مسند بزار
امام ابوبکر احمد بن عمرو البزار (متوفیٰ 292ھ) مشہور حفاظ محدثین میں سے ہیں۔ آپ بصرہ کےرہنے والے تھے۔ عام طور پر محدثین جوانی کی عمر میں سفر کرتے ہیں، لیکن امام بزار نے اس کے برعکس اپنی عمر کے آخری حصے میں علمِ حدیث کی اشاعت کے لیے سفر کیا۔ چنانچہ وہ اصفہان، بغداد، مصر، شام اور مکہ تشریف لے گئے اور وہاں بہت سے طالبین نے ان سے استفادہ کیا۔ آپ کی وفات دورانِ سفر رملہ شہر میں ہوئی۔
آپ کے شیوخ میں ھدبۃ بن خالد، عبد الاعلیٰ بن حماد، حسن بن علی بن راشد اور عبد اللہ بن معاویہ شامل ہیں، جبکہ آپ کے شاگردوں میں امام طبرانی، ابو الشیخ ، ابو بکر ختلی اور عبد الباقی بن قانع جیسے اساطینِ علم موجود ہیں۔
امام بزار کی حدیث پر مشہور کتاب کا نام “البحر الزخار” ہے جو “مسند بزار” کے نام سے معروف ہے۔ اسے “مسند کبیر” بھی کہا جاتا ہے۔ بعض محدثین اس کتاب کا تذکرہ “مسند کبیر معلل” کے نام سے کرتے ہیں جیساکہ حافظ ذہبی نے “تذکرۃ الحفاظ” میں اسی نام سے اس کا ذکر کیا ہے۔ معلل اس کتاب کو کہتے ہیں جس میں مصنف حدیث میں موجود علتِ قادحہ کو بیان کردے یعنی وہ اسباب بیان کردے جس کی وجہ سے حدیث میں ضعف ہے۔ چونکہ امام بزار اپنی مسند میں ہر حدیث کے بعد اس پر کلام کرتے ہیں جس میں راوی کا تفرد یا اس کے متابعات و شواہد ذکرتے ہیں اور بسا اوقات صحت و ضعف کے حوالے سے بھی حکم لگاتے ہیں اسی لیے یہ مسند کبیر معلل کہلاتی ہے۔
حافظ ذہبی نے امام بزار کا تذکرہ حفاظ میں کیا ہے اور ابنِ یونس نے بھی انہیں حافظ الحدیث کہا ہے۔ امام بزار بلاشبہ ثقہ اور صدوق ہیں، لیکن ان کے بارے میں بعض محدثین کی رائے یہ ہے کہ ثقہ ہونے کے باوجود وہ غلطیاں کرجاتے ہیں اور غلطیوں کی بنیادی وجہ ان کا محض اپنے حافظے پر بھروسہ کرنا اور کتابوں کی مراجعت نہ کرنا ہے۔ چنانچہ دارقطنی فرماتے ہیں:
ثِقَةٌ، يُخْطِئ وَيَتَّكلُ عَلَى حِفْظِهِ.
“یہ ثقہ ہیں، مگر غلطی کرجاتے ہیں اور اپنے حافظے پر بھروسہ کرتے ہیں”
ابو احمد حاکم فرماتے ہیں:
يُخْطِئ فِي الإِسْنَاد وَالمتن.
“بزار سند اور متن میں غلطی کرجاتے ہیں۔”
امام ابو عبد اللہ حاکم فرماتے ہیں:
سَأَلْتُ الدَّارَقُطْنِيّ عَنْ أَبِي بَكْرٍ البَزَّار، فَقَالَ: يُخْطِئ فِي الإِسْنَاد وَالمتن، حَدَّثَ بِالمُسْنَد بِمِصْرَ حِفْظاً، يَنْظُر فِي كُتب النَّاس، وَيُحَدِّث مِنْ حِفْظِهِ، وَلَمْ يَكُنْ مَعَهُ كُتُب، فَأَخْطَأَ فِي أَحَادِيْث كَثِيْرَة
“میں نے دارقطنی سے ابوبکر بزار کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا: وہ سند اور متن میں غلطی کرجاتے ہیں۔ انہوں نے مصر میں مسند اپنے حافظے سے بیان کی، وہ لوگوں کی کتب دیکھ رہے تھے اور زبانی اپنے حافظے سے حدیث بیان کررہے تھے، ان کے پاس کتابیں نہیں تھیں۔ چنانچہ انہوں نے بہت سی احادیث میں غلطی کی۔”
حافظ ذہبی میزان میں لکھتے ہیں کہ بزار ثقہ ہیں مگر غلطیاں کثرت سے کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ امام نسائی نے بھی ان پر جرح کی ہے۔ حافظ ذہبی کے الفاظ ہیں:
جرحه النسائي. وهو ثقة يخطئ كثيرا.
