353

امام مالک کے شاگردوں نے فقہ میں امام حسن شیبانی کو فوقیت دی فقہ میں تمام اماموں پر۔

وہ ائمہ جو امام مالک کی شاگردی کے باوجود امام محمد بن حسن شیبانی کو فوقیت دی فقہ میں تمام اماموں پر
ازقلم: اسد الطحاوی الحنفی البریلوی

امام خطیب بغدادی اپنی سند صحیح سے امام شافعی کے مشہور و معروف شاگرد جو خود بہت بڑے فقیہ اور اہل رائے میں سے تھے امام المزنی (امام الطحاوی کے ماموں ) امام شافعیؒ سے انکا موقف بیان کرتے ہیں فرماتے ہیں میں نے امام شافعیؒ سے سنا کہ :

حَدَّثَنِي الحسن بن محمد الخلّال قال أنبأنا علي بن عمرو الجريري أن علي بن محمد النخعي حدثهم قال نا أحمد بن حماد بن سفيان قَالَ سمعت المزني يقول سمعت الشافعي يقول: أمن الناس علي في الفقه محمد بن الحسن.

مجھ پر فقہ کے باب میں سب سے زیادہ احسان امام محمد بن الحسن الشیبانیؒ نے کیا ہے

یعنی امام شافعی نے اس بات کا اعتراف کیا کہ وہ اپنی زندگی میں جتنے بھی شیوخ سے علم کا فیض حاصل کیا ہے لیکن ان پر فقہ میں امام محمد بن الحسن سے زیادہ احسان کسی اور نے نہیں کیا سوائے امام محمد بن الحسن الشیبانی مجتہد کے

سند کی تحقیق:
۱۔ پہلارا وی: الحسن بن علي، أبو محمّد، ويقال: أَبُو عَلِيّ الخلال، المعروف بالحلواني
وكان حافظا ثقة، وورد بغداد.
[تاریخ بغداد ، برقم: ۳۸۸۴]

۲۔ سند کا دوسرا راوی : عليّ بن عمرو بْن سهل، أَبُو الحسن الحريري
وكان ثقة.
قَالَ لي الخلال: مات علي بْن عمرو الحريري فجأة سلخ صفر سنة ثمانين وثلاثمائة.
[تاریخ بغداد ، برقم:۶۳۸۴]

۳۔ تیسرا راوی : علي بْن مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَن بْن مُحَمَّدِ بْنِ عمر بن سعيد بن مالك بن يحيى بْن عَمْرو بْن يَحْيَى بْن الحارث، أَبُو القاسم النخعي القاضي المعروف بابن كاس
، وكان من المقدمين فِي الفقه من الكوفيين الثقات
[تاریخ بغداد ، برقم:۶۴۶۹]

۴۔ چوتھا راوی: احمد بن حماد بن سفیان
َكَانَ ثِقَةً. ولي قضاء المصيصة، وذكره الدَّارَقُطْنِيّ فَقَالَ: لا بأس به.
[تاریخ بغداد، برقم: ۲۱۱۳]

۵۔ پانچوے راوی : امام المزنی جو فقہ شافعی کے مشہور و معروف فقیہ تھے جو اہل رائے میں سے تھے نہ کہ محدثین میں سے کیونکہ انکو فقہ میں معرفت فقہ شافعی میں سب شوافع پر مقدم تھی اور فقہ شافعی کی تدوین میں انکا بنیادی قردار ہے
اور یہ امام ابو جعفر الطحاوی کے ماموں تھے اور انکے اعظیم بھانجے امام طحاوی اپنے دور کے محدثین اور فقہا میں یکتا اور بے مثل تھے

امام ذھبیؒ سیر اعلام میں انکا ترجمہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
الامام ، علامہ فقیہ عالم ذھاد المصری تلمیذ امام شافعی تھے
لیکن یہ بہت کم روایات بیان کرنے والے تھے لیکن فقہ میں علم کا سمندر تھے

(نوٹ: اس سے ایک یہ نقطہ بھی ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ جو محدثین فقیہ ہوتے ہیں وہ قلیل الروایات ہوتے ہیں اکثر کیونکہ انکا شغف روایات کو لکھنا یا یاد کرکے آگے بیان کرنا نہیں ہوتا بلکہ روایات کو سننا ، اور ان سے مسائل کا استنباد کرنا ہوتا ہے
اس لیے فقیہ محدث بظاہر قلیل الروایت تو ہوتا ہے لیکن فی نفسی قلیل الحدیث نہیں ہوتا یعنی احادیث کا تو حافظ ہوتا ہے لیکن روایت کرنے میں بہت کم ہوتا ہے
جس طرح امام ابو حنیفہ قلیل الروایات تھے لیکن فی نفسی امام المحدثین تھے
امام ابن معین الحنفی یہ بھی قلیل الروایات تھے لیکن فی نفسی امام العلل اور امیر المومنین فی حدیث تھے
اور امام المزنی الشافعی بھی فقیہ تھے جو تھے قلیل الروایات لیکن چونکے اپنی ساری محنت مسائل کا استنباد کرنے میں صرف کرتے تو یہ بھی قلیل الروایات قرار پائے
لیکن کچھ جاہل جیسا کہ غیر مقلدین طوفان بد تمیزی اختیار کرتے ہیں اور قلیل الروایت کو ایک جرح یا نقص سمجھ لیتے ہیں یہ انکی جہالت اور علم رجال اور منہج محدثین سے جہالت کا نتیجہ ہے

امام ذھبی انکا ترجمہ یوں بیان کرتے ہیں
المزني أبو إبراهيم إسماعيل بن يحيى بن إسماعيل*
الإمام، العلامة، فقيه الملة، علم الزهاد، أبو إبراهيم، إسماعيل بن يحيى بن إسماعيل بن عمرو بن مسلم، المزني (3) ، المصري، تلميذ الشافعي.
مولده: في سنة موت الليث بن سعد، سنة خمس وسبعين ومائة.
حدث عن: الشافعي، وعن علي بن معبد بن شداد، ونعيم بن حماد، وغيرهم.
وهو قليل الرواية، ولكنه كان رأسا في الفقه.
حدث عنه: إمام الأئمة أبو بكر بن خزيمة، وأبو الحسن بن جوصا، وأبو بكر بن زياد النيسابوري، وأبو جعفر الطحاوي، وأبو نعيم بن عدي، وعبد الرحمن بن أبي حاتم، وأبو الفوارس بن الصابوني، وخلق كثير من المشارقة والمغاربة
[سیر اعلام النبلا، برقم: ۱۸۰]

اس تحقیق سے معلوم ہوا امام شافعی ؒ فقہ میں اپنے تمام شیوخ جن میں امام مالک ، امام سفیان بن عیینہ ، وغیرہ جیسے بڑے بڑے محدثین فقہا اورعلمائے احادیث شامل ہیں ان میں سب پر امام محمد بن الحسن الشیبانی ؒ کو فضیلت دیتے ہوئے انکا خود پر احسان کو تسلیم کرتے اور ہمیشہ امام محمد کی مداح ، انکی ثناء اور انکی شان میں اشعار میں بھی خراج تحسین پیش کرتے امام شافعی

امام خطیب بغدادی روایت بیان کرتے ہیں اپنی سند سے :

كتب إلي أبو محمد عبد الرحمن بن عثمان الدمشقي يذكر: يذكر أن خيثمة بن سليمان القرشي أخبرهم قال نا سليمان بن عبد الحميد البهراني قال سمعت يحيى بن صالح يقول قال لي ابن أكثم: قد رأيت مالكا وسمعت منه ورافقت محمد بن الحسن فأيهما كان أفقة؟ فقلت: محمد بن الحسن فيما يأخذه لنفسه أفقه من مالك.

امام یحییٰ بن صالح کہتے ہیں مجھے ابن اکثم نے کہا کہ میں نے یقینن امام مالک کو دیکھا ہے اور ان سے سماعت بھی کیا ہے اور میں نے امام محمد کی رفاقیت بھی حاصل کی ہے ان دونوں میں سے بڑا فقیہ کون ہے ؟
تو میں (یحیٰ بن صالح ) نے جواب دیا کہ محمد بن حسن وہ بہت زیادہ بڑے فقیہ ہیں امام مالک کی با نسبت
(تاریخ بغداد ، ج 2،ص 561)

سند کے رجال کا تعارف!!

1۔ أبو محمد عبد الرحمن بن عثمان بن القاسم

لشيخ، الإمام، المعدل، الرئيس، مسند الشام
ولد: سنة سبع وعشرين وثلاث مائة.
قال عبد العزيز الكتاني: وكان ثقة مأمونا عدلا رضى.
(سیر اعلام النبلاء، ج17، ص366)

2۔ خيثمة بن سليمان بن حيدرة، أبو الحسن القرشي الأطرابلسي،
أحد الثقات المشهورين
(تاریخ الاسلام، ج 7 ،ص 788)

3۔ سليمان بن عبد الحميد البهراني
سليمان بن عبد الحميد أبو أيوب البهراني الحمصي صديق أبي روى عن أبي اليمان ومحمد بن عائذ ومحمد بن إسماعيل بن عياش وحيوة بن شريح وخطاب ابن عثمان كتب عنه أبي وسمعت منه بحمص وهو صدوق

ان سے میں نے اور میرے والد سے سماعت کی ہے اور یہ صدوق ہیں
(الجرح والتعدیل ، برقم: 567)

5۔ راوی خود امام ابو زکریا یحیٰ بن صالح ہیں جو امام محمد کو امام مالک پر فوقیت دیتے ہیں فقاہت میں

انکا تذکرہ کرتے ہوئے امام ذھبی لکھتے ہیں :

الإمام، العالم، الحافظ، الفقيه، أبو زكريا يحيى بن صالح الوحاظي ، الدمشقي – وقيل: الحمصي -.

پھر انکے شیوخ کا نام ذکر کرتے ہیں :

حدث عن: مالك بن أنس، وسعيد بن عبد العزيز، وفليح بن سليمان، وزهير بن معاوية، وحماد بن شعيب الكوفي، وسليمان بن بلال، وعفير بن معدان، وسعيد بن بشير، وسليمان بن عطاء، ومحمد بن مهاجر، وسلمة بن كلثوم، ومعاوية بن سلام الحبشي، وعدة.

پھر انکے تلامذہ ذکر کرتے ہیں :

حدث عنه: البخاري، وهو والباقون – سوى النسائي – عن رجل عنه، ومحمد بن يحيى الذهلي، وأحمد بن أبي الحواري، ومحمد بن عوف، وابن وارة، وأبو أمية الطرسوسي، وعثمان بن سعيد الدارمي، وأبو زرعة الدمشقي، ويعقوب الفسوي، وأحمد بن محمد بن يحيى بن حمزة، وأحمد بن عبد الوهاب، وأحمد بن عبد الرحيم الحوطيان، وعبد الرحيم بن القاسم الرواس، وعلي بن محمد بن عيسى الجكاني ، وخلق كثير

پھر محدثین سے توثیق نقل کرتے ہیں :

قال يحيى بن معين: ثقة
وقال أبو حاتم: صدوق
وقال أبو عوانة الإسفراييني: حسن الحديث، صاحب رأي، وَكَانَ عديله محمد بن الحسن الفقيه إلى مكة
امام ابن معین کہتے ہیں کہ یہ ثقہ ہیں
امام ابو حاتم کہتے ہیں کہ یہ صدوق ہیں

امام ابو عوانہ کہتے ہیں یہ حسن الحدیث ہے اور صاحب رائے تھے اور یہ مکہ میں امام محمد بن حسن کی رفاقت میں رہے

چونکہ یہ راوی بھی امام ابو حنیفہ کے ساتھ ساتھ امام محمد کے بھی تلامذہ میں سے تھے لیکن ثقہ جید تھے اور ان پر بھی کچھ محدثین نے فضول کلام کیا

جیسا کہ امام ذھبی تصریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

وممن وثقه: ابن عدي، وابن حبان، وغمزه بعض الأئمة لبدعة فيه، لا لعدم إتقان.
اور یہ ثقہ ہی ہیں جیسا کہ ابن عدی اور ابن حبان نے قرار دیا انکو لیکن بعض ائمہ نے ان میں بدعت کا کلام کیا ہے لیکن ضبط کی کمی پر کلام نہ کیا

قال أبو جعفر العقيلي: يحيى الوحاظي حمصي جهمي
علامہ عقیلی (رائس المتعصبین ) کہتے ہیں کہ یہ جہمی تھے

اس باطل کلام کا رد کرتے ہوئے امام ذھبی کہتےہیں

قلت: قد كان ينكر الإرجاء.
میں (الذھبی) کہتا ہوں کہ یہ ارجاء کا رد کرتے تھے

قدم أحمد بن حنبل حمص، فما أخذ عن يحيى شيئا.
قال عبد الله بن أحمد: سألت أبي عن يحيى بن صالح، فقال:
رأيته في جنازة أبي المغيرة، فجعل أبي يصفه

امام احمد اعمص آئے اور انہوں نے یحییٰ سے کچھ بھی نہ سنا
اور عبداللہ کہتے ہیں میں نے والد سے یحییٰ بن صالح کے بارے پوچھا تو کہا کہ میں نے ابی مغیرہ کے جنازہ میں دیکھا اور والد نے انکی تضعیف کی
(سیر اعلام النبلاء)

امام عقیلی فرماتے ہیں :
يحيى بن صالح الوحاظي ثقة , يروي عنه الأئمة
یحییٰ یہ ثقہ ہیں اور ان سے ائمہ دین نے روایت لی ہے
(الخلیلی الارشاد ، ص 266)

اسی طرح امام ابن حجر عسقلانی فتح الباری کے مقدمہ میں ان پر ارجاء اور امام احمد کی طرف سے الزام کا رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں

يحيى بن صَالح الوحاظي الْحِمصِي من شُيُوخ البُخَارِيّ وَثَّقَهُ يحيى بن معِين وَأَبُو الْيَمَان وبن عدي وذمه أَحْمد لِأَنَّهُ نسبه إِلَى شَيْء من رأى جهم وَقَالَ إِسْحَاق بن مَنْصُور كَانَ مرجئا وَقَالَ السَّاجِي هُوَ من أهل الصدْق وَالْأَمَانَة وَقَالَ أَبُو حَاتِم صَدُوق

یحیی بن صالح جو کہ بخاری کے شیوخ میں سے ہیں انکو ثقہ امام ابن معین نے قرار دیا ، ابو ایمان اور ابن عدی نے اور امام احمد نے ان کلام کیا کہ یہ جہم والا کلام کرتے تھے ۔ اور اسحاق بن منصور نے کہا کہ وہ مرجئ تھے
اور ساجی کہتے ہیں کہ یہ سچوں میں سے ایک تھے اور امانت یعنی دیندار تھے اور ابو حاتم کہتے ہیں کہ صدوق ہیں
(ھدی الساری ، ج، ص 451)

اور تقریب میں امام ابن حجر نے انکے بارے کوئی ایسا کلام نقل رمی بالارجاء وغیرہ کا بلکہ انہوں نے لکھا

يحيى بن صالحٍ الوُحَاظِي، بضم الواو وتخفيف المهملة ثم معجمة، الحمصي: صدوقٌ من أهل الرأي، من صغار التاسعة، مات سنة اثنتين وعشرين، وقد جاز التسعين. خ م د ت ق.

یحیی بن صالح یہ صدوق اور اور اہل رائے میں سے تھے

پھر علامہ شعیب الارنووط و الدكتور بشار عواد معروف

حاشیہ میں لکھتے ہیں :
• بل: ثقةٌ، وثقه البخاري، وابن معين، وابن عدي، وأبو اليمان، والذهبي. وروى عنه أبو حاتم، وقال: صدوقٌ – وهو التعبير الذي يستعمله لشيوخه الثقات -، وذكره ابن حبان في “الثقات”. وتكلّم فيه أحمد والعقيلي وأبو أحمد الحاكم بسبب الرأي، وهو تضعيف لا يعتد به.

ثقہ ہیں انکو ثقہ بخاری، ابن معین ،ا بن عدی ، ابو الیمان ، اور ذھبی نے قرر دیا ہے اور ان سے ابو حاتم نے روایت کیا ہے اور کہا کہ صدوق ہیں اور بالجملہ ثقات میں سب نے درج کیا جیا کہ ابن حبان وغیرہم
اور جو ان پر (ذاتی) کلام کیا ہے احمد ، عقیلی ، حاکم وغیرہ نے وہ فقت انک انکے رائے یعنی قیاس کرنے کی وجہ سے ہے اور اور ایسی تضعیف کا کوئی اعتبار نہیں کیا جائے گا
(یعنی یہ محدثین نے تعصب میں کلام کیا ہے جو کہ اہل رائے سے معروف تھا ان جیسے ناقدین کا )
} تحرير تقريب التهذيب للحافظ أحمد بن علي بن حجر العسقلاني 7568)

پس معلوم ہو امام شافعی جو امام مالک کے مشہور تلامذہ میں سے ایک ہیں اور مجتہد مطلق اور صاحب مذہب ہیں وہ بھی امام محمد بن حسن شیبانی کو امام مالک سمیت تمام فقہاء وقت پر مقدم کرتے تھے اور ا امام یحییٰ بن صالح جو فقیہ امت ہیں انکے نزدیک بھی امام مالک سے امام محمد بن حسن کا مقام بہت بلند ہے
اسی لیے امام محمد بن حسن بھی مجتہد مطلق کے درجہ پر فائز تھے اگر وہ چاہتے تو اپنا مذہب مدون کر سکتے تھے لیکن انہوں نے امام اعظم کے اصول کو مدوون کیا اور فقہ کو بڑھایا

اسی لیے امام ذھبی انکے بارے فرماتے ہیں :

وكان إماما مجتهدا من الأذكياء الفصحاء.

امام محمد امام مجتہد ، نیک اور فصیح تھے (عربی میں )
[تاریخ الاسلام برقم : 306]

امام مالک حدیث میں بے شک اپنے زمانہ کے یکتہ امام تھے لیکن فقہ میں امام مالک امام ابو حنیفہ کے شاگرد امام محمد بن حسن شیبانی کے نزدیک بھی نہ تھے ۔ جیسا کہ امام مالک کے سب سے مقدم شاگرد امام شافعی ، اور امام یحییٰ کی گواہی ثابت ہے

نوٹ: باقی جو امام مالکؒ کے مقام حدیث میں وہ بھی اپنے زمانے کے بے مثال امام تھے اور فقہ میں قرآن سے علم اخذ کرنے میں امام ابو حنیفہ کے ہم پلڑہ تھے
اللہ سے دعا ہے کہ مجھے بزرگوں کے ادب پر قائم رکھے اور ان فیسبکی شیطانوں کی بھیڑ چال سے بچنے کی توفیق دے ۔

تحقیق : اسد الطحاوی الحنفی البریلوی

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں