395

آئمہ سلف اور حیات عیسی علیہ السلام اور مرزائیوں کے دلائل کا رد۔ قسط نمبر 1

آٸمہ سلف اور عقیدہ حیات عیسی علیہ السلام مع تردید دلاٸل مرزاٸیہ :

قسط اول

✍🏻 مبارک علی رضوی

1.امام بخاری(رحمة اللہ علیہ) :
امام بخاری رحمة اللہ علیہ کے بارے میں لکھا گیا کہ انہوں نے کتاب التفسیر باب نمبر 13 {ما جعل اللہ من بحیرة و لا ساٸبة۔۔۔۔۔۔} ص 879 طبع بیت الافکار پر سیدنا عباس رضی اللہ عنہ سے یہ روایت نقل کی کہ
” و قال ابن عباس: متوفیک: ممیتک”
اور سیدنا ابی بکر رضی اللہ کا خطبہ نقل کیا اس لیے وہ بھی وفات مسیح کے قاٸل🤦🏼‍♂️۔

اول تو سیدنا ابی بکر رضی اللہ عنہ کے خطبہ میں کہیں بھی وفات مسیح علیہ السلام کا ذکر نہیں۔اور جس آیت کے خطبہ میں آنے سے مرزاٸی واویلا کرتے ہیں وہاں لفظ خلت ہے جسکا معنی گزرنا ہوتا ہے۔آیات ملاحظہ کریں۔
قد خلت من قبلکم سنن۔۔۔۔(ال عمران:137)
لایٶمنون بہ و قد خلت سنة الاولین(الحجر:13)
۔۔۔۔۔سنت اللہ التی قد خلت فی عبادہ۔۔۔۔(المومن:40)
سنت اللہ التی قد خلت من قبل۔۔۔۔(الفتح:23)
اب واضح ہوا کہ گزرنا بمعنی سابق۔۔۔۔
ایک بات اور اگر تو اس خطبہ سے کہیں بھی وفات مسیح علیہ السلام کا ثبوت ملتا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنے دورے خلافت میں حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے خط ,جو انہوں نے وصی عیسی ذریت بن برتملا رضی اللہ عنہ کے متعلق لکھا تھا,کے پیش نظر حضرت نضلہ رضی اللہ عنہ کی معیت میں 4000 افراد کو کوہ حلوان کی طرف کیوں روانہ کیا؟؟(فتوحات مکیہ جلد اول ص 340-339 دار الکتب العلمیہ بیروت)
اب ذرا وصی عیسی علیہ السلام کی اصحاب النبیﷺ سے ملاقات و گفتگو کا حال مختصر سنیں۔
أنا ذریب بن برثملا وصي العبد الصالح عیسی ابن مریم علیھما السلام أسکنني ھذا الجبل و دعا بطول البقا ٕ إلی نزولہ من السما ٕ۔فیقتل الخنزیر و یکسر الصلیب۔
(فتوحات مکیہ جلد 1 ص 339)
ترجمہ: میں ذریب بن برثملا(ذریت بن برتملا) عبد الصالح عیسی ابن مریم علیھما السلام کا وصی۔مجھے اس پہاڑ پر سکونت کا حکم دیا گیا ہے۔اور طوالت عمر کی دعا کی گٸ ہے یہاں تک کہ حضرت عیسی علیہ السلام آسمان سے آجاٸیں۔اور خنزیر کو قتل کریں اور صلیب کو مٹادیں۔(Bravo)

ما أنا علیہ و اصحابي

سیدنا عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ :

قادیانی آدھا قول نقل کرکے کہتے ہیں کہ سیدنا عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ وفات مسیح کے قاٸل تھے۔اور ان کی کی گٸ متوفیک کی تفسیر ممیتک کا حوالہ دیتے ہیں مگر نافہم پوری بات نقل نہیں کرتے۔۔۔ان کے پاس صرف رٸیس المحدثین امام بخاری رحمة اللہ علیہ کا بے سند قول ہے جب کہ ہمارے پاس مجدد , محدث ,مفسر بے بدل ستر بار زیارت مصطفی ﷺ سے مشرف ہونے والے حضرت جلال الدین السیوطی کا نقل کیا گیا باسند قول موجود ہے۔(اور قادیانیوں! مرزا قادیانی کے مطابق مجدد پر ایمان لانا فرض ہے۔رخ جلد 6 ص 344.شہادة القرآن) لہذا تمہیں امام السیوطی کا یہ باسند قول ماننا پڑے گا۔ یا تو اس کی سند کو ضعیف ثابت کرو یا قبول کرو۔

