338

تفسیر خزائن العرفان آیات 116.117.118.119…120.۔

آئیں قرآن سیکھیں تفسیر کے ساتھ
آج مورخہ 13 ستمبر 2021
05 صفر المظفر 1442.
سبق نمبر 31
سورۃ البقرہ آیت.
.116.117.118.119.120
ترجمہ کنزالایمان.
مترجم :امام اھلسنہ، مجدد دین و ملت، ولی نعمت ، عظیم البرکت، عظیم المرتبت، الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن۔
تفسیر: خزائن العرفان فی تفسیر القرآن.
مفسر: علامہ مولانا سید صدر الافاضل مفتی نعیم الدین مرادآبادی رحمۃ الھادی.

سورۃ البقرة آیت نمبر 116

أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَقَالُوا اتَّخَذَ اللّٰهُ وَلَدًا ۙ‌ سُبۡحٰنَهٗ ‌ؕ بَل لَّهٗ مَا فِى السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ‌ؕ كُلٌّ لَّهٗ قَانِتُوۡنَ.

ترجمہ: اور بولے خدا نے اپنے لیے اولاد رکھی پاکی ہے اسے بلکہ اسی کی مِلک ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب اس کے حضور گردن ڈالے ہیں،

 *تفسیر خزائن العرفان*

         (ف208)

شان نزول: یہود نے حضرت عزیر کو اور نصاری نے حضرت مسیح کو خدا کا بیٹا کہا مشرکین عرب نے فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں بتایا ان کے رد میں یہ آیت نازل ہوئی فرمایا سبحنہ، وہ پاک ہے اس سے کہ اس کے اولاد ہو اس کی طرف اولاد کی نسبت کرنا اس کو عیب لگانا اور بے ادبی ہے حدیث میں ہے کہ اللہ تعالی فرماتا ہے ابن آدم نے مجھے گالی دی میرے لئے اولاد بتائی میں اولاد اور بیوی سے پاک ہوں۔
(ف209)
اور مملوک ہونا اولاد ہونے کے منافی ہے جب تمام جہان اس کا مملوک ہے ،تو کوئی اولاد کیسے ہوسکتا ہے
مسئلہ : اگر کوئی اپنی اولاد کا مالک ہوجائے وہ اسی وقت آزاد ہوجائے گی۔

سورۃ البقرة آیت 117

بَدِيۡعُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ‌ؕ وَ اِذَا قَضٰٓى اَمۡرًا فَاِنَّمَا يَقُوۡلُ لَهٗ كُنۡ فَيَكُوۡنُ.
ترجمہ: نیا پیدا کرنے والا آسمانوں اور زمین کا اور جب کسی بات کا حکم فرمائے تو اس سے یہی فرماتا ہے کہ ہو جا وہ فورا ً ہو جاتی ہے۔

 *تفسیر خزائن العرفان*

      (ف210)

جس نے بغیر کسی مثال سابق کے اشیاء کو عدم سے وجود عطا فرمایا ۔
(ف211)
یعنی کائنات اس کے ارادہ فرماتے ہی وجود میں آجاتی ہے۔

سورۃ البقرة آیت 118

وَقَالَ الَّذِيۡنَ لَا يَعۡلَمُوۡنَ لَوۡلَا يُكَلِّمُنَا اللّٰهُ اَوۡ تَاۡتِيۡنَآ اٰيَةٌ ‌ ؕ كَذٰلِكَ قَالَ الَّذِيۡنَ مِنۡ قَبۡلِهِمۡ مِّثۡلَ قَوۡلِهِمۡؕ‌ تَشَابَهَتۡ قُلُوۡبُهُمۡ‌ؕ قَدۡ بَيَّنَّا الۡاٰيٰتِ لِقَوۡمٍ يُّوۡقِنُوۡنَ.
ترجمہ: اور جاہل بولے اللہ ہم سے کیوں نہیں کلام کرتا یا ہمیں کوئی نشانی ملے ان سے اگلوں نے بھی ایسی ہی کہی ان کی سی بات ان کے انکے دل ایک سے ہیں بیشک ہم نے نشانیاں کھول دیں یقین والوں کے لئے۔

تفسیر خزائن العرفان

      (ف212)

یعنی اہل کتاب یا مشرکین۔
(ف213)
یعنی بے واسطہ خود کیوں نہیں فرماتا جیسا کہ ملائکہ و انبیاء سے کلام فرماتا ہے یہ ان کا کمال تکبر اور نہایت سرکشی تھی، انہوں نے اپنے آپ کو انبیاء و ملائکہ کے برابر سمجھا۔ شان نزول :رافع بن خزیمہ نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا اگر آپ اللہ کے رسول ہیں تو اللہ سے فرمایئے وہ ہم سے کلام کرے ہم خود سنیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔
(ف214)
یہ ان آیات کا عنادا انکار ہے جو اللہ تعالی نے عطا فرمائیں۔
(ف215)
کوری و نابینائی اور کفروقساوت میں اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تسکین خاطر فرمائی گئی کہ آپ ان کی سرکشی اور معاندانہ انکار سے رنجیدہ نہ ہوں پچھلے کفار بھی انبیاء کے ساتھ ایسا ہی کرتے تھے۔
(ف216)
یعنی آیات قرآنی و معجزات باہرات انصاف والے کو سید عالم محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کا یقین دلانے کے لئے کافی ہیں مگر جو طالب یقین نہ ہو وہ دلائل سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا.

سورۃ البقرة آیت 119

اِنَّاۤ اَرۡسَلۡنٰكَ بِالۡحَـقِّ بَشِيۡرًا وَّنَذِيۡرًا ۙ‌ وَّلَا تُسۡئَـلُ عَنۡ اَصۡحٰبِ الۡجَحِيۡمِ.
ترجمہ: بیشک ہم نے تمہیں حق کے ساتھ بھیجا خوشخبری دیتا اور ڈر سناتا اور تم سے دوزخ والوں کا سوال نہ ہو گا۔

تفسیر خزائن العرفان

        (ف217)

کہ وہ کیوں ایمان نہ لائے اس لئے کہ آپ نے اپنا فرض تبلیغ پورے طور پر ادا فرمادیا۔

سورۃ البقرة آیت 120

وَلَنۡ تَرۡضٰى عَنۡكَ الۡيَهُوۡدُ وَلَا النَّصٰرٰى حَتّٰى تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمۡ‌ؕ قُلۡ اِنَّ هُدَى اللّٰهِ هُوَ الۡهُدٰى‌ؕ وَلَئِنِ اتَّبَعۡتَ اَهۡوَآءَهُمۡ بَعۡدَ الَّذِىۡ جَآءَكَ مِنَ الۡعِلۡمِ‌ۙ مَا لَـكَ مِنَ اللّٰهِ مِنۡ وَّلِىٍّ وَّلَا نَصِيۡرٍ.
ترجمہ: اور ہرگز تم سے یہود اور نصاری ٰ راضی نہ ہوں گے جب تک تم ان کے دین کی پیروی نہ کرو تم فرما دو اللہ ہی کی ہدایت ہدایت ہے اور ( اے سننے والے کسے باشد ) اگر تو ان کی خواہشوں کا پیرو ہوا بعد اس کے کہ تجھے علم آ چکا تو اللہ سے تیرا کوئی بچانے والا نہ ہو گا اور نہ مددگار

*تفسیر خزائن العرفان*

      (ف218)

اور یہ ناممکن کیونکہ وہ باطل پر ہیں۔
(ف219)
وہی قابل اتباع ہے اور اس کے سوا ہر ایک راہ باطل و ضلالت ۔
(ف220)
یہ خطاب امت محمدیہ کو ہے کہ جب تم نے جان لیا کہ سید انبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہارے پاس حق و ہدایت لائے تو تم ہر گز کفار کی خواہشوں کا اتباع نہ کرنا اگر ایسا کیا تو تمہیں کوئی عذاب الہی سے بچانے والا نہیں ۔(خازن).

(طالب دعا: محمد عمران علی حیدری)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں