ایک شیعہ عالم ؛ جناب حسین الامینی نے ایک کتاب لکھی جس کا نام “شیعیت کا مقدمہ” ہے۔ جس میں انہوں نے اپنے شیعہ مذہب کو اہلِ سنت کی کتب سے ثابت کرنے کی ابتر و لغو اور ناکام ترین کوشش کی ہے۔ اسی کتاب میں جناب یہ ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی کہ اہلِ سنت والجماعة کی کتب میں بھی تحریفِ قرآن موجود ہے۔ اسی پر جناب ، قرآنِ کریم کی آخری دو سورتوں کے بارے میں جسٹس پیر محمد کرم شاہ صاحب ازہری بھیروی کے حوالے سے لکھتے ہیں:
“انہیں اپنی تفسیر میں کافی وضاحت سے تردید کرنا پڑی وہ قرآن کی آخری دو سورتوں پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں: بعض ایسی روایات موجود ہیں جن میں یہ مذکور ہے کہ حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ انہیں قرآن کی سورتیں شمار نہیں کیا کرتے تھے اور جو مصحف انہوں نے مرتب کیا تھا اس میں یہ سورتیں موجود نہیں تھیں۔ پھر آگے لکھتے ہیں کہ علامہ سیوطی نے صراحتًا لکھا ہے کہ امام احمد بزار’ طبرانی ابنِ مردویہ نے صحیح طریقوں سے حضرت ابن مسعود سے نقل کیا ہے کہ کہ وہ معوذتین (سورہ الفلق اور سورہ الناس) کو مصحف سے محو کر دیا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے قرآن کے ساتھ ایسی چیزیں خلط ملط نہ کرو جو اس میں سے نہیں ہیں۔ حضورﷺ نے تو ان دو سورتوں کے ساتھ فقط پناہ کا حکم دیا تھا کہ حضرت ابن مسعودؓ ان سورتوں کی تلاوت نماز میں نہ کیا کرتے۔” [کتاب: شیعیت کا مقدمہ؛ صفحہ: 292]
کہا جاتا ہے کہ مجرم جتنا بھی شاطر ہو کوئی نہ کوئی سراغ چھوڑ ہی جاتا ہے۔ امینی صاحب کا پیر صاحب کے متعلّق یہ جملہ کہ “انہیں اپنی تفسیر میں کافی وضاحت سے تردید کرنا پڑی”۔ کیسی وضاحت؟ کس کی تردید؟؟ اس سے واضح معلوم ہوتا ہے کہ ؎
گَل وِچ کُج ہور اے۔
جناب! اگر آپ کا یہی طرزِ استدلال ہے ، تو پھر اسی طرح کا استدلال اگر میں کرنے لگوں تو آپ اور دوسرے شیعہ اپنی ہی تحریرات کی روشنی میں غلیظ ترین کافر ثابت ہو سکتے ہیں۔ آپ نے لکھا ہے کہ “شیعوں کا عقیدہ یہ ہے کہ وفات پیغمبر ؐ کے بعد سوائے تین چار کے تمام صحابہ کرام مرتد ہو گئے تھے”۔ [صفحہ:378]
اسی طرح آپ نے یہ بھی لکھا ہے کہ: “شیعہ اس قرآن کو نہیں مانتے”۔ [صفحہ: 382]
آپ نے یہ بھی لکھا ہے کہ: “شیعہ مساجد اور شیعوں کے گھروں میں اس قرآن کی تلاوت نہیں کی جاتی جس کی برادرانِ اہلسنت کرتے ہیں۔” [صفحہ: 382]
نیز لکھا: “شیعوں کا اس قرآن کے علاوہ کسی اور قرآن پر اعتقاد ہے”۔ [صفحہ: 382]
مگر حقیقت بالکل اس کے برعکس ہے۔ آپ مجھے یہی کہیں گے کہ جس طرح ہم نے علماءِ اہلِ سنت کی عبارات کو سیاق و سباق سے بالکل ہٹا کر پیش کیا ہے اسی طرح آپ نے بھی ہماری عبارات کو سیاق و سباق سے بالکل ہٹا کر پیش کیا ہے۔
پیر کرم شاہ صاحب کی اصل عبارت کو سیاق و سباق سے بالکل ہٹا کر پیش کرنے کا نام ہی امینیت ہے۔
☆جسٹس پیر محمد کرم شاہ صاحب ازہری کی اصل عبارت:
پیر صاحب لکھتے ہیں: “کیا یہ دونوں سورتیں قرآنِ کریم کا جزو ہیں اور قرآنِ کریم کی دوسری سورتوں کی طرح ان کا جزوِ قرآن ہونا قطعی الثبوت ہے؟ یہ سوال اس لیے پیدا ہوا کہ بعض ایسی روایات موجود ہیں جن میں یہ مذکور ہے کہ حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ انہیں قرآن کی سورتیں شمار نہیں کیا کرتے تھے اور جو مصحف انہوں نے مرتب کیا تھا اس میں یہ سورتیں موجود نہیں تھیں۔ علامہ سیوطیؒ نے صراحتًا لکھا ہے کہ أخرج أحمد والبزار والطبراني وابن مردويه من طرق صحيحة عن ابن عباس وابن مسعود أنه كان يحك المعوّذتين من المصحف ويقول :لا تخلطوا القرآن بما ليس منه، إنهما ليستا من كتاب الله، إنما أمر النبي صلى الله عليه وسلم أن يتعوّذ بهما، وكان ابن مسعود لا يقرأ بهما(الدر المنثور)۔
ترجمہ: امام احمد بزار’ طبرانی ابنِ مردویہ نے صحیح طریقوں سے حضرت ابن مسعود سے نقل کیا ہے کہ کہ وہ معوذتین کو کو مصحف سے محو کر دیا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے قرآن کے ساتھ ایسی چیزیں خلط ملط نہ کرو جو اس میں سے نہیں ہیں۔ حضورﷺ نے تو ان دو سورتوں کے ساتھ فقط پناہ کا حکم دیا تھا کہ حضرت ابن مسعودؓ ان سورتوں کی تلاوت نماز میں نہ کیا کرتے۔ (الدر المنثور)” [تفسیر ضیاء القرآن ؛ جلد:5 ؛ صفحہ:720] دراصل پیر صاحب نے یہ سوال لکھا ہے۔ اس کے بعد اس کی پوری (Detail) توضیح اور جواب بیان کیا ہے۔ امینی صاحب نے جو لکھا ہے ، “انہیں اپنی تفسیر میں کافی وضاحت سے تردید کرنا پڑی”۔ یہ اُسی جواب کے متعلّق لکھا ہے جو پیر صاحب نے تحریر کیا ہے۔ جب اتنی وضاحت بھرا جواب آپ نے خود ہی دیکھ لیا تھا تو اعتراض کیسا؎
شرم تم کو مگر نہیں آتی
مزید معلومات کے لیے ہمارے یوٹیوب چینل “MUHASBA” کی طرف رجوع فرمائیں۔