مسند بزار کی استنادی حیثیت
امام بزار نے اپنی مسند میں صحیح، حسن، ضعیف، شاذ اور منکر ہر قسم کی احادیث ذکر کی ہیں۔ ان کی عادت یہ ہے کہ وہ حدیث ذکر کرنے کے بعد سند پر کلام بھی کرتے ہیں جس میں راوی کا تفرد اور حدیث کے متابع و شواہد خاص طور پر بیان کرتے ہیں۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب مصنف خود حدیث کی صحت و ضعف بیان کررہے ہیں تو پھر اس کتاب کا مرتبہ دیگر صحاح کے برابر کیوں نہیں؟ کیونکہ قاعدہ ہے کہ جب مصنف خود حدیث کے ضعیف ہونے کی صراحت کردے تو اس سے کتاب کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس کا جواب حافظ عراقی نے یہ دیا ہے کہ امام بزار حدیث کے متابع و شواہد تو خوب بیان کرتے ہیں، مگر حدیث کی صحت و ضعف پر بہت کم کلام کرتے ہیں یعنی مسند میں ان کلام زیادہ تر متابعات و شواہد کے حوالے سے ہوتا ہے، حدیث کی تصحیح و تضعیف کے حوالے سے ان کا کلام بہت کم ملتا ہے۔ علامہ سیوطی لکھتے ہیں:
قِيلَ: وَمُسْنَدُ الْبَزَّارِ يُبَيِّنُ فِيهِ الصَّحِيحَ مِنْ غَيْرِهِ. قَالَ الْعِرَاقِيُّ: وَلَمْ يَفْعَلْ ذَلِكَ إِلَّا قَلِيلًا، إِلَّا أَنَّهُ يُتَكَلَّمُ فِي تَفَرُّدِ بَعْضِ رُوَاةِ الْحَدِيثِ وَمُتَابَعَةِ غَيْرِهِ عَلَيْهِ
“کہا جاتا ہے کہ مسند میں امام بزار صحیح و ضعیف کی وضاحت کردیتے ہیں۔ عراقی فرماتے ہیں وہ ایسا بہت کم کرتے ہیں، البتہ وہ حدیث کے بعض راویوں کے تفرد اور اس کے متابعات پر کلام کرتے ہیں۔”
حافظ ابن الصلاح فرماتے ہیں کہ جتنی بھی مسانید لکھی گئیں وہ مقام و مرتبہ میں کتبِ خمسہ کے برابر نہیں بلکہ ان سے مؤخر ہیں۔ یعنی ان میں موجود تمام احادیث اس طرح قابلِ احتجاج نہیں جس طرح کتبِ خمسہ کی ہیں اور ان کی ہر روایت پر اس طرح انحصار نہیں کیا جاسکتا جس طرح کتبِ خمسہ کی احادیث پر کیا جاتا ہے۔ کیونکہ مسند کے مصنفین ہر صحابی سے مروی روایات کی تخریج کردیتے ہیں، قطع نظر اس سے کہ وہ حدیث قابلِ احتجاج ہے بھی یا نہیں اور اس کی سند قابلِ قبول ہے بھی یا نہیں۔ چنانچہ وہ اپنے مقدمے میں لکھتے ہیں:
كُتُبُ الْمَسَانِيدِ غَيْرُ مُلْتَحِقَةٍ بِالْكُتُبِ الْخَمْسَةِ الَّتِي هِيَ: الصَّحِيحَانِ، وَسُنَنُ أَبِي دَاوُدَ، وَسُنَنُ النَّسَائِيِّ، وَجَامِعُ التِّرْمِذِيِّ،وَمَا جَرَى مَجْرَاهَا فِي الِاحْتِجَاجِ بِهَا وَالرُّكُونِ إِلَى مَا يُورَدُ فِيهَا مُطْلَقًا، كَمُسْنَدِ أَبِي دَاوُدَ الطَّيَالِسِيِّ، وَمُسْنَدِ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ مُوسَى، وَمُسْنَدِ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ، وَمُسْنَدِ إِسْحَاقَ بْنِ رَاهَوَيْهِ، وَمُسْنَدِ عَبْدِ بْنِ حُمَيْدٍ، وَمُسْنَدِ الدَّارِمِيِّ، وَمُسْنَدِ أَبِي يَعْلَى الْمَوْصِلِيِّ، وَمُسْنَدِ الْحَسَنِ بْنِ سُفْيَانَ، وَمُسْنَدِ الْبَزَّارِ أَبِي بَكْرٍ، وَأَشْبَاهِهَا، فَهَذِهِ عَادَتُهُمْ فِيهَا أَنْ يُخْرِجُوا فِي مُسْنَدِ كُلِّ صَحَابِيٍّ مَا رَوَوْهُ مِنْ حَدِيثِهِ، غَيْرَ مُتَقَيِّدِينَ بِأَنْ يَكُونَ حَدِيثًا مُحْتَجًّا بِهِ. فَلِهَذَا تَأَخَّرَتْ مَرْتَبَتُهَا – وَإِنْ جَلَّتْ لِجَلَالَةِ مُؤَلِّفِيهَا – عَنْ مَرْتَبَةِ الْكُتُبِ الْخَمْسَةِ وَمَا الْتَحَقَ بِهَا مِنَ الْكُتُبِ الْمُصَنَّفَةِ عَلَى الْأَبْوَابِ
“کتبِ مسانید دلیل لینے میں اور ان میں موجود احادیث پر مطلقاً انحصار کرنے میں کتبِ خمسہ یعنی صحیحین، سنن ابی داؤد، سنن نسائی، جامع ترمذی اور ان جیسی کتب کے برابر نہیں۔ کتبِ مسانید میں مسند ابو داؤد طیالسی، مسند عبید اللہ بن موسیٰ، مسند احمد بن حنبل، مسند اسحاق بن راھویہ، مسند عبد بن حمید، مسند دارمی، مسند ابو یعلیٰ موصلی، مسند حسن بن سفیان اور مسند بزار وغیرہ شامل ہیں۔ ان مصنفین کی عادت یہ ہے کہ وہ ہر صحابی کی مسند میں قابلِ احتجاج ہونے کی شرط لگائے بغیر ان کی حدیث روایت کردیتے ہیں۔ اسی وجہ سے ان کتب کا مقام کتبِ خمسہ سے مؤخر ہے اور ان کتب سے بھی جنہیں ابواب پر تصنیف کیا گیا ہے، اگرچہ ان کےمؤلفین جلیل القدر اور عظمت والے ہیں۔”
شاہ ولی اللہ اور شاہ عبد العزیز رحھما اللہ نے کتبِ حدیث کے جو طبقات بیان کیے ہیں اس کے مطابق مسند بزار کا شمار تیسرے طبقے کی کتب میں ہوگا جس میں صحیح، حسن، ضعیف، منکر، شاذ غرض ہر طرح کی احادیث موجود ہوتی ہیں۔ اسی لیے مسند بزار میں موجود احادیث کی تحقیق ضروری ہے اور بغیر تحقیقِ سند اس پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔
مسند بزار 20 جلدوں میں جن میں سے آخری دو جلدیں فہرست کی ہیں مدینہ منورہ سے مختلف محققین کی تحقیق کے ساتھ طبع ہوئی ہے اور جدید ترقیم کے مطابق اس میں موجود احادیث کی تعداد دس ہزار سے زائد ہے۔ علامہ ہیثمی نے مسند بزار کی زوائد کو یعنی ان احادیث کو جو صحاحِ ستہ میں موجود نہیں الگ سے جمع کیا ہے جس کا نام “كشف الأستار عن زوائد البزار” ہے۔ یہ کتاب مولانا حبیب الرحمٰن اعظمی کی تحقیق کے ساتھ بیروت سے 4 جلدوں میں طبع ہوئی ہے۔ علامہ ہیثمی نے ان زوائد کو اپنی کتاب “مجمع الزوائد” میں بھی شامل کیا ہے۔