393

آئمہ سلف اور عقیدہ حیات مسیح علیہ السلام مع تردید دلائل مرزائیہ۔قسط سوئم۔3.

آٸمہ سلف اور عقیدہ حیات مسیح علیہ السلام مع تردید دلاٸل مرزاٸیہ

قسط سوٸم

✍🏻 مبارک علی رضوی

  1. ذرا ان صوفیا ٕ کرام کے نام تو بتاٸیں جاٸیں جو مسیح علیہ السلام کے بروز کے قاٸل ہیں۔اور انہوں نے اپنی کون کون سی کتاب میں اس کا ذکر کیا ہے؟

قادیانیوں کے پاس اس ضمن میں فقط ایک حوالہ اور اسے بھی یہ نامکمل پیش کرتے ہیں۔کیونکہ اگر مکمل پیش کریں تو وہ ایک بھی نہیں بچتا 😁۔

بقول مرزا غلام قادیانی, شیخ اکرم علیہ الرحمہ اپنی کتاب اقتباس الانوار میں لکھتے ہیں:

و بعضے برآنند کہ روح عیسی در مہدی بروز کند۔و ونزول عبارت از ہمیں بروز است مطابق ایں حدیث کہ لا مہدی الا عیسی ابن مریم
(رخ جلد 14 ص 383)

جب ہم نے مندرجہ بالا کتاب سے اصل حوالہ دیکھا تو مرزا غلام قادیانی کی اصل علمی خیانت سامنے آگٸ۔ شیخ اکرم نے تو اسے نقل کرکے فرمایا :

” ایں مقدمہ بہ غایت ضعیف است واللہ اعلم “

(اقتباس الانوار فارسی ص 52 مطبع اسلامیہ لاہور)

ترجمہ: لیکن یہ بات بہت غیر معتبر ہے۔واللہ اعلم۔

(اقتباس الانوار اردو ص 113 ,مترجم:علامہ واحد بخش سیالوی, ضیا ٕ القرآن پبلی کیشنز لاہور۔)

11۔مسیح علیہ السلام کی عمر رفع کے وقت کتنی تھی اس میں اختلاف ہے۔
ایک قول 33 سال کا ہے۔جو اجماع علما ٕ کے مطابق , اسراٸیلی روایات میں سے ہے۔اور بے اصل قول ہے۔
ایک قول 120 برس کا ہے۔
بعض نے کہا کہ عند التحقیق , رفع الی السما ٕ کے وقت انکی عمر 80 سال تھی۔بعد نزول 40 یا 45 زندہ رہینگے۔یوں کل عمر 120 یا 125 سال بنتی ہے۔اور یہی بات درست اور تحقیقی ہے۔

بحر حال ان میں سے کسی ایک روایت میں بھی ان کی وفات کا ذکر نہیں۔

سیدہ عاٸشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کا عقیدہ در باب حیات عیسی علیہ السلام

مسند احمد

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ قَالَ حَدَّثَنَا حَرْبُ بْنُ شَدَّادٍ عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ قَالَ حَدَّثَنِي الْحَضْرَمِيُّ بْنُ لَاحِقٍ أَنَّ ذَكْوَانَ أَبَا صَالِحٍ أَخْبَرَهُ أَنَّ عَائِشَةَ أَخْبَرَتْهُ قَالَتْ دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا أَبْكِي فَقَالَ لِي مَا يُبْكِيكِ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ذَكَرْتُ الدَّجَّالَ فَبَكَيْتُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنْ يَخْرُجْ الدَّجَّالُ وَأَنَا حَيٌّ كَفَيْتُكُمُوهُ وَإِنْ يَخْرُجْ الدَّجَّالُ بَعْدِي فَإِنَّ رَبَّكُمْ عَزَّ وَجَلَّ لَيْسَ بِأَعْوَرَ وَإِنَّهُ يَخْرُجُ فِي يَهُودِيَّةِ أَصْبَهَانَ حَتَّى يَأْتِيَ الْمَدِينَةَ فَيَنْزِلَ نَاحِيَتَهَا وَلَهَا يَوْمَئِذٍ سَبْعَةُ أَبْوَابٍ عَلَى كُلِّ نَقْبٍ مِنْهَا مَلَكَانِ فَيَخْرُجَ إِلَيْهِ شِرَارُ أَهْلِهَا حَتَّى الشَّامِ مَدِينَةٍ بِفِلَسْطِينَ بِبَابِ لُدٍّ وَقَالَ أَبُو دَاوُدَ مَرَّةً حَتَّى يَأْتِيَ فِلَسْطِينَ بَابَ لُدٍّ فَيَنْزِلَ عِيسَى عَلَيْهِ السَّلَام فَيَقْتُلَهُ ثُمَّ يَمْكُثَ عِيسَى عَلَيْهِ السَّلَام فِي الْأَرْضِ أَرْبَعِينَ سَنَةً إِمَامًا عَدْلًا وَحَكَمًا مُقْسِطًا

ترجمہ:
حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ میرے پاس تشریف لائے تو میں رو رہی تھی، نبی ﷺ نے فرمایا تم کیوں رو رہی ہو؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! مجھے دجال کا خیال آگیا اور رونے لگی، نبی ﷺ نے فرمایا اگر دجال میری زندگی میں نکل آیا تو میں تمہاری اس سے کفایت کروں گا اور اگر وہ میرے بعد نکلا تو یاد رکھو کہ تمہارا رب کانا نہیں ہے، اس کا خروج اصفہان کے علاقے ” یہودیہ ” سے ہوگا اور وہ سفر کرتا ہوا مدینہ منورہ آئے گا اور ایک جانب پڑاؤ کرے گا، اس زمانے میں مدینہ منورہ کے سات دروازے ہوں گے اور اس کے ہر سوراخ پر دو فرشتے مقرر ہوں گے اور مدینہ منورہ میں جو لوگ برے ہوں گے وہ نکل کر اس کے پاس چلے جائیں گے، پھر وہ شام روانہ ہوجائے گا اور فلسطین کے ایک شہر میں باب لد کے قریب پہنچے گا تو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا نزول ہوجائے گا اور وہ اسے قتل کردیں گے اور اس کے بعد حضرت عیسی علیہ السلام چالیس سال تک زمین میں منصف حکمران اور انصاف کرنے والے قاضی کے طور پر زندہ رہیں گے۔

(مسند احمد جلد 6 ص 75 ح 24511. مصنف ابن ابی شیبہ جلد 7 ص 490 ح 37474. صحیح ابن حبان 1 ص 235-234 ح 6822)

  1. جباٸی معتزلی: ان کا قول اہلسنة والجماعة کے نزدیک قطا حجت نہیں.مگر جہاں ہم حافظ لکھوی و حسن قنوجی تک کا دفاع کر آۓ وہاں یہ بھی سہی۔محمدیہ پاکٹ بک کے مصنف نے کشف الاسرار کے حوالہ سے جباٸی معتزلی کا یہ قول نقل کیا کہ حضرت عیسی علیہ السلام کے رفع کے بعد یہودیوں نے کسی دوسرے شخص کو قتل کردیا تھا۔(اور اس نے یہ قول بغیر حوالہ مولانا اللہ وسایا صاحب کی کتاب قادیانی شبہات کے جوابات جلد ٢ سے نقل کیا ہے)۔

14.تاریخ طبری میں جو “ھذا قبر رسول عیسی علیہ السلام” کے الفاظ ملتے ہیں یہ دراصل سہوا آۓ ہیں۔

“قادیانی شبہات کے جوابات” جلد دوم میں مولانا اللہ وسایا صاحب تحریر کرتے ہیں کہ انہوں نے 11 مٸی 2004 ٕ کو تاریخ طبری کا عربی نسخہ خریدا اور حوالہ بالا کی تلاش شروع کی۔اور جلد اول ص 355 (طبع دار الکتب العلمیة) پر تلاش ختم ہوٸی۔ امام ابن جریر طبری نے ص 345 سے سیدنا عیسی علیہ السلام کے حالات قلم بند کرنے شروع کیے تھے اور ص 345,348,352 اور 354 پر رفع عیسی علیہ السلام کا ذکر کیا۔جو اس بات کی دلیل ہے کہ وہ رفع عیسی علیہ السلام کے قاٸل ہیں۔ اور اصل عبارت ھذا قبر رسول رسول عیسی علیہ السلام ہے۔

اس بات کا ثبوت:

کتاب الوفا ٕ ص 159-158 اور ص 1064 (ریاض) پر محدث ابن جوزی اس واقع کو نقل کرتے ہوۓ لکھتے ہیں:

فاخرجت الیھما الحجر فقراہ فاذا فیہ انا عبد اللہ الاسود رسول رسول اللہ عیسی بن مریم الی اھل قری عرینة

اسی طرح ص 1064 پر اسی واقع کو نقل کرتے ہیں:

وروی الزبیر عن موسی عن محمد عن ابیہ قال وجد قبر ادمی علی راس جا ٕ ام خالد مکتوب فیہ أنا اسود بن سوادة رسول رسول اللہ عیسی بن مریم علیہ السلام الی اھل ھذہ القریة
وعن ابن شہاب قال: وجد قبر علی جا ٕ ام خالد أربعون ذراعا فی أربعین ذراعا , مکتوب فی حجر فیہ: أنا عبد اللہ من اھل نینوی رسولُ رسولِ اللہ عیسی بن مریم علیہ السلام ألی اھل القریة,فأدرکنی الموت, فأوصیت أن أدفن فی جا ٕ ام خالد۔

پس ثابت ہوا کہ وہ قبر صحابی عیسی علیہ السلام اسود بن سوادة کی تھی اور اصل الفاظ “رسول رسول عیسی ابن مریم علیہ السلام” ہیں اور تاریخ طبری میں سہو واقع ہوا ہے۔
یہی امام ابن جریر طبری تو اپنی تفسیر میں رفع عیسی علیہ السلام کے قاٸل ہیں۔(دیکھو تفسیر آیات توفی عیسی,اور فلما توفیتنی وغیرہ)۔

15.حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی طبقات میں موجود روایت نامکمل ہے۔

مستدرک للحاکم میں یہی روایت موجود ہے۔الفاظ ملاحظہ کریں:

عن الحریث سمعت الحسن بن علی یقول قتل لیلة انزل القرآن و لیلة اسری بعیسی و لیلة قبض موسی

(ایضا جلد 4 ص 121 ح 4742. و تفسیر در منثور)

دیکھیں! حضرت علی رضی اللہ نہ کے لیے لفظ قتل حضرت موسی علیہ السلام کے لیے لفظ قبض اور حضرت عیسی علیہ السلام کے لیے لفظ اسری۔

تو واضح ہوا کہ طبقات کی عبارت میں کسی راوی نے الفاظ حذف کیے اور محض اپنی فراست سے روایت بیان کی۔

===========> جاری ہے( ان شاء اللہ)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں