695

کیا سونےکے نصاب کو زکوۃ کا معیار قرار دیا جاسکتا ہے؟

از علامہ دانش حنفی

کیا سونے کے نصاب کو زکوة کا معیار قرار دیا جاسکتا ہے؟

بسم الله الرحمن الرحيم

شریعت نے سونا، چاندی میں سے کوئی نصاب بہ طور معیار متعین نہیں کیا ہے اور اب بھی بعض صورتوں میں سونے کا نصاب ہی معتبر ہوتا ہے؛ البتہ احوال زمانہ کے اختلاف کے نتیجہ میں اصول اور دلائل شرع کی بنیاد پر وجوب زکوة کی اکثر صورتوں میں چاندی کا نصاب معتبر ہوتا ہے اور چوں کہ چاندی، سونا ہر ایک کا نصاب شریعت کی طرف از خود متعین ہے اور کسی ایک کو اپنی طرف سے معیار قرار دینے میں چاندی کے نصاب کا کالعدم ہونا لازم آتا ہے اور منصوص چیزوں میں تبدیلی جائز نہیں ؛ اس لیے جو لوگ وجوب زکوة کی تمام صورتوں میں سونے کے نصاب کو معیار قرار دینے کی رائے رکھتے ہیں، ان کی رائے صحیح
نہیں اور اکابر علماء کا متفقہ موقف یہی ہے کہ جن صورتو ں میں چاندی کا نصاب معتبر ہوتا ہے، ان میں ہم اپنی طرف سے زکوة ساقط کرنے کے لیے سونے کے نصاب کو معیار قرار نہیں دے سکتے ۔ مسئلہ کی مزید تشریح کے لیے عرض ہے

شریعت میں سات قسم کے اموال میں زکوة واجب ہوتی ہے اور ان میں سے اکثر کا نصاب مختلف ہے :پہلی قسم: اونٹ،دوسری قسم: گائے بیل اسی حکم میں بھینس ہے تیسری قسم: بکرا بکری ۔چوتھی قسم: سونا۔ پانچویں قسم: چاندی، چھٹی قسم : مال تجارت، ساتویں قسم: کرنسی۔

ان میں سے پہلی تین قسم کے اموال کا نصاب بھی الگ ہے اور ہر ایک مستقل ہے، کسی کا دوسرے کے ساتھ ضم نہیں ہوتا، اسی طرح ان میں سے کسی کا سونا، چاندی وغیرہ کے ساتھ بھی ضم نہیں ہوتا اور نہ ہی ان کا آپس میں کسی کے ساتھ ضم ہوتا ہے۔

اور سونا، وچاندی دونوں کا نصاب تو الگ الگ ہے ؛ البتہ ان کا آپس میں ضم ہوتا ہے، اور یہ ائمہ احناف کے نزدیک متفق علیہ ہے
اور دونوں میں ضم کا حکم اس وجہ سے ہے کہ دونوں ثمنیت میں متحد ہیں۔

اور مال تجارت کا شریعت میں کوئی مستقل نصاب نہیں ہے ؛ بلکہ مال تجارت، سونا اور چاندی تینوں، مال نامی ہونے میں متفق ہیں، اگرچہ سونا، چاندی خلقتاً ووضعاً نامی ہیں اور مال تجارت جعلاً؛ اس لیے مال تجارت سونا یا چاندی میں سے کسی کے نصاب کو پہنچ جائے، زکوة واجب ہوگی۔ اور چوں کہ مال تجارت کا ان دونوں کے ساتھ الحاق صفت نمو کی وجہ سے ہے اور صفت نمو دونوں میں ہے؛ اس لیے نصاب اور مقدار زکوة میں سونا یا چاندی کے نصاب میں سے کوئی ایک لازمی طور پر متعین نہ ہوگا؛ بلکہ جس کسی سے بھی نصاب مکمل ہوجائے گا، زکوة واجب ہوگی، اس میں ائمہ احناف میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں ہے۔اور ما ل تجارت کی زکوة میں لا علی التعیین سونا یا چاندی کے نصاب کی مالیت کا اعتبار ہوتا ہے، خواہ آدمی کے پاس مال تجارت کے ساتھ حقیقت میں سونا یا چاندی کا کچھ نصاب ہو یا نہ ہو۔

اس صورت میں جب ہر تقویم میں مال تجارت نصاب کے بہ قدر ہو،اور اگر چاندی سے قیمت لگانے میں مال تجارت نصاب کو پہنچتا ہے اور سونا سے قیمت لگانے میں نصاب کو نہیں پہنچتا تو فقہائے احناف کی صراحت کے مطابق اس صورت میں ائمہ احناف کے نزدیک بالاتفاق مال تجارت کی قیمت چاندی سے لگانا ضروری ہوگا، سونے سے اس کی قیمت لگاکر وجوب زکوة سے فرار اختیار کرنے کی اجازت نہ ہوگی۔
سامان تجارت کی قیمت دراہم ودنانیر میں اس نقد سے لگائی جائے گی، جس سے نصاب مکمل ہو، اس سے نہیں لگائی جائے گی، جس سے نصاب مکمل نہ ہو مساکین کی رعایت میں ؛ کیوں کہ وہ شخص اس قدر مال سے غنی ہے۔ ألا تری أن عروض التجارة تقوم علی ھذا الاعتبار فإن قومت بالدراھم کمل النصاب وإن قومت بالدنانیر لم یکمل فقوموھا بالدراھم حظاً للمساکین إذ کان غنیاً بھذا القدر من المال۔

عنایہ شرح ہدایہ میں بہ حوالہ نہایہ اس مسئلہ کو متفق علیہ نقل کیا گیا ہے، چناں چہ فرماتے ہیں:
ألاتری أنہ إن کان یقومہا بأحد النقدین یتم النصاب وبالآخر لایتم یقوم بمایتم بالاتفاق احتیاطاً لحق الفقراء فکذلک ھذا کذا فی النھایة
الجوہرة النیرة میں اس مسئلہ کو اجماعی قرار دیا گیا ہے، چناں چہ فرماتے ہیں:
والخلاف فیما اذاکانت تبلغ بکلا النقدین نصاباً،أما إذا بلغت بأحدھما قومہا بالبالغ إجماعاً(الجوھرة النیرة،ا)

علامہ ابن الہمام نے بھی اس صورت کو غیر اختلافی قرار دیا ہے اور تائید میں نہایہ اور خلاصہ کی عبارت پیش کی ہے اور صاحب ہدایہ نے نوادر کی روایت کی تشریح میں انفع کا جو مطلب تحریر فرمایاہے، اس پر یہ نقد کیا ہے اور یہ فرمایا: لا خلاف في تعین الأنفع بھذا المعنی (دیکھئے: فتح القدیر ۱:
اور علامہ ابن نجیم مصری
نے بھی نہایہ اور خلاصہ وغیرہ کی عبارتیں نقل کرنے کے بعد آخر میں یہ فرمایا:

فالحاصل أن المذھب تخییرہ إلا إذا کان لا یبلغ بأحدھما نصاباً تعین التقویم بما یبلغ نصاباً (البحر الرائق، ۲: )

بدائع الصنائع میں علامہ کاسانی نے امالی کی روایت کی دلیل میں اس مسئلہ کو بہ طور تائید پیش کیا ہے، جس سے ان کے نزدیک بھی اس مسئلہ کا اجماعی ہونا معلوم ہوتا ہے؛ کیوں کہ مختلف فیہ مسئلہ میں مختلف فیہ روایت یا جزئیہ بہ طور تائید پیش نہیں کیا جاتا، بدائع کی عبارت ملاحظہ ہو:

ألا تری أنہ لوکان بالتقویم بأحدھما یتم النصاب وبالآخر لا فإنہ یقوم بما یتم بہ النصاب نظراً للفقراء واحتیاطاً، کذا ھذا

اور مال زکوة کی ایک قسم:کرنسی ہے، جو ثمن عرفی ہے اور اس میں بھی نمو ہے؛ اس لیے مال تجارت کا جو حکم ہے، وہ کرنسی کا بھی ہوگا؛ بلکہ اس سے بھی اعلی ہوگا؛ کیوں کہ اس میں صفت نمو کے علاوہ ثمنیت بھی پائی جاتی ہے۔ اور شریعت کی نظر میں سونا اور چاندی دونوں ثمنیت میں یکساں وبرابر ہیں، کوئی دوسرے پر فائق نہیں ہے؛ اس لیے اس کا الحاق دونوں میں سے ہر ایک ساتھ ہوگا، کسی ایک کے ساتھ دائمی طور پر اس کا الحاق متعین نہ ہوگا۔

کسی کے پاس کچھ سونا اور کچھ مال تجارت یا کرنسی ہو یا تینوں میں سے ہر ایک کچھ کچھ ہو تو چوں کہ مال تجارت یا کرنسی میں لا علی التعیین سونا، چاندی میں سے کسی ایک کا نصاب معتبر ہوتا ہے؛ اس لیے اس کی مالیت دور حاضر میں چاندی سے لگائی جائے گی اور جب سونا کے ساتھ چاندی ہو مفتی بہ قول کے مطابق ضم بالقیمة ہوتا ہے؛ لہٰذا مال تجارت یا کرنسی کی صورت میں بھی ضم بالقیمة ہوگا اور باعتبار قیمت چاندی کا نصاب مکمل ہوجانے کی صورت میں زکوة واجب ہوگی۔
اور ان دونوں میں دوسری شکل میں کسی اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں ہے؛ کیوں کہ چاندی میں بہر حال چاندی ہی کا نصاب معتبر ہوگا اور اس کے ساتھ جو مال تجارت یا کرنسی پائی جاتی ہے اگر بالفرض اس میں سونے کا نصاب معتبر مانا جائے تو ضم کی صورت میں بہرحال قیمت ہی کا اعتبار کرنا ہوگا؛ کیوں کہ یہی قول مفتی بہ ہے اور ضم میں قیمت کا اعتبار کرنے میں دور حاضر چاندی ہی کا نصاب مدار ومعیار ہوگا۔
اور اگر کوئی شخص یہ کہے کہ مال تجارت کی تقویم میں آدمی کو سونا یا چاندی میں سے کسی سے بھی قیمت لگانے کا اختیار ہوتا ہے تو جواباً یہ عرض ہوگا کہ اصل نصاب کی تمامیت میں اختیار نہیں ہوتا، وہاں بہر صورت اسی نقدکا اعتبار ہوتا ہے، جس سے نصاب بنے اور زکوة واجب ہو، یہ مسئلہ متفق علیہ ہے جیسا کہ ماقبل میں ذکر کیا گیا۔
اسی طرح پہلی شکل میں بھی امام صاحب کے قول کے مطابق ضم کی صورت میں قیمت کا اعتبار ہوگا اور باعتبار قیمت چاندی کا نصاب مکمل ہوجانے کی صورت میں زکوة واجب ہوگی۔
اور مال تجارت کی تقویم کے سلسلہ میں جو اقوال آئے ہیں، اور متعدد فقہاء نے امالی کی روایت اور انفع سے تقویم کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی مال تجارت کی زکوة میں قیمت دینا چاہے تو وہ قیمت دے جس میں فقرا کا نفع زیادہ ہو، یعنی: جس سے فقراء بآسانی فائدہ اٹھاسکیں۔
کیا دور حاضر میں چاندی کا نصاب بہ طور معیار متعین ہے؟
دور حاضر میں چاندی کا نصاب از خود معیار بن گیا ہے، اسے بالقصد وارادہ پلاننگ کے تحت معیار بنایا نہیں گیا ہے اور اگریہ دائمی طور پر چاندی کے ساتھ خاص نہیں ہے، اگر سونے کے نصاب کی مالیت چاندی کے نصاب سے کم ہوجائے تو اس صورت میں سونے کے نصاب کا اعتبار ہوگا ، پس یہ چاندی کے نصاب کی مالیت سونے کے نصاب سے کم ہونے کی وجہ سے ہوگیا ہے ورنہ شریعت کی طرف سے یا فقہائے احناف کی طرف سے کسی پلان ومنصوبہ کے تحت چاندی کے نصاب کو معیار نہیں بنایا گیا ہے ؛ بلکہ یہ شریعت کے ایک عام اصول کی وجہ سے از خود ایسا ہوگیاجو سونے کے نصاب میں ہوسکتا ہے ، ناممکن نہیں ہے۔اور اس کا مدار محض انفع للفقراء نہیں ہے؛ بلکہ اس کا مدار اس پر ہے کہ قابل ضم مختلف نصاب جمع ہوجانے کی صورت میں مفتی بہ قول میں ضم بالقیمة کا اعتبار ہوتا ہے اور ضم بالقیمة میں چاندی کا نصاب پہلے پایا جاتا ہے ؛ کیوں کہ اس کی مالیت سونے کے نصاب سے کم ہے ؛ اس لیے ایسی صورت میں چاندی کا نصاب مکمل ہوجانے پروجوب زکوة کا حکم ہوتا ہے۔

اپ کچھ سوال کے جواب چاہتا ہوں
1 کیا نماز کی رکعات میں کمی ہوسکتی ہے
کیوں کی لوگ اب نمازی نہیں رہے
2 زکاتہ واجب ہونے کا حساب کیسے لگائے شرع شریف میں

3 عرف کی کتنی اقسام ہے اور کونسی معتبر ہے اور کونسی غیر معتبر نیز یہ بھی بتاۓ منصوص علیہ مسائل پر عرف ہوجاۓ تو کیا حکم ہے
4 شرع شریف میں ان اشیاء کا مثل انٹ بکری سونے چاندی نوت مال تجارت اور عشر کا نصاب کیسے لاگاۓ نیز یہ بھی بتاۓ کیا ان سب کے نصاب مین تبدیلی ہوسکتی ہے زمانہ کی وجہ سے اگر ہا یا نہیں جو بھی جواب ہوں
تو دلائل کے ساتھ جواب عطا ہو

5 نبی کریم نے فرمایا 200 درہم چاندی
یا 20 مثقال سونے پر زکاتہ واجب ہے اسکا کیا مطلب ہے

6 ۔200 درہم یا 20 مثقال سے کم میں کوئ زکاتہ نکالے تو واجب شمار ہوگی یا پھر نفل دونو کی وجہ بھی بتاۓ
7 سونے چاندی کا ₨ ہر دور میں اونچا نیچا رہا کیا کسی
1200 سال میں کسی فقیہ نے نصاب میں صرف سونے کا اعتبار کیا ہے اگر ہا تو جواب عطا فرمائے اگر نہیں تو کیوں نہیں کیا جبکی ₨ ہر دور میں برابر نہ رہا
8 کیا اجماع سے خروج کرنا جائز ہے
علامہ دانش حنفی
ہلدوانی نینیتال
09917420179

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں