” اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو ‘ اگر تم میں سے کوئی اپنے دین سے پھرتا ہے ۔ (تو پھر جائے) اللہ اور بہت سے لوگ ایسے پیدا کر دے گا جو اللہ کو محبوب ہوں گے اور اللہ ان کو محبوب ہوگا جو مومنوں پر نرم اور کفار پر حضرت علی المرتضیٰ شیرِ خدا کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم، امام حسن بصری اور حضرت قتادہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے کہا کہ یہ حضرات سیدنا ابوبکر صدیقرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اور ان کے وہ ساتھی ہیں جنہوں نے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بعد مرتد ہونے والوں اور زکوٰۃ کے منکروں سے جہاد کیا۔اور وہ سخت ہوں گے ‘ جو اللہ کی راہ میں جدوجہد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں گے ۔ یہ اللہ کا فضل ہے ‘ جسے چاہے عطا کرتا ہے ۔ اللہ وسیع ذرائع کا مالک ہے اور سب کچھ جانتا ہے ۔یہ اہل سنت والجماعت کا اجماع ہے کہ یہ آیت نازل ہوئی اس کے مصداق ابوبکر صدیق اور ان کے ساتھی مراد ہیں
یاد رہے کہ اہل سنت کے ہاں فقط منفرد ذاتی رائے اور شاذ تفاسیر حجت نہیں بلکہ امام طبرانی المتوفی 360ھ نے المعجم الاوسط میں رویت کیا اس قول کو
جبکہ بعض اس قول کو شیعہ علماء و مشائخ معتبر مفسرین نے بھی اپنی کتب میں بیان کیا جس میں علامہ طبرسی اور مکارم شیرازی اور وغیرہ
اہم نقاط
اگر یہ آیت بعد وفات رسولِ ابوبکر صدیق کی شان میں نہیں تو کس کی شان میں ہے
وہ کون ہیں جن سے اللہ محبت کرتا ہے ایمان کے اعلیٰ ترین مقام پر فائز ہوئے
طبرسی اور شیعہ علماء کے نزدیک رسولِ کریم کی وفات کے بعد جو مرتد ہوئے ان کے مقابلہ میں اللہ کا پسندیدہ لشکر آیا تو اگر ابوبکر صدیق مرتد ہوئے اور کافر ہوئے تو ان کے مقابلہ میں کون سا لشکر آیا یعنی اللہ کا دعویٰ نعوذ باللہ جھوٹ نکلا اور ابوبکر اور عمر کے مرتد ہونے پر کوئی لشکر نہ آیا قرآن کی آیت جھوٹ ثابت ہو جائے گی
اہم نقطہ کہ مرتد ہوے مسلمہ کذاب اور دیگر کذاب اس پر شیعہ سنی تاریخ اجماع ہے اور اللہ کہتا ہے کہ مرتدین کے مقابلہ میں اپنے محبوب بندے لاؤ گا گویا مسلمہ کذاب کے مقابلہ میں ابو بکر صدیق آۓ
حدیث میں موجود علت ( ضعف یا غلطی) معلوم کرنے کا طریقہ متقدمین آئمہ علل کے ہاں۔
حدیث میں موجود علت ( ضعف یا غلطی) معلوم کرنے کا طریقہ متقدمین آئمہ علل کے ہاں۔
كتاب أوهام المحدثين الثقات (الجزء 1 ، صفحة 6)
[مفهوم العلة والوهم] العلة في اللغة: المرض، واصطلاحاً: خبر ظاهرة السلامة، اطلع فيه بعد التفتيش على قادح (١) وهذا القادح يشمل الإسناد والمتن. والوهم: هو ما يخطئ فيه المرء وهو يظنه الصواب وتجد هذه اللفظة في كتب الرجال والعلل فيقولون: (في حديثه وهم) أي غلط أو (في حديثه أوهام)، ويقولون في نقد الراوي: (صدوق يَهِمُ) أو (له أوهام). وإنما آثر المحدثون هذه اللفظة في التخطئة لأنها ألطف جرحاً وآدب نقداً من غيرها
علت کا مفہوم:
لغت میں علت کہتے ہیں “مرض کو” اور اصطلاحاً معلول حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ایسی حدیث جسکا ظاہر سلامت ہو اور اس میں تفتیش و تحقیق کے بعد اس میں چھپی ہوئی خرابی معلوم ہو جائے۔ اور یہ خرابی اسناد اور متن دونوں میں ہو سکتی ہے۔
اور وہم سے مراد یہ ہے کہ حدیث روایت کرتے ہوئے خطاء ہو جائے اور دیکھنے والا یہ سمجھے کہ یہ صواب (یعنی صحیح) ہے اور آپ کو اس طرح کے الفاظ رجال اور علل کی کتابوں میں ملیں گے تو محدثین کہتے ہیں “فی حدیثہ وہم ، یعنی اسکی حدیث میں وہم ہے۔” اس سے مراد غلطی ہے۔ یا “فی حدیثہ اوہام ، یعنی اسے حدیث میں اوہام ہوئے ہیں۔” اور محدثین کسی راوی پر نقد کرتے ہوئے کہتے ہیں: “صدوق یھم یعنی صدوق ہے وہم کا شکار ہو جاتا ہے۔” یا “لہ اوہام یعنی اسے اوہام ہوئے ہیں۔”
اور محدثین نے یہ الفاظ خطاء اور غلطیوں کے معنیٰ میں ہی لیا ہے کیونکہ وہ دوسروں کی نسبت جرح اور نقد کرنے میں بڑے نرم اور شائستہ تھے۔
[طريق معرفة العلة] جمع طرق الحديث، والنظر في اختلاف رواته، لأن جمع الروايات من حيث اتفاقها واختلافها هو مفتاح بيان الوهم واكتشافه
ایک حدیث کی علت (پوشیدہ خرابی) معلوم کرنے کا طریقہ: اس حدیث کے تمام طرق (یعنی تمام اسانید) کو جمع کیا جائے اور ان میں موجود راویوں کے اختلاف کی جانچ پڑتال کی جائے کیونکہ روایات کے جمع ہو جانے پر جہاں راویوں کا اتفاق ہو اور جہاں اختلاف ہو۔ تو یہ طریقہ کار وہم (اور غلطی) جاننے کا دروازہ ہے۔
قال يحيى بن معين: لو لم نكتب الحديث من خمسين وجهاً ما عرفناه (٢).
امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اگر ہم احادیث کو پچاس اسانید سے نہ لکھتے تو ہمیں انکی معرفت نہ ہوتی۔ (کہ کونسی حدیث معلول ہے اور کونسی نہیں۔)
وقال ابن المبارك: إذا أردت أن يصح لك الحديث فاضرب بعضه ببعض (٣)، أي: قارن بين طرقه وألفاظه
اور امام عبد اللہ بن المبارک رحمہ اللہ کہتے کہ اگر تم ارادہ کرو کہ تم پر حدیث کی صحت واضح ہو جائے تو ان احادیث کی آپس میں ضرب لگاؤ یعنی ان کے طرق (اسانید) اور الفاظ میں مماثلت دیکھو۔
قال علي بن المديني: الباب إذا لم تجمع طرقه لم يتبين خطؤه (١).
امام علی بن المدینی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اگر ایک باب کی حدیث ہو اور اسکے تمام طرق (یعنی اسانید) ایک جگہ جمع نہ کیے جائیں تو اس میں موجود خطاء واضح نہیں ہو سکے گی۔
قال الخطيب: السبيل إلى معرفة علة الحديث أن يجمع طرقه وينظر في اختلاف رواته ويعتبر بمكانهم من الحفظ ومنزلتهم في الإتقان والضبط
امام الخطیب البغدادی کہتے ہیں: کسی حدیث کی علت معلوم کرنے کا طریقہ کار یہ ہے کہ اسکے تمام طرق کو جمع کیا جائے گا اور ان میں موجود راویوں کے اختلاف کو دیکھا پرکھا جائے گا اور راویوں پر اعتبار حفظ میں ان کے مقام کو دیکھ کر کیا جائے گا اور انکے اتقان اور ضبط کے درجے کی بھی جانچ پڑتال کی جائے گی۔
وقد قال قبل هؤلاء كلهم أيوب السختياني حاثاً على كثرة السماع لتميز الروايات: إذا أردت أن تعرف خطأ معلمك فجالس غيره
اور یقیناً ان سب سے پہلے امام ایوب السختیانی نے کثرتِ سماع کرنے کی تاکید کی تاکہ روایات میں تمیز ہو سکے ، انھوں نے کہا: اگر تم اپنے شیخ کی غلطی معلوم کرنا چاہتے تو ان کے علاوہ دیگر شیوخ کی مجالس میں بھی بیٹھا کرو۔
[أقسام العلة] العلة تقع في الإسناد وهو الأكثر، وقد تقع في المتن وهو كالتالي: ١ ما وقعت العلة فيه في الإسناد ولم تقدح فيه، كإبدال راو ثقة بمثله أو زيادة ذكر راو ثقة في الإسناد. ٢ ما وقعت العلة فيه في الإسناد وقدحت فيه، كإبدال راو ضعيف براو ثقة أو يحذف من الإسناد أحد الضعفاء أو يدلسه ونحو ذلك فهذا يقدح في الإسناد والمتن معاً، إلا أن يجيء المتن من طرق أخرى غير معلولة. ٣ ما وقعت العلة في المتن ولا تقدح فيه ولا في الإسناد لإختلاف ألفاظ المتن، أو قد تقدح في لفظة من المتن لا جميعه كأن تكون فيه لفظة شاذة أو منكرة، أو تكون اللفظة صحيحة لكن من غير هذا الوجه كأن تكون وردت بإسناد آخر فأدرجها الراوي في هذا المتن. ٤ ما وقعت العلة في المتن وقدحت فيه كاختصار أخل بالمعنى، أو رواية بالمعنى غيرته
اسانید میں علتوں کی کثرت زیادہ پائی جاتی ہے اور حدیث کے متن میں بھی علت ہوتی ہے۔ وہ یہ ہیں:
علت جو اسناد میں ہوتی ہے اور اس میں قدح (یعنی بظاہر خرابی) نہیں ہوتی مثلاً ایک ثقہ راوی کو اسی کی مثل ثقہ راوی سے بدل دیا جائے یا اسناد میں ثقہ راوی کا اضافہ کر دیا جائے۔
جو علت اسناد میں واقع ہوتی ہے اور اس میں قدح (یعنی خرابی) ہوتی ہے ، جیسا کہ ایک ثقہ راوی کو ضعیف کی جگہ لے آنا یا اسناد میں سے کسی ایک ضعیف راوی کو حذف کر دینا یا اس سے تدلیس کرنا اور اسی طرح کے دیگر معاملات ، تو اس میں اسناد اور متن دونوں میں قدح (خرابی) ہے ، مگر یہ کہ متن کسی غیر معلول طرق سے آ جائے۔ (یعنی اصل صحیح حدیث سے ثابت شدہ متن صحیح ہو گا۔)
وہ علت جو متن میں واقع ہو اور اس متن میں خرابی نہ ہو اور نہ اسکی اسناد میں خرابی ہو۔ الفاظ کا اختلاف ہو کہ اس متن میں سے چند الفاظ میں خرابی (یعنی نکارت) ہو لیکن مکمل متن میں نکارت نہ پائی جائے کہ اس میں شاذ یا منکر الفاظ موجود ہوں ، یا اس میں جو صحیح الفاظ موجود ہیں وہ کسی اور سند کیساتھ آئے تھے پھر اس راوی نے اس متن میں ان الفاظ کو داخل کر دیا۔
وہ علت جو متن میں موجود ہو اور اس میں قدح (خرابی یا نکارت) ہو مثلاً ایسا اختصار جس سے اس حدیث کا معنیٰ خالی ہو جائے۔ یا اس طرح بالمعنی روایت کی جائے کہ اصل حدیث کا معنیٰ بدل جائے۔
[أقسام الوهم] قسمها الحافظ أبو الحجاج المزي إلى ثلاثة أقسام فقال: «الوهم يكون تارة في الحفظ وتارة في القول وتارة في الكتابة»
وہم کی اقسام: حافظ ابو الحجاج المزی نے وہم کی تین اقسام بیان کی ہیں: “وہم کبھی حفظ میں ہوا کرتا ہے اور کبھی قول کرتے ہوئے اور کبھی کتاب لکھتے ہوئے۔”
اکسیرات طب جدیدمصنف ممتاز الاطباء حکیم سید محمودرضا گیلانی مدظلہ
کتاب “اکسیرات طب جدید” کا مصنف ممتاز الاطباء حکیم سید محمودرضا گیلانی مدظلہ ہیں۔ یہ کتاب اردو زبان میں طب کے جدید اصولوں اور روایتی حکمت کے امتزاج پر مبنی ہے۔ مصنف نے اس میں مختلف بیماریوں کے علاج کے لیے جدید طریقے اور قدیم حکیمانہ نسخے شامل کیے ہیں۔
کتاب کی خصوصیات:
موضوعات کا احاطہ:
اس کتاب میں مختلف جسمانی اور ذہنی امراض کی تفصیل، ان کے اسباب، اور علاج کے جدید و قدیم طریقے شامل ہیں۔
تشخیص اور علاج:
ہر بیماری کی مکمل تشخیص اور اس کا مؤثر علاج بتایا گیا ہے، جس میں جڑی بوٹیوں، غذائی اجزاء، اور دیگر قدرتی اجزاء کا استعمال شامل ہے۔
طب جدید اور روایتی حکمت کا امتزاج:
حکیم گیلانی نے جدید میڈیکل سائنس کے اصولوں کو حکمت کے روایتی اصولوں کے ساتھ ہم آہنگ کیا ہے۔
مفید اکسیر نسخے:
کتاب میں مختلف بیماریوں کے لیے آزمودہ اور مفید اکسیر نسخے درج کیے گئے ہیں، جو عام قارئین اور حکماء کے لیے یکساں مفید ہیں۔
قاری کی سہولت کے مطابق ترتیب:
کتاب کو اس طرح مرتب کیا گیا ہے کہ ہر موضوع الگ الگ باب میں شامل ہے، تاکہ قارئین آسانی سے متعلقہ معلومات تک رسائی حاصل کر سکیں۔
اہم موضوعات:
جسمانی امراض اور ان کا علاج
ذہنی امراض کی وجوہات اور ان کا حل
جڑی بوٹیوں اور قدرتی اجزاء کی افادیت
جدید دوائیوں کا تجزیہ
صحت مند طرز زندگی کے اصول
یہ کتاب طب کے طلباء، محققین، اور عام لوگوں کے لیے یکساں مفید ہے جو اپنی صحت اور بیماریوں کے متعلق مستند معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
اسلام علیکم قارئین
یہ کتاب ہمارے طرف سے پی ڈی ایف ہدیہ کی جارہی ہے
اور دیگر ان عنوانات پر ہماری ویپ سائٹ پر کتب موجود ہیں اور ساتھ ساتھ روزانہ اپ لوڈ کی جارہئ ہیں
علم فقہ
علم حدیث
اسم رجال
تفسیر القران
مستند حدیث
صح ستہ
اصول اربعہ شیعہ
معتبر شرح کی کتب
حدیث اور رویت
تاریخ کی کتب
عملیات کی کتب
دیگر عنوانات کی کتب ہم اپ لوڈ کر رہے ہیں
ہماری ٹیم اسلامک ریسرچ کے ساتھ ساتھ کتب پی ڈی ایف بنانا میں مصروف ہے
اگر کوئی کتاب نہ ملے ویپ سائیٹ سے توُہمارے واٹس اپ پر رابطہ کریں
00923065809793
یہ کتاب “عجائباتِ عالم” ایک دلچسپ اور معلوماتی کتاب ہے جو دنیا کے حیرت انگیز مقامات، تعمیرات، اور ثقافتی مظاہر کے بارے میں جامع تفصیل فراہم کرتی ہے۔ یہ کتاب قارئین کو دنیا بھر کے مختلف ممالک اور ان کی منفرد ثقافتوں، تاریخی یادگاروں، اور حیران کن عجائبات سے روشناس کراتی ہے۔
کتاب کا تعارف:
“عجائباتِ عالم” میں دنیا کے مشہور عجائب جیسے مصر کے اہرامات، تاج محل، چین کی عظیم دیوار، پیزا کا جھکتا ہوا مینار، اور دیگر حیرت انگیز تعمیرات کے بارے میں معلومات دی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ، یہ کتاب مختلف ثقافتوں، روایات، اور تہواروں کے بارے میں بھی روشنی ڈالتی ہے، جس سے قارئین کو دنیا کے متنوع پہلوؤں کو سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔
مصنف کا تعارف:
اگرچہ کتاب کے سرورق پر مصنف کا نام واضح طور پر درج نہیں ہے، لیکن یہ غالباً ان لوگوں کے لیے مرتب کی گئی ہے جو تاریخ، جغرافیہ، اور عالمی ثقافتوں میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ یہ ایک محقق یا ٹیم کی کوشش معلوم ہوتی ہے جو دنیا کے عجائب کو عام فہم انداز میں پیش کرنے کے لیے کام کر رہی ہے۔
کتاب کی خصوصیات:
عالمی عجائبات: کتاب میں دنیا کے قدیم اور جدید عجائبات کی تفصیل دی گئی ہے۔
تصاویر کی موجودگی: کتاب میں رنگین تصاویر شامل ہیں جو قارئین کو ان مقامات کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد دیتی ہیں۔
معلوماتی مواد: یہ کتاب عام قارئین، طلبہ، اور اساتذہ کے لیے ایک بہترین علمی ذریعہ ہے۔
مقصد:
اس کتاب کا مقصد قارئین کو دنیا کے مختلف عجائبات سے روشناس کرانا اور ان کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے۔ یہ معلومات افزا اور تفریحی مواد فراہم کرتی ہے، جو نہ صرف تعلیمی لحاظ سے اہم ہے بلکہ قارئین کی دلچسپی کو بھی بڑھاتی ہے۔
یہ کتاب ان لوگوں کے لیے بہترین ہے جو دنیا کی حیرت انگیز تعمیرات اور ثقافتوں کو جاننے کا شوق رکھتے ہیں اور دنیا کو مختلف زاویوں سے دیکھنا چاہتے ہیں
اسلام علیکم قارئین
یہ کتاب ہمارے طرف سے پی ڈی ایف ہدیہ کی جارہی ہے
اور دیگر ان عنوانات پر ہماری ویپ سائٹ پر کتب موجود ہیں اور ساتھ ساتھ روزانہ اپ لوڈ کی جارہئ ہیں
علم فقہ
علم حدیث
اسم رجال
تفسیر القران
مستند حدیث
صح ستہ
اصول اربعہ شیعہ
معتبر شرح کی کتب
حدیث اور رویت
تاریخ کی کتب
عملیات کی کتب
دیگر عنوانات کی کتب ہم اپ لوڈ کر رہے ہیں
ہماری ٹیم اسلامک ریسرچ کے ساتھ ساتھ کتب پی ڈی ایف بنانا میں مصروف ہے
اگر کوئی کتاب نہ ملے ویپ سائیٹ سے توُہمارے واٹس اپ پر رابطہ کریں
00923065809793
“ایک روحانی عامل کی خفیہ ڈائری” حکیم محمد طارق محمود مجذوب چغتائی
یہ کتاب “ایک روحانی عامل کی خفیہ ڈائری” حکیم محمد طارق محمود مجذوب چغتائی کی تصنیف ہے۔ یہ ایک منفرد اور دلچسپ کتاب ہے جو روحانی عملیات، تعویذات، اور عاملوں کے خفیہ علوم کے بارے میں تفصیل سے روشنی ڈالتی ہے۔ اس کتاب میں روحانی علوم کے مختلف پہلوؤں کو نہایت خوبصورتی سے پیش کیا گیا ہے، جو کہ نہ صرف روحانی مسائل کے حل کے لیے مفید ہے بلکہ قارئین کے لیے علمی معلومات کا خزانہ بھی ہے۔
مصنف کا تعارف
حکیم محمد طارق محمود مجذوب چغتائی ایک معروف روحانی عالم، طبیب، اور ماہر عملیات ہیں۔ انہوں نے روحانی اور جسمانی بیماریوں کے علاج کے لیے نہایت گہرائی سے کام کیا ہے اور اس میدان میں ایک ممتاز مقام حاصل کیا ہے۔ ان کی تصانیف میں روحانی عملیات، قرآنی تعویذات، اور طب نبوی کے موضوعات کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ وہ اپنی تحریروں میں سادہ اور آسان زبان استعمال کرتے ہیں تاکہ ہر قاری اس سے استفادہ کر سکے۔
کتاب کی خصوصیات
روحانی عملیات: کتاب میں مختلف عملیات اور تعویذات کی تفصیل دی گئی ہے جو روحانی مسائل کے حل میں معاون ثابت ہو سکتی ہے۔
خفیہ علوم: عاملوں کے خفیہ علوم اور ان کے طریقہ کار کو بیان کیا گیا ہے۔
رہنمائی: یہ کتاب ان افراد کے لیے ایک گائیڈ کے طور پر کام کرتی ہے جو روحانی مسائل کا سامنا کر رہے ہوں۔
مقصد
مصنف کا مقصد عوام الناس کو روحانی اور جسمانی مسائل کے حل کے لیے قرآن و سنت کے مطابق رہنمائی فراہم کرنا ہے۔ یہ کتاب ان لوگوں کے لیے خاص طور پر مفید ہے جو روحانی علوم میں دلچسپی رکھتے ہیں یا اپنی روزمرہ زندگی میں ان علوم سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔
یہ کتاب تحقیق، علم، اور روحانی رہنمائی کا ایک بہترین مجموعہ ہے جو قارئین کو ایک منفرد تجربہ فراہم کرتی ہے۔
اسلام علیکم قارئین
یہ کتاب ہمارے طرف سے پی ڈی ایف ہدیہ کی جارہی ہے
اور دیگر ان عنوانات پر ہماری ویپ سائٹ پر کتب موجود ہیں اور ساتھ ساتھ روزانہ اپ لوڈ کی جارہئ ہیں
علم فقہ
علم حدیث
اسم رجال
تفسیر القران
مستند حدیث
صح ستہ
اصول اربعہ شیعہ
معتبر شرح کی کتب
حدیث اور رویت
تاریخ کی کتب
عملیات کی کتب
دیگر عنوانات کی کتب ہم اپ لوڈ کر رہے ہیں
ہماری ٹیم اسلامک ریسرچ کے ساتھ ساتھ کتب پی ڈی ایف بنانا میں مصروف ہے
اگر کوئی کتاب نہ ملے ویپ سائیٹ سے توُہمارے واٹس اپ پر رابطہ کریں
مصنف کا تعارف حسن الہاشمی ایک معروف مصنف ہیں جو مختلف روحانی اور علمی موضوعات پر اپنی تحقیقات اور لکھائی کے لیے جانے جاتے ہیں۔ ان کی تحریریں انسان کے روحانی اور ذہنی مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرتی ہیں، اور ان کی کتابیں ایک قیمتی اثاثہ سمجھی جاتی ہ کتاب کا تعارف
“اعداد کا جادو” ایک دلچسپ اور منفرد کتاب ہے جو اعداد کے روحانی اثرات اور ان کی طاقت کو اجاگر کرتی ہے۔ اس کتاب میں اعداد کی مدد سے مختلف مسائل کو حل کرنے اور زندگی میں سکون اور کامیابی حاصل کرنے کے طریقے بیان کیے گئے ہیں۔ کتاب میں اعداد کے جادو کو سمجھنے اور ان سے فائدہ اٹھانے کے لیے عملی نکات فراہم کیے گئے ہیں، جو قارئین کو ان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں میں کامیابی اور سکون حاصل کرنے میں مدد دے سکتے ہیں۔
اسلام علیکم قارئین
یہ کتاب ہمارے طرف سے پی ڈی ایف ہدیہ کی جارہی ہے
اور دیگر ان عنوانات پر ہماری ویپ سائٹ پر کتب موجود ہیں اور ساتھ ساتھ روزانہ اپ لوڈ کی جارہئ ہیں
علم فقہ
علم حدیث
اسم رجال
تفسیر القران
مستند حدیث
صح ستہ
اصول اربعہ شیعہ
معتبر شرح کی کتب
حدیث اور رویت
تاریخ کی کتب
عملیات کی کتب
دیگر عنوانات کی کتب ہم اپ لوڈ کر رہے ہیں
ہماری ٹیم اسلامک ریسرچ کے ساتھ ساتھ کتب پی ڈی ایف بنانا میں مصروف ہے
اگر کوئی کتاب نہ ملے ویپ سائیٹ سے توُہمارے واٹس اپ پر رابطہ کریں
00923065809793
تعارف
یہ کتاب “حفاظت” ایک قیمتی تحفہ ہے جو قرآن پاک کی آیات اور حضور نبی کریم ﷺ کی دعاؤں کے ذریعے انسان کو دنیاوی اور روحانی مشکلات سے محفوظ رکھنے کے عملی طریقے فراہم کرتی ہے۔ یہ کتاب نہ صرف دعاؤں کی افادیت کو اجاگر کرتی ہے بلکہ ہر مسلمان کے لیے ایک رہنما کے طور پر کام کرتی ہے۔ اللہ کی حفاظت طلب کرنے کے بہترین اذکار اور دعائیں اس کتاب میں ترتیب وار پیش کی گئی ہیں تاکہ قاری اپنی زندگی میں سکون اور برکت حاصل کر سکے.
اسلام علیکم قارئین
یہ کتاب ہمارے طرف سے پی ڈی ایف ہدیہ کی جارہی ہے
اور دیگر ان عنوانات پر ہماری ویپ سائٹ پر کتب موجود ہیں اور ساتھ ساتھ روزانہ اپ لوڈ کی جارہئ ہیں
علم فقہ
علم حدیث
اسم رجال
تفسیر القران
مستند حدیث
صح ستہ
اصول اربعہ شیعہ
معتبر شرح کی کتب
حدیث اور رویت
تاریخ کی کتب
عملیات کی کتب
دیگر عنوانات کی کتب ہم اپ لوڈ کر رہے ہیں
ہماری ٹیم اسلامک ریسرچ کے ساتھ ساتھ کتب پی ڈی ایف بنانا میں مصروف ہے
اگر کوئی کتاب نہ ملے ویپ سائیٹ سے توُہمارے واٹس اپ پر رابطہ کریں
شیعہ کے متعہ النساء کے فضائل مناقب اور حرام یا حلال
قارئیں آج ہم متعہ النساء کے فضائل و مناقب بیاں کرنے جا رہے ہیں شیعہ مذہب کی کتب دیکھنے کے بعد میں رہ نہیں پایا کہ اس عظیم عمل کی تعریف میں کچھ نہ کچھ بیاں کرو
مرد کا کسی عورت سے فائدہ حاصل کرنے کے کچھ طریقے کتب میں بیاں ہوئے
متعہ نکاح یعنی دائمی نکاح
یعنی حق مہر اور گواہوں کی موجودگی میں عورت مرد کا ایک دوسرے کو میں تمھیں قبول تو مجھے قبول کیا جائے تو اس کو متعہ النکاح کہا جاتا ہے اس پر سب کا اتفاق ہے یہ نکاح ہے اس میں اولاد مرد کی طرف منسوب اور عورت جائیداد میں حصہ کی مالک ہے
دوسرا متعہ حج
حج کے دوران مزے لینے کا نام ہے بلکہ اصول کافی کے مطابق امام باقرؑ سے منقول ایک حدیث کے مطابق متعہ حج میں تقیہ کرنا بھی جائزنہیں ہے جلد ۶ صفحہ ۴۱۵
متعہ النساء
یہ عموما بولا جاتا ہے کہ عورت سے نفع حاصل کرنا بعض مقامات پر متعہ النساء متعہ النکاح کے لیے بھی بولا جاتا ہے مگر آج ہم شیعہ کے ہاں متعہ النساء کی جو رائج ہے اس کی وضاحت دیکھنے جا رہے ہیں
متعہ النساء کی بعض اچھے اور انصاف پسند شیعئ کچھ شرائط لکھتے ہیں
متعہ میں بھی حق مہر ہوتا ہے
متعہ میں عورت کی رضا ہوتی ہے
متعہ کے لیے بالغ عاقل ہونا لازم ہے
متعہ کے لیے بعض کہتے ہے ولی کی اجازت ہو
لکن شیعہ کے معتبر کتب سے معلوم ہوا کہ یہ سب شرائط بھی تقیہ شریف کی دوست ہیں
اصل میں متعہ شریف ایک ایسی عبادت ہے کہ اس کے بارے میں لکھتے لکھتے ہاتھ تھک جائیں گئے مگر فضائل کم نہ ہوںُ گئے
بلکہ امام معصوم نے فرمایا متعہ عین ایمان ہے اور متعہ کرنے والا متعی کامل مومن ہے
🎾4635 من لا یحضرہ فقیہہ جلد ۳
یاد رہے کہ اہلسنت کے کتب میں بھی متعہ کے جواز کے دلائل پر روایات موجود ہیں مگر جس متعہ کی تصویر شیعئ کتب میں ہے اہل سنت کو اس متعہ کے مقام کو حاصل کرنا ناممکن ہے
اہل سنت کے ہاں بخاری اور ترمذی وغیرہ رویت میں متعہ حرام قرار دیا گیا ہے وقتی طور پر رسول اللہ نے رخصت دی اور جنگ خیبر میں وہ رخصت بھی ختم ہو گئ متعہ حرام دائمی ہو گیا 🛑بخاری 4216 🛑ترمذی 1121
یہ حرمت متعہ والی رویت شیعہ کئ کتب میں بھی موجود ہے
🛑امام باقر سے پوچھا گیا کہ کیا بغیر گواہوں کے نکاح رسول اللہ کے زمانے میں ہوتا تھا فرمایا ہرگز نہیں ہوتا تھا تہزیب الاحکام رویت 1131
مولی علی نے فرمایا گدھے کا گوشت اور متعہ حرام خیبر کے دن ہوگیا 🛑وسائل شیعہ عاملی رقم 26387 🛑استبصار طوسے رقم 511
امام موسی کاظم جی سرکار سے پوچھا گیا متعہ کا تو انہوں نے فرمایا متعہ شریف کو تم سے بے نیاز کر دیا گیا
🛑فروع کافی جلد۵ ۴۵۶
🛑امام باقر سے پوچھا گیا متعہ کرنا چاہیے تو کہا اپنے نفس متعہ سے نا پاک نہ کرو
بلکہ فرمایا شرط لگا کر نکاح جائز نہیں بحارالانوار جلد ۴۰ باب متعہ صفحہ ۳۱۸
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ متعہ عمر کے زمانے تک جاری رہا جابرابن عبداللہ و ابن مسعود و ابن عباس و معاویہ و عمروبن حریث و ابوسعید خدری وغیرہ کرتے تھے 🛑 بقول ابن حزم المحلی جلد ۹ ص ۵۱۹
جواب یہ ہے کہ ہرگز نہیں جن اصحاب تک حرمت متعہ والئ رویت نہ پہنچی تھی وہ پہلے والے حکم پر عمل پہرا تھے جس جس تک رویت پہنچتی گئ تو متعہ کا عمل بھی ترک ہوتا گیا عمر فاروق عمرو ابن حریث کا واقعہ پیش آیا تو حرام ہونے والی رویت پر سختی سے عمل کرنے کا حکم دیا اور پھر ہر صحابی تک یہ حرام ہونے والا حکم پہنچایا گیا تاکہ سب کو پتہ چل جائے ابن عباس وغیرہ کا رجوع بھی موجود ہے دیگر اصحاب کے بارے میں یہی قول ہے 🛑ترمذی 1121 🛑 مسند عوانہ 4057 🛑 تفسیر ابن عباس النساء 24
ا
🛑۔ نوٹ
جس متعہ کا ذکر ہم کو اول زمانے میں حلال کا ملا یہ متعہ اہل سنت کے اصحاب سے منقول یہ متعہ کہاں ہے ؟؟؟؟ بغیر لگام تھا نہ یہ ایمان سمجھا گیا نہ اس کے فضائل بیان کیے نہ کنواری یا چھوٹی بچی سے کیا گیا یا مرضی کے بغیر کسی صحابی نے کیا مگر ہم اب شیعہ کے متعہ کی طرف جانے سے پہلے کچھ دیر کے لیے مان لیں کہ اگر صحابہ والا متعہ اج جائز بھی مان لیا جائے تو اس کی شرائط پر کون آج پورا ہو کر متعہ کرے
حالت جنگ میں متعہ
کنواری سے کیسی صحابی نے متعہ نہ کیا
بغیر حق مہر کے کوئی متعہ نہ کیا گی
عورت کی مرضی شامل لازم ہے
لہذا اب دیکھتے ہیں شیعہ کے متعہ فضائل
❤️ متعہ پروردگار کی سنت ہے تفسیر منہج الصادقین ملا فتح اللہ کاشانی
❤️ایک مرتبہ متعہ کرنے سے مقام امام حسن ع کا مقام مل جاتا ہے دو بار متعہ کرو تو امام حسین ع اور تین بار کرو تو علی مولی مشکل کشا کے مقام پر فائز ہو جاتا ہے 🛑تفسیر منہج الصادقین جلد ۲ ص۴۹۳ 🛑للہ ثم للتاریخ موسوی ص۳۴
متعہ شریف کے فضائل میں سب سے بڑا یہ قول ہے علی ع کا مقام من کنت مولی اور موسی و ھارون کا مقام معصوم حاصل کرنا ہو تو سیدھا ایک رات کو تین بار متعہ کریں اور انفسانا وانفسکم کا مقام حاصل کریں
متعہ کے دوران صرف ہم بستری کا مزہ نہیں بلکہ چوما چٹی اور شرمگاہ چوس بھی سکتے ہیں امام معصوم ابا حسن سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ شرم گاہ چومنا بھی جائز ہے 🛑تہزیب الاحکام 1649
تہزیب الاحکام میں باب متعہ پڑھنا کے قابل ہے مجوسیوں نصرانی اور یہودی کے ساتھ بھی متعہ امام معصوم نے جائز قرار دیا 🛑تہزیب الآحکام 1102
امام خمینی کا زکر جب شیعہ کی تاریخ شیعئ سے نکال دیں تو سب ادھورا نظر آتا ہے تو متعہ پر بھی خمینئ کا فتوی و عمل پیش خدمت ہے
خمینی کہتے ہیں کہ “الخمینی کا کم عمر بچی سے نکاح کے بارے میں فتویٰ شریف”
مسأله 12- نزديكى با زوجه قبل از تمام شدن نُه سال جايز نيست- نكاحش دائمى باشد يا منقطع- و اما ساير لذتها مانند لمس نمودن با شهوت و بغل گرفتن و تفخيذ او حتى در شيرخوار، اشكالى ندارد. و اگر با او قبل از نُه سالگى نزديكى كند و او را افضا ننمايد بنابر اقوى چيزى بر او نيست مگر گناه. و اگر او را افضا كند؛ به اينكه راه بول و حيض، يا راه حيض و غائط او را يكى نمايد، براى هميشه نزديكى با آن زن بر وى حرام است، ليكن در صورت دوم (كه راه حيض و غائط يكى شود) مبنى بر احتياط (واجب) است۔
ترجمہ: نو سال کی عمر سے پہلے زوجہ سے قربت جائز نہیں نکاح دائمی ہو یا منقطع لیکن تمام لذتیں جیسے شہوت کے ساتھ مس کرنے یا بغل گیر ہونے (جپھی ڈالنے) یا رانوں کے درمیان جماع کرنے میں کوئی حرج نہیں حتٰی کہ اگر وہ دودھ پیتی بچی ہو اور اگر نو سال کی عمر سے پہلے قربت کرے تو قوی امکان ہے کہ کوئی حرج نہیں اگر اس کا افضا نہ ہو جائے (یعنی شرم گاہ پھٹ جانا) اور اگر افضا کر دے یعنی شرمگاہ اس طرح پھٹ جائے کہ پیشاب اور حیض کا مقام ایک ہو جائے یا حیض اور پاخانے کا مقام ایک ہو جائے تو پھر ہمیشہ اس عورت سے قربت حرام ہے لیکن دوسری صورت میں کہ حیض و پاخانہ کا مقام ایک ہو جائے احتیاط واجب ہے۔یعنی بس سوراخ ایک نہ ہو باقی سب جائز ہے
1: 🍎وہ کون سا غیرت مند انسان ہے جس کو نا بالغ بچی دیکھ کر شہوت آتی ہو؟؟
2: 🍎وہ کون سے انسانی شکل میں حیوان ہیں جو چھوٹی چھوٹی بچیوں کی رانوں میں جماع کرنے کو جائز سمجھتے ہیں؟؟
3: 🍎وہ کون سے آدمی کی شکل میں شیطان ہیں جو دودھ پیتی بچی سے جماع کر کے اس کی شرم گاہ پھاڑ کر گناہ نہیں سمجھتے؟؟
4:وہ کون سے frustrated بے غیرت ہیں کہ جو بچی ابھی گودی میں ہے اس کو جپھیاں ڈال کر نفسانی خواہشات پوری کرتے ہیں؟؟
5: کیا ایسے فتوؤں پہ عمل کرنے والے مرتد بے حیاء حیوانوں سے بدتر Paedophiles نہیں ہیں؟؟
اب مؤمنین کیا کریں؟؟
متعہ چھوٹی بچی سے امام خمینئ نے کیا بھی پھر صرف فتوی کی حد تک بات نہ تھی بلکہ بسند صحیح
عن سید حسین الموسوی نجفی عن امام خمینی عن سید شیعئ صاحب عن چھوٹی بچی کی چیخیں قال متعہ خمینی موسوی اپنے شیخ خمینی کا واقع بیاں کرتے ہیں کہُ ہم استاد شاگرد ایک شیعہ کے گھر رات رکے تو ایک چار سالہ بچی پر خمینی کی نظر پڑی تو اس بچی کے باپ سے خمینی نے کہا کہ شیعہ صاحب اگر یہ بچی آج رات مجھ سے متعہ کروا دیں تو باپ یہ سن کر بہت خوش ہوا اور بیٹی کو خمینئ کے حوالے کر دیا اور خمنی اس کو لے کر کمرہ میں چلا گیا اور موسوی کہتا ہے ساری رات بچی کے رونے کی آوازیں ہم سنتے رہے ۔۔۔۔۔ 🛑للہ ثم للتاریخ ص ۳۶
شیعئ مذہب کا یہ فائدہ ہے کہ بچی سے بھی متعہ کر لو نہ کوئی حق مہر کا مسلہ نہ وقت کا تعین نہ رضامندی اور روتی بھی رہے تو جبر سے بھی کر لو تو یہ ریپ نہیں بلکہ متعہ النساء ہے اجر و ثواب ہی ہے
کیا یہ متعہ کسی صحابی نے کیا ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟❌❌❌🛑
ساری شرائط متعہ جو لکھی جاتے ہیں کتب میں خمنی کے عمل سے معلوم ہوا کہ تقیہ کی قبیل سے ہیں
اچھا بلفرض چھوٹی بچی نہ ملے تو امام معصوم باقر سے پوچھا گیا کہ ایک شخص نے اپنی بہن سے متعہ کیا 🅾️تو امام معصوم نے کہا کوئی حد نہیں بس دوبارہ احتیاط کرے 🛑من لا یحضرہ الفقیہ جلد ۳ رقم 3640
بہن کے ساتھ بھی کوئی حد نہیں
اسطرح امام معصوم سے پوچھا گیا جھنڈے والی رنڈی کے ساتھ تو امام جعفر صادق کے پاس کچھ لوگ بیٹھے تھے تو امام جعفر نے مرید کے کان میں کہا کہ کر لو رنڈی کے ساتھ بھی 🛑وسائل شیعہ ص ۲۵۹ باب ۹
بعض شیعہ نے اپنے کتب میںُ لکھا کہ نکاح متعہ کا صیغہ ہوتا ہے وہ پڑھنا لازم ہوتا ہے اگر نہ پڑھو تو متعہ زنا بن جاتا ہے مگر امام معصوم جعفر صادق کے پاس ایک آدمی آیا کہ میں نے متعہ کیا مگر صیغہ پڑھنا بھول گیا تو کہا کوئی حد نہیں جا کر توبہ کر لو اگلے بار خیال کرنا
🛑من لا یحضرہ الفقیہ 4612
امام باقر نے کہا کہ کنواری سے متعہ کر لو مگر کسی کو پتہ نہ چلے کہ کیوں کہ پھر اس سے شادی کوئی نہیں کرے گا اس کی پاکدامنی کا خیال کرو
🛑من لا یحضرہ الفقیہ 4613
معلوم ہوا شیعہ جن کنواری کو کنواری سمجھ کے شادی کرتے ہیں وہ متعہ سے پاک دامن ہوتی ہے یہ طریق امام معصومُ کی ہے لہزا ہر شیعہ کنواری لڑکی کو کنوارا سمجھنا غلط فہمی ہے وہ پہلے سے متعہ شریف سے پاک ہو چکی ہے
امام معصوم سے کسی نے پوچھا کہ متعہ اس شرط پر کیا کہ سیل اوپن نہیں کرو گا اندر نہیں ڈالوں گا مگر کروائی کے دوران سیل اوپن ہوگی تو اب کیا کریں
امام نے کہا کوئی بات نہیں 🛑من لا یحضرہ الفقیہ 4614
متعہ کے حوالے سے کچھ اعتراضات شیعہ متعی علماء کی طرف سےکئے جاتے ہیں اسماء بنت ابوبکر وغیرہ پر اس کا جواب اگلی پوسٹ میں آئے گا آپ تمام احباب ویپ سائٹ میں موجود رد رافضیت کے آپشن ملاعظہ فرمائیں شکریہ
شیعہ کی کتب میں اللہ کی گستاخیاں اور غلط عقائد نظریات
رد_رافضیت اہل تشیع کی گستاخیاں
قسط نمبر 1 اللہ کی شان میں گستاخی
السلام و علیکم و رحمتہ اللہ و برکتہ،
محترم قارئین،
اہل تشیع کے گستاخانہ عقائد سے کون واقف نہیں۔۔۔۔۔اس باطل مذہب کے عقائد کا رد اہلسنت برسوں سے الحمد للہ کرتے آرہے ہیں۔۔۔۔آج سے اس سوشل میڈیا پلیٹ فارم سے ہم ان کے باطل عقائد کو دنیا میں اجاگر کرنے کا بیڑا اٹھا رہے ہیں۔۔۔۔پوسٹ زرا طویل ہوگی۔ مگر توجہ درکار ہے۔
شیعہ حضرات کا عقیدہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالی کو “بداء” یعنی مغالطہ لاحق ہوتا رہتا ہے معاذ اللہ رب العالمین۔
اول یہ سمجھیں کہ بداء کا اصل معنی ہے کیا (حوالے اہل تشیع کی معتبر کتب سے دیئے جا رہے ہیں)
بداء کا معنی یہ ہے کہ “جب پہلی رائے کے مخالف رائے ذہن میں آئے اس وقت کہا کرتے ہیں بداء لہ، اور ابوالفتح کراجگی نے کنز الفوائد میں یہی معنی تحقیق کیئے ہیں، اور جو اس کا معنی مرتضی نے الذریعہ میں تحقیق کیا ہے جس کی طرف علامہ طبرسی کا کلام بھی مشعر ہے، وہ یہ کہ بدالہ تعالی کا یہ معنی ہے کہ اللہ تعالی کو ایسا امر ظاہر ہوگیا جو پہلے اس پر ظاہر نہ تھا”۔
اس تعریف کے تائید میں علامہ طبرسی (جو شیعوں کا مجتہد اور مفسر ہے) نے “تفسیر مجمع البیان” کے ان الفاظ سے کی ہے۔
حوالہ نمبر 1: “جب کوئی چیز ظاہر ہو تو بدایبدوبدوا بولتے ہیں، اور جب کسی شخص کو ایک رائے کے بعد دوسری رائے ظاہر ہوجائے تو ایسے شخص کو وہ ذوبدوات کہتے ہیں اور اس لفظ کا استعمال اس طرح بھی آیا ہے “بدا لی فی ھذا الامر بداء” اور “بداء” کا اطلاق و استعمال اللہ تعالی کی ذات کے لیئے جائز نہیں کیونکہ وہ تمام معلومات کا ازلا ابدا علم ہے۔” حوالہ: مجمع البیان، جلد 4، صفحہ 27، سورہ الانعام، آیت 28، مطبوعہ جدید البیروت۔
علامہ طبرسی نے “بداء” کے معنی تائید کردی ہے کہ اس کا اطلاق اس وقت ہوتا ہے جب کسی کو اپنی سابقہ رائے کے بعد ایک نئی رائے ظاہر ہوجائے۔ اب ممکن ہے کوئی اہل تشیع راہ فرار اختیار کرنے کے لیئے کہے کہ علامہ صاحب نے کہہ دیا کہ اللہ کا متعصف ہونا اس لفظ سے ناجائز ہے۔ تو ہم یہ راستہ ابھی بند کیئے دیتے ہیں، علامہ طبرسی کا اللہ تعالی کے متعلق “بداء” کے اطلاق کو ناجائز کہنا “آئمہ معصومین” کے عقیدے کے خلاف ہے (جو ہم اب آگے باحوالہ زکر کریں گے) اور اس سلسلے میں بقول شیعہ جو آئمہ معصومین نے نصوص قطیعہ فرمائیں ان کی مخالفت ہے اور اس بارے میں اہل تشیع کا یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ جب کسی مجتہد یا عالم و فقیہ کی رائے آئمہ معصومین کے خلاف ہو تو وہ مردود و باطل ہوگی۔ لہذا کسی ایک دو شیعہ کا اس عقیدے کے خلاف میں آئمہ معصومین کی نصوص صریحہ کے خلاف لکھنا قطعی کوئی وقعت نہیں رکھتا۔
آئمہ اہلبیت سے اللہ تعالی کے بداء پر روایات ملاحظہ فرمائیں:
حوالہ نمبر 2: زراہ بن اعین کا بیان ہے کہ امام محمد باقر اور امام جعفر صادق رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین میں سے کسی نے فرمایا کہ کسی چیز کے ساتھ اللہ تعالی کی ایسی عبادت نہیں کی گئی جیسا کہ “بداء” کے ساتھ کی گئی اور ابن عمیر نے ہشام بن سالم سے روایت کی ہے کہ کسی چیز کے ساتھ اللہ تعالی کی ایسی تعظیم نہیں کی گئی جیسی “بداء” کے ساتھ کی گئی۔(اسکین ملاحظہ فرمائیں) حوالہ: الشافی ترجمہ اصول کافی، جلد اول، کتاب التوحید، باب البداء
حوالہ نمبر 3: ریان بن صلت کا بیان ہے کہ میں نے امام رضا سے سنا وہ کہتے تھے کہ اللہ تعالی نے کوئی پیغمبر ایسا نہیں بھیجا جس نے شراب کی حرمت نہ کی ہو اور اللہ تعالی کے لیئے “بداء” کا اقرار نہ کیا ہو۔ (اسکین ملاحظہ کریں) حوالہ: الشافی ترجمہ اصول کافی، جلد اول، کتاب التوحید، باب البداء
حوالہ نمبر 4: (بحذف اسناد) امام جعفر صادق نے فرمایا کہ عبد المطلب تنہا ایک امت میں اٹھایا جائے گا جس پر بادشاہوں کا سا جلال اور پیغمبروں کے سے نشان ہونگے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ وہ پہلے شخص ہیں جو “بداء” کے قائل ہوئے۔ (اسکین ملاحظہ کریں) حوالہ:الشافی ترجمہ اصول کافی، جلد 3، کتاب الحجت، باب مولد النبی علیہ السلام ووفاتہ
قارئین دیکھا آپ نے عند الشیع “بداء” کا قائل ہونا کتنی فضیلت کا حامل ہے؟ یہ بداء کا معاملہ اللہ پر منسوب کرنے کے پیچھے بھی ان کا ہی ایک باطل عقیدہ ہے کہ امامت “منصوص من اللہ” ہوتی ہے، پہلے عبارت ملاحظہ فرمائیں اس پر اس کا خلاصہ پیش کیا جائے گا۔
حوالہ نمبر 5: جب امام جعفر نے (اپنے بعد) اپنے بیٹے اسماعیل کی امامت کی طرف اشارہ کیا (کہ میرے بعد اسماعیل ہوگا) اور پھر ان کی زندگی ہی میں اسماعیل کا انتقال ہوگیا تو امام جعفر کے پیروکار ان سے برگشتہ ہوگئے اور کہا کہ جعفر نے ہم سے جھوٹ بولاہے یہ امام نہیں ہے کیونکہ امام تو جھوٹ نہیں بولتا بلکہ وہی کچھ کہتا ہے جو بعد میں واقع ہونا ہو۔ ان لوگوں نے کہا کہ جعفر یہ کہتا ہے کہ اللہ تعالی کو اسماعیل کی امامت میں بداء ہو گیا ہے(مغالطہ لاحق ہوگیا ہے) چنانچہ یہ لوگ اللہ کے بداء اور مشیت کے منکر ہوئے اور کہنے لگے یہ (بداء) باطل اور غیر جائز ہے۔ (
اسکین ملاحظہ فرمائیں) حوالہ: فرق الشیعہ، صفحہ 55 مصنف حسن النوبختی (اور یہی سے اہل تشیع میں اسماعیلی فرقے کی بنیاد پڑی۔) اس کا خلاصہ یہ ہوا کہ امام جعفر نے اپنی زندگی میں اپنے بڑے بیٹے اسماعیل کو امامت میں اپنا جانشین بنایا تھا اور چونکہ شیعوں کا عقیدہ ہے کہ امام کا تقرر اللہ کی طرف سے منصوص ہوتا ہے اس لیئے امام جعفر کو (بقول شیعہ) یہ فکر لاحق ہوگئی کہ لوگ کیا کہیں گے، اگر جعفر کے بعد اللہ نے اس کے بیٹے اسماعیل کو امام بنایا تھا تو وہ اس کی زندگی میں کیوں فوت ہوگیا؟ اس لیئے امام جعفر نے کہا کہ اللہ نے ہی اسماعیل کو میرے بعد امام بنایا تھا مگر اسی میں اللہ کو بداء یعنی مغالطہ ہوگیا ہے لہذا میرے بعد موسی رضا یعنی میرا دوسرا بیٹا امام ہوگا۔ (معاذ اللہ، نقل کفر کفر نبا شد) مزید برآں اس حوالے سے یہ بھی واضح ہوا کہ جب امام جعفر نے بداء کا قول کیا تو ان کے بعض پیروکار ان سے منحرف ہوئے اور بداء کا انکار کیا۔ پس ثابت ہوا شیعت سے نکلنے والے بداء کے منکر ہوئے، مگر امام جعفر اور ان کے مضبوط پیروکاروں کا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ کو بداء یعنی مغالطہ ہوجاتا ہے۔(معاذ اللہ)
حوالہ نمبر 6: ملا خلیل قزوینی نے صافی شرح اصول کافی میں اس مقام کی وضاحت کرتے ہوئے یوں لکھا ہے: جب کہ لغت کے اعتبار سے “بداء” کے حقیقی معنی پشیمانی کے ہیں، اس لیئے اپنی طرف سے اللہ تعالی کے فعل میں اس لفظ کو بطور استعارہ استعمال کرنا جرات سے خالی نہیں ہے اس لیئے عبد المطلب سے پہلے بطور استعارہ اسے اللہ کے لیئے کسی نے استعمال نہ کیا تھا جب آدمی پر خوف کا غلبہ ہو اور پریشانی میں گھرا ہوا ہو تو جرات میں معذور ہوتا ہے۔ گفتگو میں عبد المطلب نے یہ جرات (ایسی حالت میں ہی) کی۔ اور اس کے استعمال کرنے کے بعد لوگوں میں عادت جاریہ بن گئی، گویا جیسا کہ وحی ہوا ہو۔ “بداء” کے معنی کتاب التوحید کے چوبیسویں باب میں بیان ہو چکے ہیں۔ (اسکین ملاحظہ کریں) حوالہ”صافی شرح اصول کافی، جلد نمبر 3، صفحہ 162 خلاصہ: اس سے طاہر ہوا کہ اس حدیث اور دیگر احادیث میں جو باب مذکور میں وارد ہوئیں کوئی منافات نہیں وہ اس طرح کہ دیگر احادیث اس مضمون کے اثبات میں تھیں کہ اللہ کا ہر ایک پیغمبر اقرار بالبداء کے ساتھ مبعوث ہوا اور اس حدیث میں “بداء” کے بطور استعارہ ذات الہی کے افعال پر اطلاق کا مضمون ہے جو پہلے مضمون سے مطابقت رکھتا ہے۔
حوالہ نمبر 7: راوی کہتا ہے کہ میں امام علی نقی علیہ السلام کے فرزند ابو جعفر کے مرنے کے بعد ان کی خدمت میں حاضر ہوا، میرے دل میں یہ خیال تھا کہ فرزاندان امام نقی ابو جعفر اور امام حسن عسکری کا واقعہ اس وقت بالکل ویسا ہی ہے جیسا امام موسی کاظم اور اسماعیل فرزاندان امام جعفر صادق کا تھا اور جو قصہ خوردی و بزرگی کا وہاں تھا، وہی ہے (یعنی جس طرح اسماعیل، امام موسی کاظم سے عمر میں بڑے تھے اسی طرح ابو جعفر امام حسن عسکری سے بڑے ہیں) کیونکہ ابو جعفر کے بعد امام حسن عسکری امام ہوئے پھر امام نقی علیہ السلام قبل اس کے کہ میں کچھ کہوں مجھ سے فرمانے لگے اے ابو ہاشم خدا نے ابو جعفر کے بعد اپنا حکم ظاہر کیا ابو محمد (حسن عسکری) کے بارے میں جس کی لوگوں کو معرفت نہ تھی، یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ میں نے تم سے بیان کیا اگرچہ باطل پرست اس کو پسند نہ کریں۔ ابو محمد میرا بیٹا ہے میرے بعد میرا جانشین ہے اس کے پاس وہ تمام علم ہے جس کی طرف احتیاج ہوتی ہے اس کے پاس سامان امت ہے۔ (اسکین ملاحظہ فرمائیں) حوالہ: الشافی ترجمہ اصول کافی، جلد نمبر 3، کتاب الحجت، باب الاشارہ و النص علی ابی محمد علیہ السلام
حوالہ نمبر 8: امام جعفر الصادق علیہ السلام کے اس فرمان کہ خدا کو ایسا بداء کبھی نہیں ہوا جیسا میرے بیٹے اسماعیل کے بارے میں ہوا ہے، کا مطلب یہ ہے کہ کسی کام کے متعلق اللہ تعالی کی ایسی مصلحت کبھی ظاہر نہیں ہوئی جیسی میرے فرزند اسماعیل کے بارے میں ہوئی کہ میری زندگی میں اسے موت دے دی تاکہ لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ وہ میرے بعد امام نہیں۔ حوالہ: اعتقادات الصدوق، صفحہ 37 خلاصہ: یعنی اللہ نے پہلے اسماعیل کو امام بنایا پھر ایک رائے پر تجدید کر کے دوسری رائے ظاہر ہوئی۔ سوال یہ ہے کہ جب امامت منصوص من اللہ تھی تو اللہ نے اپنی ہی نص کو کیسے رد کر دیا۔ (معاذاللہ)
خلاصہ کلام: مذکورہ حوالوں سے یہ بات روز روشن کی طرح ثابت ہوئی کہ اللہ تعالی کے لیئے بداء کا عقیدہ آئمہ معصومین کی حدیث کی رو سے لازمی اور انتہائی ضروری ہے، اور دوسری بات یہ ثابت ہوئی کہ بداء کی علت فائی مسئلہ امامت ہے۔ دیکھا لوگوں آپ نے اہل تشیع کیسے شدید رب کریم کے گستاخ ہیں۔ ان کے مزید کفر انبیاء کرام علیہم الصلوہ والسلام کے بارے میں اگلی پوسٹ میں واضح کریں گے انشاءاللہ۔
حق واضح کرنے کے لیئے جتنی کفریہ عبارتیں میں نے نقل کیں اس کے لیئے اللہ غفور رحیم کے حضور معافی کا خواستگار ہوں۔۔۔۔فقط حق کو واضح کرنے اور باطل مذہب کے عقیدے کو سب پر عیاں کرنے کو ایسا کیا۔۔۔۔
وماا علینا الا البلغ المبین
”شیعہ کی کتب میں اللہ کی گستاخیاں اور غلط عقائد نظریات“ ایک تبصرہ
امام کی زمہ داری تھی وہ اللہ کے دین کو لوگوں تک پہنچاتے کیوں کہ امام معصوم اس وجہ سے ہوتا ہے کہ وہ دین پہنچانے میں غلطی نہ کرے نفسانی خواہش اس پر غالب نہ آ جائے امام زمین پر اللہ کی حجت ہوتے ہیں اب اماموں نے دین پہنچایا یا نہیں تو شی عہ معتبر کتاب الاحتجاج میں روایت ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے قرآن مجید کو جمع کر کے ابو بکر عمر رضی اللہ عنہما پر پیش کیا جس میں مہاجرین و انصار کی مذمت بیان ہوئی تھی حضرات شیخین نے لینے سے انکار کر دیا اور زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو کہا آپ قرآن مجید جمع کریں جس میں مہاجرین و انصار کی مذمت نہ ہو تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے غصہ میں آ کر کہا اب تم یہ قرآن مجید نہیں دیکھ سکو گئے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے دور حکومت میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کہا آپ اپنا قرآن مجید لائیں تو فرمایا تم اس کو قیامت تک نہیں دیکھ پاؤ گئے یعنی امام زمانہ کے آنے تک وہ آئے گا اور قرآن مجید لائے گا اب شی عہ مذہب کے مطابق حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اصل قرآن مجید کو چھپا دیا صرف اس وجہ سے صحابہ نے اسے قبول نہ کیا نہ تو اپنے دور حکومت میں رائج کر سکے نہ اپنے شی عوں کو دے سکے بلکہ امت کو اس عظیم کتاب سے محروم کر دیا آج چودہ سو سال سے امت اس عظیم کتاب کو دیکھنا چاہتی ہے لیکن اب کہاں سے وہ عظیم کتاب لائے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنی زمہ داری نہ صرف پوری کی بلکہ دوسرے اماموں کو بھی روک دیا آپ بھی امت تک اصلی قرآن نہیں پہنچانا امت آج اس عظیم نعمت سے محروم ہے تو شی عہ کتب کی مطابق حضرت علی رضی اللہ عنہ کی وجہ سے محروم ہے انہوں نے اپنی زمہ داری کو پورا نہ کیا حالانکہ جعفر و باقر کے اقوال تقیہ اور بغیر تقیہ کہ امت تک پہنچ چکے لاکھوں کی تعداد میں جھوٹ سچ مکس اپ اچار کی صورت پہنچ چکا لیکن نہ پہنچا تو قرآن مجید نہ پہنچا اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا دو چیزوں چھوڑے جا رہا ہوں آپ کے درمیان ایک قرآن مجید دوسری میری اہلبیت حضرت علی رضی اللہ عنہ نے سب سے پہلے شی عہ کتب کے مطابق امت پر یہ ظلم کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی مخالفت کی اور ثقل اکبر قرآن مجید کو چھپا دیا اور دوسرے نمبر پر اہلبیت تو اہلبیت کو بھی چھپا دیا یعنی اس وقت نہ تو امت کے پاس قرآن مجید ہے نہ ہی اہلبیت ہیں اب امت تھامے تو کس کو تھامے امت مسلمہ پر ظلم کرنے والے کون ہیں امام اور ان اماموں سے اللہ پوچھے گا امت کو اس عظیم نعمت سے کیوں محروم کیا امت آج گمراہ ہے تو کیوں ہے قرآن مجید و اہلبیت کو چھپانے کی وجہ سے یعنی نہ تو قرآن مجید موجود ہے نہ اہلبیت امت اب ان میں سے کسی کو تھام نہیں سکتی امت فرقوں میں بٹ چکی ہے کیوں کہ گمراہی سے بچنے کا صرف ایک ہی سہارا تھا وہ بھی چھین لیا گیا میں تو شکر ادا کرتا ہوں ایسے اماموں کو عہدے نہیں ملے نہیں تو جو قرآن مجید ہے اس کو بھی چھپا لیتے نوٹ یہ ساری باتیں شی عہ مذہب کی ہیں روایت لگا دی ہے علمی رد کرنا ہے تو بسم اللہ نہیں تو یاد رکھنا
6u79bm
sqk4q3