آٸمہ سلف اور عقیدہ حیات عیسی علیہ السلام مع تردید دلاٸل مرزاٸیہ
قسط دوم
✍🏻 مبارک علی رضوی
2.امام مالک رحمة اللہ علیہ: شرح اکمال الاکمال کے سے نقل کیا گیا کہ و فی العتبیہ قال مالک مات عیسی ابن مریم ثلاث و ثلاثین سنة۔(اکمال الاکمال جلد اول ص 265)
مات کے معنی لغت میں نَامَ (نیند) کے بھی ہیں۔دیکھو قاموس
(رخ جلد 3 ص 445 ازالہ اوہام)۔
یہاں مات سے مراد نیند ہی ہے اسکا ثبوت اکمال کی یہ عبارت بھی ہے جو بحوالہ عتبیہ نقل کی گٸ ہے:
فی العتبیہ من قول مالک بینا الناس قیام یستمعون لاقامة الصلاة فتغشاھم غمامة فاذا عیسی قد نزل
(ایضا ص 268 طبع دار الکتب العلمیة)
اب جب کہ امام مالکؒ کا عقیدہ حیات میسح علیہ السلام واضح ہے تو پھر کوٸی جاہل ہی ہے جو یہ کہےکہ امام مالک کے نزدیک حضرت عیسی علیہ السلام فوت ہوگۓ ہیں۔
3.یہ کہنا غلط ہے کہ امام ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رحمة اللہ علیہ نے اس امر میں سکوت کیا ہے۔
امام ابی حنیفہؒ نے فقہ اکبر میں علامات قیامت میں لکھا ہے:
و نزول عیسی علیہ السلام من السما ٕ
(ایضا ص 130 طبع پروگریسو بکس لاہور )
4.مسند احمد کی پہلی پانچ جلدوں میں ہی حیات عیسی علیہ السلام پر تقریبا 38 روایات موجود ہیں۔
دیگر فقہا کا اس پر انکار ثابت نہیں اور ان فقہا کے شاگردوں کے عقاٸد بھی انہی جیسے ہیں کہ وہ اختلاف راۓ نہیں کرتے۔
5.علامہ ابن حزم کے بارے میں جلالین مع کمالین کے حوالے سے لکھا کہ انہوں نے آیت توفی عیسی سے عیسی علیہ السلام کو فوت شدہ مانا ہے۔یہ کہنا ایسا ہی ہے جیسے یہ کہہ دینا کہ حضرت ابن عباسؓ اور حضرت وہب بن منبہؒؒ بھی وفات مسیح کے قاٸل ہیں۔کیونکہ علامہ ابن حزم بھی مذہب وہب بن منبہؒ پر قاٸم ہیں۔یعنی چند ساعت کے لیے ان پر وفات طاری ہوٸی مگر پھر زندہ کر کے اللہ نے انہیں اپنی طرف اٹھا لیا۔
41-مسٸلہ- و ان عیسی علیہ السلام لم یقتل و لم یصلب و لکن توفاہ اللہ عزوجل ثم رفعہ اللہ الیہ۔و قال عزوجل {و ما قتلوہ و ما صلبوہ} و قال تعالی {انی متوفیک و رافعک الی} و قال تعالی عنہ أنہ قال {و کنت علیھم شھیدا ما دمت فیھم فلما توفیتنی کنت انت الرقیب علیھم و انت علی کل شٸی شھیدا} و قال تعالی {اللہ یتوفی الانفس حین موتھا والتی لم تمت فی منامھا} والوفاة قسمان: نوم و موت فقط۔و لم برد عیسی علیہ السلام قولہ {فلما توفیتنی} وفاة النوم فصح أنہ انما عنی وفاة الموت۔و من قال انہ علیہ السلام قتل او صلب فھو کافر مرتد حلال دمہ و مالہ لتکذیبہ القرآن و خلافة الاجماع (المحلی جلد اول ص 23 ادارہ الطباعة المنیریہ )
لیں جی! علامہ ابن حزم واقع صلیب کا عقیدہ رکھنے والے کو کافر اور مرتد فرما کر اسکا خون و مال حلال قرار دے رہے ہیں۔ مرزاٸی حضرات تو واقع صلیب کے قاٸل ہیں۔
باقی وہی عقیدہ ہے جو حضرت وہب بن منبہ وغیرہ کا ہے۔
6.عبد الحق محدث دہلوی اور نواب صدیق حسن خاں قنوجی: ان دونوں کا خیال تھا کہ حضرت عیسی علیہ السلام 33 نہیں بلکہ 120 برس کی عمر میں اٹھاۓ گۓ ہیں اور یہ دونوں ان کے آسمان سے نزول کے قاٸل تھے۔
و نزول عیسی بن مریم و یاد کرو آنحضرتﷺ فرمود آمدن عیسی را از آسمان بر زمین
(اشعة للعمات جلد 4 ص 344 از عبد الحق محدثؒ دہلوی صاحب)
اور شیخ موصوف اپنے رسالہ “ما ثبت من السنة فی ایام السنة” میں شیخ راقم ہیں:
” و نقل اہل السیر عن سعید بن المسیب قال: بقی فی البیت موضع قبر فی السھوة الشرقیہ یدفن فیہ عیسی ابن مریم علیھما السلام “
(ایضا ص 175 دار الکتب العلمیہ)
یعنی اہل سیر(سیرت نگاروں) نے حضرت سعید بن مسیب سے روایت کیا ہے کہ اس حجرہ میں شرقی جناب ایک قبر کی جگہ خالی ہے جہاں حضرت عیسی ابن مریم علیہ السلام دفن ہونگے۔
(ایام اسلام اردو ترجمہ ما ثبت من السنة ص 125 فرید بک سٹال)
- اور نواب کے عقیدہ کے لیے ملاحظہ کریں حجج الکرامة ص 422 تا 434 جہاں پر وہ آیت و ان من اھل الکتاب۔۔۔(4:159) سے حیات مسیح پر بیسوں آیات و احادیث سے استدلال کرتے ہیں۔
- حافظ محمد لکھوی صاحب اپنی تفسیر “محمدی” میں زیر آیت توفی عیسی لکھتے ہیں:
“جا کہا خدا اے عیسی ٹھیک میں تینوں پورا لیساں
تے اپنی طرف تینوں کنوں کفاراں پاک کریساں
توفی معنی قبض کرن شے صحیح سلامت پوری
تے عیسی نوں رب صحیح سلامت لے گیا آپ حضوری”
( تفسیر محمدی جلد اول ص 292 مکتبة اصحاب اہلحدیث۔)
پس ثابت ہوا کہ ان کے نزدیک بھی حضرت عیسی علیہ السلام زندہ ہیں۔
اب رہ گٸ یہ بات کہ سورہ آل عمران زیر آیت 144 وہ کہتے ہیں:
“یعنے جیویں پیغمبر گزرے زندہ ریا نہ کوٸی”
ایضا ص 347.
تو جناب اس سے حضرت عیسی علیہ السلام کی موت پر آپ کا استدلال یا اسے حافظ محمد بن بارک باللہ لکھوی کا عقیدہ کہنا بھی آپ کی جہالت پر ایک اور دلیل ہے۔
یہی ابن بارک باللہ تو سورہ النسا ٕ کی تفسیر میں یوں گویا ہیں :
“تے قتل نہ کیتا انہاں اسنوں نا اوہ سولی دھریا
اپر شبہ پیا کفاراں اوہ آسمانی چڑہیا”
ایضا ص 483.
تو کیا یہ کہنا درست ہوگا کہ یہ وفات مسیح علیہ السلام کے قاٸل ہیں؟؟؟
9.علامہ ابن عربی کی طرف جو تفسیر عراٸس البیان منسوب کی جاتی ہے یہی بات مشکوک ہے کہ وہ ان کی اپنی تفسیر ہے بھی یا نہیں۔ تو یہ ہار ان کے گلے ڈالنا بیوقوفی ہوگٸ۔
فتوحات مکیہ میں علامہ ابن عربی فرماتے ہیں:
انہ لم یمت الی الان بل رفعہ اللہ الی ھذہ السما ٕ و اسکنہ فیھا
(فتوحات مکیہ جلد 3 ص 341 باب 367)۔
اس قدر واضح بیان کے باوجود ان پر مشکوک کتاب کے پیش نظر یہ عقیدہ تھوپ دینا قادیانی شاہکار ہی ہے۔
تفسیر عراٸس البیان فی حقاٸق القرآن کے مولف کا نام “ابی محمد صدر الدین روز بہان بن ابی نصر القبلي الشیرازی” ہے۔ (م 606 ھ)۔
اسے کسی غلطی فہمی کی بنا ہے شیخ ابن عربیؒ کی طرف مسنوب کردیا گیا اور یہ انتساب غلط محض ہے۔
==========> جاری ہے( ان شاء اللہ )