اور وہ قول یہ ہے:

و أخرج اسحاق بن بشر و ابن عساکر من طریق جوھر عن الضحاک عن ابن عباس فی قولہ{انی متوفیک و رافعک} یعنی رافعک ثم متوفیک فی آخر الزمان
(تفسیر الدر المنثور فی التفسیر الماثور جلد اول ص 226)

مزید دلاٸل:
آیت ھذا میں تقدیم و تاخیر ہے:
1.حضرت قتادہ(الاتقان فی علوم القرآن)
2.حضرت عبد اللہ ابن عباس(جلالین)
3.صاحب تفسیر مدارک بھی تقدیم و تاخیر کے قاٸل
4.امام رازی(تفسیر کبیر)
5.تفسیر خازن

دلاٸل از مرزا قادیانی:

مرزا قادیانی لکھتا ہے:
“اور مطہرک کی پیشگوٸی میں یہ اشارہ ہے کہ ایک زمانہ آتا ہے کہ خدا تعالی ان الزاموں سے مسیح کو پاک کرے گا اور وہ زمانہ یہی ہے۔اگر چہ حضرت عیسی علیہ السلام کی تطہیر ہمارے نبی ﷺ کی گواہی سے بھی عقلمندوں کی نظروں میں ہوگٸ۔۔۔۔۔۔۔لیکن یہ گواہی عوام کی نظر میں نظری اور باریک تھی اس لۓ اللہ تعالی کے انصاف نے یہی چاہا کہ جیسا حضرت مسیح علیہ السلام کا مصلوب ہونا ایک مشہور امر تھا اور امور بدیہیہ مشہودہ محسوسہ میں سے تھا اس لیے تطہیر اور بریت بھی امور مشہودہ اور محسوسہ میں سے ہونی چاہیے۔سو اب اسی کے موافق ظہور میں آیا یعنی تطہیر صرف نظری نہیں بلکہ محسوس طور پر ہوگٸ. “(رخ جلد 15 ص 55)
مرزا غلام قادیانی ہی ایک جگہ لکھتا ہے کہ:
“دوسری طرف ایسی احادیث بھی ہیں جو یہ بتلاتی ہیں کہ مسیح موعود کے وقت میں تقریبا تمام زمین پر عیساٸی سلطنت شان و شوکت رکھتی ہوگی۔” {رخ 22 ص 496}

یعنی بقول مرزا قادیانی وعدہ تطہیر{وعدہ نمبر 3} آنحضرتﷺ اور بعد ازاں مرزا قادیانی کے ذریعے پورا ہوا مگر جو آیت میں غلبہ کا وعدہ تھا{وعدہ نمبر 4} وہ تو مرزا قادیانی کے آنے سے قبل ہی پورا ہوگیا۔اب یہ کیسے ہوسکتا ہے مرزاٸیوں کے وعدوں کی ترتیب میں خلل آجاۓ۔پس آیت میں کسی نہ کسی طرح سے مرزا قادیانی بھی تقدیم و تاخیر کا قاٸل ہے۔
کیا اس تقدیم و تاخیر کا ثبوت ملے گا ہمیں۔۔۔؟

اگر ابھی بھی کوٸی مرزاٸی اپنے وہی بے سرے راگ آلاپ رہا ہے تو وہ اسکا جواب دے:
متوفیک کا معنی از روۓ تحاریر مرزا قادیانی:
1.میں تجھے پوری نعمت دونگا۔ (رخ 1 ص 620)
2.میں تجھے ایسی ذلیل اور لعنتی موت سے بچاونگا۔ (رخ 12 ص 20,حاشیہ)
3.میں تجھے طبعی وفات دونگا۔ (رخ 12 ص 43)
4.میں تجھے کامل اجر بخشوں گا۔ (رخ 1 ص 665-664)

  1. پیدا ہوگیا۔ (رخ 19 ص 49)۔

اب مرزاٸی بتاٸیں کہ “علم نحو” کے قاعدے کا کیا بنا؟😅
مرزا قادیانی لکھتا ہے کہ :
“اور علم نحو میں صریح یہ قاعدہ مانا گیا ہے کہ توفی کے لفظ میں جہاں خدا فاعل اور انسان مفعول بہ ہو ہمیشہ اس جگہ توفی کے معنی مارنے اور قبض روح کرنے کے آتے ہیں” (رخ 17 ص 162)
قارٸین! ذرا علم نحو کی تعریف پڑھ لیں۔اور پھر بتاٸیں کہ کیا علم نحو میں الفاظ کے معنوں پر توجہ کی جاتی ہوگی؟
النحو علم باصول یعرف بھا احوال اواخر الکلم الثلث من حیث الاعراب والبنا ٕ وکیفیة ترکیب بعضھا مع بعض
ترجمہ: علم نحو ان اصول کا جاننا ہے جن سے تینوں کلمات(اسم ,فعل,حرف) کے آخر کے حالات معرب و مبنی کی حیثیت سے پہچانے جاٸیں اور ایک کلمہ کو دوسرے کلمہ کے ساتھ ملانے کا طریقہ معلوم ہو۔
اور علم نحو کا موضوع بھی کلمہ و کلام ہی ہے۔تو اب بتاٸیں کہ کیا علم نحو بحث کرے گا الفاظ کے معنوں میں یا لغت؟؟
سوال:
اگر توفی بمعنی موت ہے تو فاعل اللہ اور مفعول انسان ہونے کے باوجود لم تمت کیوں فرمایا گیا؟{الزمر: 42}
اب رہی بات مرزا قادیانی کی کہ توفی کا معنی موت اور قبض روح ہے تو چلیں موت اور قبض روح کے متعلق بھی ایک تحقیق ہدیہ قارٸین ہے:
موت: لغت کی رو سے موت کے معنی نیند اور بے ہوشی کے بھی ہیں۔ {رخ 3 ص 620}

چلو شاباش ! اٹھو گھر جاٶ 😆😅

قبض روح:

الجامع الصحیح للبخاری

حَدَّثَنَا ابْنُ سَلَامٍ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا هُشَيْمٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ حُصَيْنٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ حِينَ نَام عَنِ الصَّلَاةِ، ‏‏‏‏‏‏قَال النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ إِنَّ اللَّهَ قَبَضَ أَرْوَاحَكُمْ حِينَ شَاءَ، ‏‏‏‏‏‏وَرَدَّهَا حِينَ شَاءَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَضَوْا حَوَائِجَهُمْ وَتَوَضَّئُوا إِلَى أَنْ طَلَعَتِ الشَّمْسُ، ‏‏‏‏‏‏وَابْيَضَّتْ فَقَامَ فَصَلَّى.

ترجمہ:
ہم سے ابن سلام نے بیان کیا، کہا ہم کو ہشیم نے خبر دی، انہیں حصین نے، انہیں عبداللہ بن ابی قتادہ نے، انہیں ان کے والد نے کہ جب سب لوگ سوئے اور نماز قضاء ہوگئی تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تمہاری روحوں کو جب چاہتا ہے روک دیتا ہے اور جب چاہتا ہے چھوڑ دیتا ہے، پس تم اپنی ضرورتوں سے فارغ ہو کر وضو کرو، آخر جب سورج پوری طرح طلوع ہوگیا اور خوب دن نکل آیا تو آپ کھڑے ہوئے اور نماز پڑھی۔

1.الجامع الصحیح للبخاری , کتاب التوحید ,باب :فی المشیٸة والارادة,ص 1425۔بیت الافکار
2.ایضا,کتاب مواقیت الصلاة , باب: الاذان بعد ذھاب الوقت ص 130.(یہاں مکمل حدیث موجود ہے۔)
لیں جی! اب قبض روح کا معنی بھی واضح ہوا ۔۔۔

چلو مرزاٸیوں ! ہن چھٹی کرو🤣😅

سیدنا عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ اور عقیدہ حیات عیسی علیہ السلام :

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ آیت و ان من اھل الکتب الا لیومنن بہ قبل موتہ تلاوت کر کے فرماتے ہیں:

خروج عیسی علیہ السلام
یعنی اس سے مراد حضرت عیسی علیہ السلام کا خروج ہے۔
(مستدرک للحاکم جلد 2 ص 338 ح 3207 )

حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے یہی تفسیر آیت انہ لعلم للساعة کے تحت بھی مروی ہے۔( قال: ھو خروج عیسی ابن مریم قبل یوم القیامة )
(مسند امام احمد جلد 5 ص 86 ح 2918 طبع موسسة الرسالة)
سیدنا عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ فرماتے ہیں کہ آقاﷺ نے فرمایا :
(دجال کا ذکر اور اسکے کارنامے بتانے کے بعد فرمایا) فعند ذلک ینزل أخی عیسی ابن مریم من السما ٕ علی جبل افیق إماما ھادیا و حکما عدلا
(کنز العمال جلد 14 ص 619 ح 39726 طبع بیروت).

أخبرنا ھشام بن محمد ابن الساٸب عن ابیہ عن ابن الصالح عن عبد اللہ ابن عباس۔سیدنا عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
موسی بن عمران اور عیسی ابن مریم علیھم السلام کے درمیان ایک ہزار نو سو سال کا فاصلہ ہے۔یہ درمیانی زمانہ عہد فترت نہ تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عیسی علیہ السلام جب اٹھاۓ گۓ تھے تو بتیس برس چھ ماہ کے تھے ان کی نبوت 30 مہینے رہی اللہ نے انہیں مع جسم اٹھالیا۔اس وقت وہ زندہ ہیں عنقریب دنیا میں واپس آٸیں گے دنیا کے حاکم ہونگے پھر اسی طرح وفات پاٸیں گے جس طرح سب لوگوں کی وفات ہوتی ہے۔
(طبقات الکبری(ابن سعد) جلد اول ص 63 طبع نفیس اکیڈمی)۔

اب امام بخاری کا عقیدہ بھی بیان کردو۔۔۔۔۔

صحیح بخاری

حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبِي ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ صَالِحٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ سَمِعَأَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَيُوشِكَنَّ أَنْ يَنْزِلَ فِيكُمْ ابْنُ مَرْيَمَ حَكَمًا عَدْلًا فَيَكْسِرَ الصَّلِيبَ وَيَقْتُلَ الْخِنْزِيرَ وَيَضَعَ الْجِزْيَةَ وَيَفِيضَ الْمَالُ حَتَّى لَا يَقْبَلَهُ أَحَدٌ حَتَّى تَكُونَ السَّجْدَةُ الْوَاحِدَةُ خَيْرًا مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا ثُمَّ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ أَبُو هُرَيْرَةَ وَاقْرَءُوا إِنْ شِئْتُمْ وَإِنْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا سورة النساء آية 159.

ترجمہ:
ہم سے اسحاق بن راہویہ نے بیان کیا، کہا ہم کو یعقوب بن ابراہیم نے خبر دی، کہا مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، ان سے صالح بن کیسان نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے سعید بن مسیب نے اور انہوں نے ابوہریرہ ؓ سے سنا، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، وہ زمانہ قریب ہے کہ عیسیٰ ابن مریم (علیہما السلام) تمہارے درمیان ایک عادل حاکم کی حیثیت سے نازل ہوں گے۔ وہ صلیب کو توڑ دیں گے، سور کو مار ڈالیں گے اور جزیہ موقوف کردیں گے۔ اس وقت مال کی اتنی کثرت ہوجائے گی کہ کوئی اسے لینے والا نہیں ملے گا۔ اس وقت کا ایک سجدہ دنيا وما فيها سے بڑھ کر ہوگا۔ پھر ابوہریرہ ؓ نے کہا کہ اگر تمہارا جی چاہے تو یہ آیت پڑھ لو وإن من أهل الکتاب إلا ليؤمنن به قبل موته ويوم القيامة يكون عليهم شهيدا‏ اور کوئی اہل کتاب ایسا نہیں ہوگا جو عیسیٰ کی موت سے پہلے اس پر ایمان نہ لائے اور قیامت کے دن وہ ان پر گواہ ہوں گے۔
(بخاری شریف ص 664 کتاب الانبیا ٕ باب نزول عیسی علیہ السلام ح 3448 طبع دار افکار)

صحیح بخاری میں اور بھی بہت سی احادیث امام بخاری لاٸے ہیں جن سے حیات مسیح علیہ السلام کا عقیدہ نکلتا ہے۔

===========> جاری ہے( ان شاء اللہ)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں