے ۔۔
یعنی کلینی کے مقدمہ الکافی میں تمام کہ تمام روایات کے صحیح ہونے کا ذکر اثقة السلام الکافی سید علی ابوالحسن نے تعجب سے کیا کہ
تو (لعنت) ہے رجال کے سب سے ماہر شیخ نجاشی پر جس نے کلینی کو تمام لوگوں میں سب سے زیاده ثقه و ثبت قرار دیا
اور ہزار (لعنتیں) ہوں ایسے ثقہ ثبت (کلینی) پر، جس نے اپنی زندگی کے بیس سال ضائع کئے شاذ اور ایسی روایات جمع کرنے پر جو مخالف ہے اس کے جس پر سب کا اتفاق ہیں (یعنی وہ اخبار و
روایات)
کیونکہ اس نے اس میں ایسی واہیات اور باطل روایات جمع کی ہیں جو قرآن کی مخالفت کرتی ہیں
اور اس نے سائل اور اپنے بھائیوں، اور اپنے اہل ملت کو حیرت زدہ چھوڑ دیا کیونکہ وہ حدیث میں تمیز کرنا نہیں جانتے جو صحیح و ضعیف کو نہیں سمجھتے اور نا ہی یہ کہ کونسی روایت پر عمل جائز ہے
اور کس پر جائز نہیں

علی ابوالحسن کہتا ہے کلینی ہیں کو مقدمہ میں میں کچھ ؟ یوں لکھنا چاہئے تھا

پھر وہ (کلینی )کہتا ہے: اللہ نے مجھے توفیق دی ہے کہ ایک ایسی کتاب مرتب کروں جو علم دین حاصل کرنے کے اور عمل کرنے ان آثارِ صحیحہ پر لیکن میں ان روایات میں تمیز کرنا نہیں جانتا

اور میں اخبار کا عالم ہوں ، رجال کا ماہر ہوں اور میں حدیث میں سب لوگوں سے زیادہ ثقہ و ثبت ہوں اور میں شیعہ مذھب کے بڑے علماء جو حدیث کے جاننے والے فقھاء ہیں ان کا شیخ ہوں
اور میں شاگرد ہوں ان کا جو حدیث و رجال کے بہت بڑے عالم ہیں لیکن اے میرے متحیر (کنفیوزڈ) سائل یہ میں نے تم پر چھوڑ دیا اور تمہارے بھائیوں اور ملت پر کہ ان روایات میں ( صحیح و ضعیف ) کی تمیز کر سکے کیونکہ بیس سال اس پر کام کرنے کے بعد ایک میں خود کو ایسا کرنے سے عاجز پاتا ہوں تو میں نے یہ فیصلہ تم پر چھوڑ دیا کیونکہ میرا علم قلیل ہے اور میں آپ سے معافی مانگتا ہوں کہ میں آپ کی خواہش کو پورا نہیں کر سکتا،

اور مجھے افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے: کہ ہمارے پاس صحیح احادیث بہت کم ہیں اور اصول کی کتابیں ساری ضائع ہو گئیں اور ہم علماء سے نہیں مل سکے سو جب وہ مر گئے تو علم بھی ان کے ساتھ مر کیا

یعنی خوئی کے رد میں شیعہ عالم علی ابوالحسن نے اپنی کتاب میں یہ تنقید کی اور کہا کہ کلینی پر یہ سن الزام عائد ہوتا ہے

رہی ملا باقر مجلسی کی جرحُ کی تو اس کا کوئی دین ایمان نہیں وہ ایک رویت ایک ہی سند کے ساتھ دو الگ کتب میں لکھ کر ایک رویت کو صحیح اور دوسری کتب میں اس ہی رویت کو ضعیف کہتا ہے مثلا یہ سکین دیکھ لیں ایک ہی رویت پر دو الگ حکم لگا دیے

اس رویت کو اس کتاب میں صحیح کہا اب دوسری کتاب

ملا باقر خود کہتا کہ وہ اخباری طریق کو صحیح جانتا ہے ملا باقر مجلسی اخباری تھا اور اصولی کا نظریہ لکھتا ہے کہُ اگر رویت امام معصوم تک متصل سند ہو تو رویت صحیح ہی ہوگی اور کوئی عدالت تعدیل کی ضرورت نہیں