269

الامام المہدی اور قادیانی دجال۔ حصہ اول

الامام المہدی اور مرزا قادیانی

✍🏻 مبارک علی رضوی

دوستوں حدیث میں آتا ہے کہ سیدنا امام المہدی لوگوں میں بہت سا مال تقسیم کریں گۓ۔۔۔۔۔
اگر چہ مرزا قادیانی پر حضرت امام المہدی رضی اللہ عنہ کی کوٸی بھی نشانی پوری نہیں اترتی مگر جن راہ حق کے داعی ہونے کی حیثیت سے اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرنے کی غرض سے اس موضوع پر قلم اٹھایا ہے۔لہذا یہاں امام المہدی رضی اللہ عنہ کی حدیث میں بیان کردہ ایک نشانی اور مرزا قادیانی کا تقابلی جاٸزہ لیتے ہیں۔

صحیح مسلم
کتاب: فتنوں کا بیان
باب: قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ آدمی دوسرے آدمی کی قبر کے پاس سے گزر کر مصیبتوں کی وجہ سے تمنا کرے گا کہ وہ اس جگہ ہوتا۔
حدیث نمبر: 7317

حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ حَدَّثَنَا بِشْرٌ يَعْنِي ابْنَ الْمُفَضَّلِ ح و حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ السَّعْدِيُّ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ يَعْنِي ابْنَ عُلَيَّةَ کِلَاهُمَا عَنْ سَعِيدِ بْنِ يَزِيدَ عَنْ أَبِي نَضْرَةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ خُلَفَائِکُمْ خَلِيفَةٌ يَحْثُو الْمَالَ حَثْيًا لَا يَعُدُّهُ عَدَدًا وَفِي رِوَايَةِ ابْنِ حُجْرٍ يَحْثِي الْمَالَ

ترجمہ:
نصر بن علی بشر ابن مفضل علی بن حجر اسماعیل ابن علیہ، سعید بن یزید ابی نضرہ حضرت ابوسعید ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تمہارے خلفاء میں سے ایک خلیفہ ہوگا جو کہ بغیر شمار کئے لپ بھر بھر کر لوگوں میں مال تقسیم کرے گا۔

ایسی ہی روایت صحیح مسلم میں حضرت ابوسعید ؓ اور حضرت جابر ؓ بن عبداللہ سے بھی روایت ہے۔اور ایک روایت مشکوة شریف میں بھی ایسی ہی موجود ہے۔خیر میں اصل مدعا کی طرف آتا ہوں۔۔۔۔

مرزا قادیانی کا مال تقسیم کرنا تو دور کی بات ہے اس نے کبھی زکوة بھی نہیں دی(سیرت المہدی جلد 3 ص 119 اولڈ اڈیشن).
جبکہ بخاری مسلم اور اربعین نووی وغیرہ میں حدیث جبرٸیل موجود ہے کہ اسلام کی عمارت پانچ چیزوں پر کھڑی ہے توحید و رسالت کی گواہی دینا نماز قاٸم کرنا اور زکوة دینا اور حج کرنا اور روزے رکھنا ماہ رمضان کے۔

اب زکوة ادا نہ کرنے والوں کے متعلق وعید قرآن و حدیث سے ملاحظہ فرماٸیں:

القرآن – سورۃ نمبر 9 التوبة
آیت نمبر 34

أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنَّ كَثِيۡرًا مِّنَ الۡاَحۡبَارِ وَالرُّهۡبَانِ لَيَاۡكُلُوۡنَ اَمۡوَالَ النَّاسِ بِالۡبَاطِلِ وَيَصُدُّوۡنَ عَنۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ‌ؕ وَالَّذِيۡنَ يَكۡنِزُوۡنَ الذَّهَبَ وَالۡفِضَّةَ وَلَا يُنۡفِقُوۡنَهَا فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِۙ فَبَشِّرۡهُمۡ بِعَذَابٍ اَلِيۡمٍۙ ۞
يَّومَ يُحۡمٰى عَلَيۡهَا فِىۡ نَارِ جَهَـنَّمَ فَتُكۡوٰى بِهَا جِبَاهُهُمۡ وَجُنُوۡبُهُمۡ وَظُهُوۡرُهُمۡ‌ؕ هٰذَا مَا كَنَزۡتُمۡ لِاَنۡفُسِكُمۡ فَذُوۡقُوۡا مَا كُنۡتُمۡ تَكۡنِزُوۡنَ ۞
ترجمہ:
مومنو! (اہل کتاب کے) بہت سے عالم اور مشائخ لوگوں کا مال ناحق کھاتے اور (ان کو) راہ خدا سے روکتے ہیں۔ اور جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اور اس کو خدا کے رستے میں خرچ نہیں کرتے۔ ان کو اس دن عذاب الیم کی خبر سنادو۔
جس دن وہ مال دوزخ کی آگ میں (خوب) گرم کیا جائے گا۔ پھر اس سے ان (بخیلوں) کی پیشانیاں اور پہلو اور پیٹھیں داغی جائیں گی (اور کہا جائے گا) کہ یہ وہی ہے جو تم نے اپنے لیے جمع کیا تھا سو جو تم جمع کرتے تھے (اب) اس کا مزہ چکھو۔

اور المعجم الصغیر میں ہے کہ مانع الزکوة یوم القیامة فی النار(او کما قال علیہ السلام)یعنی زکوة نہ دینے والا قیامت کے دن آگ میں ہوگا۔

احقاق حق و ابطال باطل

قادیانی کہتے ہیں کہ مرزا صاحب صاحب نصاب نہ تھے اس لیے زکوة نہ دی۔اور بعض کم عقل تو یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ انبیا ٕ زکوة کب سے دینے لگے۔۔۔۔؟اور آقاﷺ کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ انہوں نے کتنی بار زکوة دی۔آقاﷺ کبھی صاحب نصاب ہوۓ ہی نہ تھے کہ زکوة دیتے جو مال آتا راہ خدا میں تقیسم کیا جاتا۔ اور انبیا ٕ کے دلوں میں مال کو اکٹھا کرنے کی محبت نہیں ہوتی۔اس لیے نہ تو وہ صاحب نصاب ہوتے ہیں اور نہ زکوة دینے کی نوبت آتی ہے۔
اب مرزا صاحب کو دیکھیں کہ وہ صاحب نصاب بھی تھے لیکن پھر بھی زکوة ادا نہ کی۔
مرزا صاحب کے بیٹوں کو وراثت میں ایک پورا گاٶں قادر آباد ملا۔اور پھر احمد آباد جو کہ ان سے کسی طرح چھین لیا گیا تھا عرصہ چالیس سال بعد پھر واپس ہوا اور نصرت جہاں کے تینوں بیٹوں کے درمیان تقیسم ہوا۔(سیرت المہدی جلد ١ ص22 اولڈ اڈیشن) اسی طرح مرزا قادیانی کے پاس کافی دولت کا ثبوت ملتا ہے۔
علاوہ ازیں مرزا قادیانی نے محمدی بیگم کے والد کو مال و دولت کا لالچ دینے کی کوشش کی اور اپنی کل زمین اور مملوکہ کا تیسرا حصہ دینے کی پیش کش بھی کی(رخ جلد 5 ص 573-572 سن اشاعت 2008 ٕ چناب نگر,پاکستان) زکوة کے لیے 2.5% نہیں ہے مگر گل شرلے اڑانے کے لیے وافر ہے۔

یہ عذر لنگ بھی جاتا رہا کہ مرزا قادیانی صاحب نصاب نہ تھا۔

مرزا قادیانی مال و دولت کی حرص رکھنے والا :
دوستوں دعا ایک مقدس عبادت ہے۔ یہ ایسی عبادت ہے جو عبادت کا بھی مغز ہے(حدیث النبویﷺ: الدعا مغ العبادة۔ دعا مغز عبادت ہے۔ترمذی ابواب الدعوات باب ماجآ فی فضل الدعا۔ اسی طرح حدیث میں آتا ہے کہ لیس شی ٕ اکرم علی اللہ من الدعا۔ اللہ کے نزدیک دعا سے زیادہ کرامت والی کوٸی شے نہیں۔ ایضا۔)
اب مرزا قادیانی کا حال ملاحظہ ہو۔ ایک شخص ج بڑا امیر کبیر تھا نے ایک بندہ مرزا صاحب کے پاس اس لیے بھجیوایا کہ مرزا صاحب اس کے لیے دعا کریں کہ اسے لڑکا ہو۔تو مرزا صاب نے کہا کہ دعا تو جبھی کی جا سکتی ہے جب کہ کسی کے لیے دل میں محبت ہو(١) یا اس نے دین کی خدمت کی ہو(٢) اس بندے کو نہ تو میں جانتا ہوں نہ ہی اس نے دین کی خدمت کی ہے۔لہذا دعا اسی صورت ہوگی جب یہ بندہ مجھے ایک لاکھ روپیہ دے گا(سیرت المہدی جلد 1 ص 257)

(١) یہ فلسفہ دین اسلام کی رو سے غلط ہے یہاں الحب فی اللہ و البغض فی اللہ والا معاملہ ہوتا ہے۔
سنن ابوداؤد
کتاب: سنت کا بیان
باب: خواہشات نفسانیہ والوں سے اجتناب اور بغض کا بیان
حدیث نمبر: 4599

حدیث نمبر: 4599
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي زِيَادٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُجَاهِدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ رَجُلٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي ذَرٍّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ أَفْضَلُ الْأَعْمَالِ الْحُبُّ فِي اللَّهِ وَالْبُغْضُ فِي اللَّهِ.

ترجمہ:
ابوذر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سب سے افضل عمل اللہ کے واسطے محبت کرنا اور اللہ ہی کے واسطے دشمنی رکھنا ہے ۔

سنن ابوداؤد
کتاب: سنت کا بیان
باب: مرحبہ کی تردید
حدیث نمبر: 4681

حدیث نمبر: 4681
حَدَّثَنَا مُؤَمَّلُ بْنُ الْفَضْلِ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ شَابُورَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يَحْيَى بْنِ الْحَارِثِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْقَاسِمِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ قَالَ:‏‏‏‏ مَنْ أَحَبَّ لِلَّهِ وَأَبْغَضَ لِلَّهِ وَأَعْطَى لِلَّهِ وَمَنَعَ لِلَّهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَدِ اسْتَكْمَلَ الْإِيمَانَ.

ترجمہ:
ابوامامہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے اللہ ہی کے رضا کے لیے محبت کی، اللہ ہی کے رضا کے لیے دشمنی کی، اللہ ہی کے رضا کے لیے دیا، اللہ ہی کے رضا کے لیے منع کردیا تو اس نے اپنا ایمان مکمل کرلیا ١ ؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ٤٩٠٣) (صحیح)
وضاحت: ١ ؎: اس حدیث میں اعمال کو ایمان کی تکمیل کا سبب قرار دیا گویا ان اعمال کی کمی ایمان کی کمی ٹھہری، پتہ چلا ایمان گھٹتا بڑھتا ہے۔

(٢) یہ اصول بھی غلط ہے:

صحیح مسلم
کتاب: ذکر دعا و استغفار کا بیان
باب: مسلمانو کے لئے پس پشت دعا مانگنے کی فضلیت کے بیان میں۔
حدیث نمبر: 6929

حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ أَخْبَرَنَا عِيسَی بْنُ يُونُسَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِکِ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ صَفْوَانَ وَهُوَ ابْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ صَفْوَانَ وَکَانَتْ تَحْتَهُ الدَّرْدَائُ قَالَ قَدِمْتُ الشَّامَ فَأَتَيْتُ أَبَا الدَّرْدَائِ فِي مَنْزِلِهِ فَلَمْ أَجِدْهُ وَوَجَدْتُ أُمَّ الدَّرْدَائِ فَقَالَتْ أَتُرِيدُ الْحَجَّ الْعَامَ فَقُلْتُ نَعَمْ قَالَتْ فَادْعُ اللَّهَ لَنَا بِخَيْرٍ فَإِنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کَانَ يَقُولُ دَعْوَةُ الْمَرْئِ الْمُسْلِمِ لِأَخِيهِ بِظَهْرِ الْغَيْبِ مُسْتَجَابَةٌ عِنْدَ رَأْسِهِ مَلَکٌ مُوَکَّلٌ کُلَّمَا دَعَا لِأَخِيهِ بِخَيْرٍ قَالَ الْمَلَکُ الْمُوَکَّلُ بِهِ آمِينَ وَلَکَ بِمِثْلٍ

ترجمہ:
اسحاق بن ابراہیم، عیسیٰ بن یونس، عبدالملک بن ابی سلیمان ابی زبیر حضرت صفوان بن عبداللہ بن صفوان سے روایت ہے کہ ام درداء ان کی بیوی تھی میں ملک شام گیا تو میں ابودرداء کے پاس مکان پر حاضر ہوا اور وہ گھر پر موجود نہ تھے جبکہ ام درداء موجود تھیں تو انہوں نے کہا کیا تو اس سال حج کا ارادہ رکھتا ہے میں نے کہا جی ہاں انہوں نے کہا اللہ سے ہمارے لئے بھلائی کی دعا کرو کیونکہ نبی ﷺ فرمایا کرتے تھے مسلمان مرد کی اپنے بھائی کے لئے پس پشت دعا قبول ہوتی ہے اس کے سر کے پاس موکل فرشتہ موجود ہے جب یہ اپنے بھائی کے لئے بھلائی کی دعا کرتا ہے تو موکل فرشتہ اس پر آمین کہتا ہے اور کہتا ہے کہ تیرے لئے بھی اس کی مثل ہو۔
یہی حدیث مزید دو اسناد کے ساتھ صحیح مسلم میں مروی ہے۔

مرزا قادیانی نے لوگوں سے کہا کہ میں نے خواب دیکھا ہے کہ ہم نے ایک زمین خریدی ہے جہاں ہم اپنے لوگوں کی میتیں دفن کرینگے اور اسکا نام بہشتی مقبرہ ہوگا(تذکرہ ص 360 چہارم) یہ بھی لکھا کہ جو وہاں دفن ہوگا وہ جنت میں داخل ہوگا(رخ جلد 22 ص 675)
اور اس کام کے لیے مرزا قادیانی نے اپنی ہی ملکیت میں موجود زمین کا ایک قطعہ جس کی قیمت بقول ان کے ہزار روپیہ تھی اس کام کے لیے وقف کی(رخ جلد 22 ص 316)
اور پھر ۔۔۔۔۔ بلی تھیلے دے باہر آٸی۔
کہا گیا کہ یہاں وہی دفن ہوگا جو اپنی کل جاٸیداد کا دسواں حصہ مرزا قادیانی اینڈ کمپنی کو دے گا(رخ جلد 20 ص 323)
جب کہ داعی الی اللہ کا طریق بھی ملاحظہ ہو:

القرآن – سورۃ نمبر 11 هود
آیت نمبر 51

أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

يٰقَوۡمِ لَاۤ اَسۡــئَلُكُمۡ عَلَيۡهِ اَجۡرًا‌ ؕ اِنۡ اَجۡرِىَ اِلَّا عَلَى الَّذِىۡ فَطَرَنِىۡ ؕ اَفَلَا تَعۡقِلُوۡنَ ۞

ترجمہ:
میری قوم! میں اس (وعظ و نصیحت) کا تم سے کچھ صلہ نہیں مانگتا۔ میرا صلہ تو اس کے ذمّے ہے جس نے مجھے پیدا کیا۔ بھلا تم سمجھتے کیوں نہیں؟

اور مرزا قادیانی نے لکھا کہ جو اسکا مرید اسے ماہانہ چندہ نہیں دے گا وہ منافق ہے اور میری جماعت سے خارج ہے(مجموعہ اشتہارات ج ٣ ص 469)

لو جی اب سمجھ آ گیا کہ سارا چکر پیسہ کا ہی تھا۔

فیصلہ قرآن و حدیث کا تدبر آپ کا۔

===========> جاری ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں